چین نے امریکا اور روس کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کی تجویز مسترد کر دی
اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT
بیجنگ: چین نے سہ فریقی ایٹمی مذاکرات کو “غیر حقیقت پسندانہ” قرار دیتے ہوئے امریکا اور روس کے ساتھ بیٹھنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز دی تھی کہ چین بھی ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے پر ہونے والی بات چیت میں شامل ہو، تاہم بیجنگ نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکا اور روس دنیا کے سب سے بڑے ایٹمی ہتھیاروں کے مالک ہیں، اس لیے تخفیفِ اسلحہ کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔ ترجمان کے مطابق چین اپنی ایٹمی صلاحیت کو صرف قومی سلامتی کے لیے کم سے کم سطح پر رکھتا ہے اور کسی دوڑ کا حصہ نہیں ہے۔
دوسری جانب شمالی کوریا نے بھی جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ کے امریکا میں دیے گئے بیان پر شدید ردعمل دیا ہے اور انہیں “منافق” قرار دیا ہے۔ پیونگ یانگ نے واضح کیا کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیار کبھی ترک نہیں کرے گا کیونکہ یہ اس کی “ریاستی عزت اور وقار” کی علامت ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 90 فیصد ایٹمی ہتھیار صرف امریکا اور روس کے پاس ہیں۔ اسٹاک ہوم انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے پاس 3 ہزار 700 سے زیادہ اور روس کے پاس 4 ہزار 300 سے زائد وارہیڈز موجود ہیں، جبکہ چین کے پاس تقریباً 500 ایٹمی ہتھیار ہیں۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امریکا اور روس اور روس کے کے پاس
پڑھیں:
اسرائیل کیساتھ سیکورٹی مذاکرات جلد کسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے، ابو محمد الجولانی
اپنے ایک بیان میں شامی رژیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اگر سیکورٹی معاہدہ طے پا گیا تو دیگر معاہدوں کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے، لیکن تاحال اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ شام کی باغی و عبوری حکومت کے سربراہ "ابو محمد الجولانی" نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی معاملات پر بات چیت جاری ہے اور ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں کوئی نتیجہ نکل آئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سیکورٹی معاہدہ طے پا گیا تو دیگر معاہدوں کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے، لیکن تاحال اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، دمشق پر اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی معاہدے کے لئے کوئی دباؤ نہیں ڈال رہا۔ دوسری جانب شام کی عبوری حکومت سے وابستہ ایک سورس نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی سیکورٹی معاہدے کی بات، تب ہی ممکن ہے جب تل ابیب ان علاقوں سے پیچھے ہٹے جن پر اس نے 8 دسمبر 2024ء کو "بشار الاسد" کی حکومت کے خاتمے کے بعد قبضہ کیا تھا۔ اس سورس نے واضح کیا کہ
۱۔ ہر معاہدہ 1974ء کے جنگ بندی معاہدے کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔
۲۔ شام کی خودمختاری اور سرحدوں کی حفاظت کرے۔
۳۔ نیز اسرائیل کے شام پر مسلسل حملوں کو بھی روکے۔
یہ باتیں ایسے وقت میں سامنے آئیں جب شام، اردن و امریکہ نے صوبہ سویداء کے بحران کے حل اور جنوبی شام میں استحکام کے لئے ایک منصوبہ تیار کیا، جس میں غیر ملکی مداخلت کے خاتمے پر زور دیا گیا۔ باغیوں کے زیر تسلط شام کی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ سمجھوتے دمشق کی تشویش کو دور اور شام کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق، ابو محمد الجولانی نے چند دن پہلے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا ملک، اسرائیل کے ساتھ ایک سیکورٹی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے تا کہ اسرائیل 8 دسمبر سے پہلے والی سرحدوں پر واپس چلا جائے۔ یاد رہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد، اسرائیلی فوج نے گولان کے علاقے میں داخل ہو کر شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور ملک بھر میں فوجی مراکز پر حملے کئے۔ شام نے اسرائیل کے حملوں کو قنیطرہ، درعاء اور دمشق کے نواحی علاقوں میں بین الاقوامی قانون اور 1974ء کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔