Express News:
2025-11-03@10:54:36 GMT

پاکستان بنگلہ دیش تعلقات کا نیا عہد

اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT

تاریخ کے صفحات میں کئی ایسے لمحے چھپے ہیں جو نہ صرف قوموں کی یادوں میں نقش رہ جاتے ہیں بلکہ ان کے تعلقات کی سمت بھی متعین کرتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے، جو قربانی، جدوجہد اور تلخیوں کا مرکب ہے۔ 1971 کے المناک واقعات نے دونوں قوموں کے دلوں میں فاصلے ڈال دیے، لیکن آج ایک ایسا سنہری موقع پیدا ہوا ہے جسے ضایع کرنا شاید تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔

دنیا ایک نئے عالمی منظرنامے کی طرف بڑھ رہی ہے، خطے کی معیشتیں بدل رہی ہیں اور عوام کی توقعات بھی بلند ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماضی کی تلخیوں کو ایک طرف رکھ کر بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوارکرے، تاکہ دونوں ممالک نہ صرف اپنی ترقی کی رفتار تیز کریں بلکہ خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے بھی ایک مثال قائم کر سکیں۔

گزشتہ کچھ برسوں میں بنگلہ دیش نے معاشی میدان میں حیران کن ترقی کی ہے۔ 1971ء میں جس ملک کو غربت اور تباہی کا شکار سمجھا جاتا تھا، وہ آج خطے کی ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ بنگلہ دیش کا جی ڈی پی 2024ء میں تقریباً 460 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جب کہ اس کی برآمدات میں سب سے بڑا حصہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ہے جو سالانہ 50 بلین ڈالر سے زائد کما رہی ہے۔

تعلیم، صحت اور خواتین کی ترقی کے شعبوں میں بھی بنگلہ دیش نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی بینک کی رپورٹس اس بات کی گواہ ہیں کہ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے جو غربت میں تیزی سے کمی لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان اس وقت سیاسی عدم استحکام، معاشی دباؤ اور سیکیورٹی چیلنجزکا شکار ہے۔ ایسے حالات میں ایک مضبوط تجارتی اور سفارتی تعلق پاکستان کے لیے نہ صرف معاشی فائدہ دے سکتا ہے بلکہ سفارتی محاذ پر بھی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان قریبی تعلقات رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ڈھاکہ نے ہمیشہ اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنے کی کوشش کی ہے۔

چین کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلقات بھی مضبوط ہیں، اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شمولیت نے اسے مزید اہمیت دی ہے۔ جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کئی برسوں سے غیر فعال ہے، مگر اگر پاکستان اور بنگلہ دیش قریب آتے ہیں تو اس تنظیم کو دوبارہ فعال کرنے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔

پاکستان کے لیے یہ وقت اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ عالمی سطح پر طاقتوں کی صف بندی تبدیل ہو رہی ہے۔ امریکا، چین اور روس کے درمیان جاری کشمکش میں جنوبی ایشیا کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ خلیجی ممالک بھی بنگلہ دیش کی افرادی قوت اور اس کی برآمدات کے بڑے خریدار ہیں، اگر پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر مشترکہ حکمتِ عملی اختیارکریں تو وہ خلیجی اور ایشیائی مارکیٹ میں اپنی مصنوعات کو بہتر انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اس وقت توانائی بحران اور لاگت میں اضافے کے سبب مشکلات کا شکار ہے، جب کہ بنگلہ دیش اس شعبے میں دنیا بھر میں اپنی برآمدات بڑھا رہا ہے۔ دونوں ممالک اگر ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور مارکیٹ کے میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو یہ باہمی ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔

دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بڑے سے بڑا زخم بھی وقت اور سنجیدہ اقدامات سے بھر سکتا ہے۔ جرمنی اور فرانس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو فروغ دے کر پورے یورپ میں امن و ترقی کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح جاپان اور امریکا کے تعلقات بھی جنگ کے بعد دشمنی سے دوستی میں بدلے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے پاس بھی یہی موقع ہے کہ وہ ماضی کی دیواریں گرا کر نئے تعلقات کی عمارت کھڑی کریں۔ثقافتی اور تعلیمی تعلقات کو بھی بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے، دونوں ممالک کے عوام زبان، مذہب اور روایات میں بہت سی مماثلت رکھتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں آج بھی بڑی تعداد میں ایسے خاندان ہیں جن کے رشتے پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر طلبہ کے تبادلے، ادبی میلوں اور ثقافتی وفود کا تبادلہ بڑھایا جائے تو یہ فاصلے کم ہو سکتے ہیں۔کھیلوں میں بھی تعاون کے وسیع مواقعے ہیں۔ کرکٹ دونوں ملکوں میں بے حد مقبول ہے اور مشترکہ سیریز عوامی سطح پر تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

موجودہ حالات میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان اپنی معاشی مشکلات کے سبب نئے تجارتی شراکت داروں کی تلاش میں ہے۔ چین اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات اہم ہیں، لیکن ان پر انحصارکم کر کے متنوع تعلقات قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

بنگلہ دیش کے ساتھ مشترکہ انڈسٹریل زونز، شپنگ اور پورٹ تعاون اور زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے تبادلے سے دونوں ممالک کی معیشتوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر اگر پاکستان اپنی زرعی اجناس اور فارماسیوٹیکل مصنوعات بنگلہ دیشی مارکیٹ تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔

بنگلہ دیش اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے دوچار ہے۔ سمندری سطح کے بڑھنے اور قدرتی آفات کی وجہ سے اس ملک کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے دوچار ہے، جیسا کہ حالیہ 2022ء کے سیلاب نے ثابت کیا جس سے تقریباً 33 ملین افراد متاثر ہوئے تھے۔

دونوں ممالک اگر کلائمیٹ چینج پر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں اور ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھیں تو وہ نہ صرف اپنی عوام کی حفاظت کر سکتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک مضبوط آواز بھی بن سکتے ہیں۔ کوئی بھی ملک اکیلا ترقی نہیں کر سکتا۔

پاکستان کو ایران، ترکی، سعودی عرب اور چین کے ساتھ تعلقات کی طرح بنگلہ دیش کے ساتھ بھی تعلقات میں نئی روح پھونکنی چاہیے۔ اس عمل کے لیے سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ اعلیٰ سطح وفود کا تبادلہ کیا جائے اور تجارتی معاہدوں پر دستخط ہوں۔اگرچہ ماضی کے زخم گہرے ہیں لیکن تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ مستقبل کی تعمیر صرف مفاہمت، تعاون اور عملی اقدامات سے ہی ممکن ہے۔

پاکستان کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے مشرقی پڑوسی کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر نہ صرف اپنی معیشت کو سہارا دے بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے بھی کردار ادا کرے۔ یہ وقت ہے کہ دونوں ممالک دلوں کے فاصلے کم کریں اور ایک دوسرے کی ترقی میں شراکت دار بنیں۔اقدامات کے طور پر پاکستان کو چاہیے کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی اور تعلیمی معاہدے کرے، مشترکہ سرمایہ کاری کے منصوبے شروع کرے، کھیلوں اور ثقافتی پروگراموں کا تبادلہ بڑھائے اور سفارتی تعاون کو فروغ دے۔

اسی طرح دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی چیلنجز، غربت کے خاتمے اور عوامی فلاح کے منصوبوں پر مشترکہ حکمتِ عملی اپنائیں۔ اگر یہ سب اقدامات سنجیدگی سے کیے جائیں تو پاکستان اور بنگلہ دیش نہ صرف اپنے عوام کے لیے خوشحالی لا سکتے ہیں بلکہ دنیا کے لیے بھی ایک مثبت مثال قائم کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے تو آنیوالے برسوں میں خطہ نہ صرف خوشحال ہوگا بلکہ دونوں ممالک کی نئی نسل بھی ایک روشن کل کی جانب بڑھ سکے گی۔ یہی وقت ہے، یہی موقع ہے اور یہی پاکستان کے لیے مستقبل کا سب سے بڑا امتحان ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بنگلہ دیش بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان کے لیے کے ساتھ تعلقات جنوبی ایشیا دونوں ممالک اگر پاکستان تعلقات کی تعلقات کو ایک دوسرے سکتے ہیں سکتا ہے

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد

سویلین حکومت تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی،پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں، ترجمان کا ٹی وی چینل کو انٹرویو

امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنے کا اختیار نہیں۔ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔ پاکستان کی سویلین حکومت افغانستان کے ساتھ باہمی مفادات کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ اس کی اجازت نہیں دیتی۔ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے مجاہد نے کہا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی صادق خان کابل میں تھے اور انہوں نے افغان حکام سے مثبت بات چیت کی، لیکن اسی عرصے کے دوران پاکستان نے افغان سرزمین پر حملے بھی کیے۔مجاہد نے نوٹ کیا کہ پاکستان کی طرف سے ڈیورنڈ لائن کے ساتھ کراسنگ کی بندش سے دونوں طرف کے تاجروں کو بڑا نقصان ہوا ہے، اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے معاملات کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیے، دوسری طرف پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات روکنا ہمارا اختیار نہیں۔دریائے کنڑ پر ڈیم بننے کی خبروں پر پاکستان کی تشویش سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان سرزمین پر تعمیرات اور دیگر سرگرمیاں مکمل طور پر افغانستان کا حق ہے، اگر دریائے کنڑ پر کوئی ڈیم بنایا جاتا ہے تو اس سے پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، پانی اپنی قدرتی سمت میں بہنا جاری رہے گا، اور اسے مقررہ راستے میں ہی استعمال کیا جائے گا۔ذبیح اللہ مجاہد نے سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دور میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے، خاص طور پر تجارت، ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کی کوششوں اور دیگر شعبوں میں، سب کچھ آسانی سے چل رہا تھا۔انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان سرزمین پر ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بارے میں کسی بھی معلومات کو امارت اسلامیہ کے ساتھ شیٔر کرے تاکہ مناسب کارروائی کی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فریق چاہتا ہے کہ ہم پاکستان کے اندر ہونے والے واقعات کو بھی روکیں، لیکن پاکستانی سرزمین پر ہونیوالے واقعات کو روکنا ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ امارت اسلامیہ پاکستان میں عدم تحفظ نہیں چاہتی اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ افغان سرزمین سے کوئی خطرہ پیدا نہ ہو۔افغان ترجمان نے امید ظاہر کی کہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور میں دو طرفہ مسائل کے دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے دیانتدارانہ اور ٹھوس بات چیت ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، خواجہ آصف
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، وزیر دفاع
  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • وزیراعلیٰ پنجاب سے جرمن رکن پارلیمنٹ کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ
  • پاک افغان تعلقات کے حوالے سے نیا فورم دستیاب ہوگا،وزیر اطلاعات
  • ٹی ٹی پی کی پشت پناہی جاری رہی تو افغانستان سے تعلقات معمول پر نہیں آسکیں گے: خواجہ آصف