بالی ووڈ کی لیجنڈری اداکارہ شرمیلا ٹیگور نے اپنے مرحوم شوہر اور بھارت کے سابق کرکٹر منصور علی خان پٹودی (ٹائیگر پٹودی) کے ساتھ اپنی محبت کی کہانی یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا رشتہ ’ پہلی نظر کی محبت ‘ والا نہیں تھا، بلکہ اعتماد اور بھروسے پر قائم ہوا۔

سنہ 1968 میں، جب شرمیلا اپنے فلمی کیریئر کی بلندی پر تھیں، انہوں نے پٹودی سے شادی کی۔ دی کپل شرما شو پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

’میں کرکٹ دیکھنے کی شوقین تھی۔ میرے والدین بھی کرکٹ کے دیوانے تھے۔ کولکتہ میں ہم سب کھیلوں کے شوقین تھے۔ اُس زمانے میں ہم کھلاڑیوں کو دیکھنے کے لیے لائن میں لگتے تھے۔ اسی دوران نواب صاحب سے ملاقات ہوئی۔  یہ کوئی ‘لو اٹ فرسٹ سائیٹ’ نہیں تھی۔ وہ انگلینڈ سے آئے تھے۔ انگریزی میں کیا بولتے تھے، کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کیونکہ ایکسنٹ بہت مختلف تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے ’کسی اداکار سے شادی مت کرنا‘، شرمیلا ٹیگور نے بیٹی کو یہ نصیحت کیوں کی؟

شرمیلا ٹیگور نے مزید ہنستے ہوئے بتایا:

’ان کا مزاح بالکل مختلف تھا۔ وہ اپنی ہی بات پر ہنستے تھے کیونکہ ہمیں کچھ سمجھ ہی نہیں آتا تھا۔ ‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر وہ شادی پر کیوں آمادہ ہوئیں تو شرمیلا نے کہا:

’یہ پہلی نظر کی محبت نہیں تھی، ہاں! محبت ضرور تھی۔ مجھے لگا کہ وہ کبھی مجھے جان بوجھ کر تکلیف نہیں دیں گے۔ مجھے اُن پر بھروسہ تھا۔ اور یہی بنیاد تھی۔ کیا یہی سب سے اہم چیز نہیں ہے؟‘

محبت کی اصل بنیاد: اعتماد اور احترام

شرمیلا کے ان خیالات پر روشنی ڈالتے ہوئے سائیکو تھراپسٹ اور لائف کوچ ڈیلنا راجیش نے کہا کہ:
’محبت اس وقت گہری ہوتی ہے جب رشتے میں باہمی احترام، لچکدار گفتگو اور جذباتی ذمہ داری شامل ہو۔‘

یہ بھی پڑھیں: شادی کے لیے اسلام قبول کرنا کیسا تجربہ تھا، شرمیلا ٹیگور نے ساری تفصیل بیان کردی

انہوں نے مزید کہا کہ اصل جادو تب ہوتا ہے جب دو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بڑھنے، سیکھنے اور ایک دوسرے کو تحریک دینے کے جذبے کے ساتھ جڑیں۔

’ایک مضبوط تعلق صرف ساتھ رہنے کی جگہ نہیں بلکہ ایک قوت ہے جو دونوں کو عظمت کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسا رشتہ نہ صرف مشکلات میں قائم رہتا ہے بلکہ دونوں کو بہتر انسان بھی بناتا ہے۔‘

ڈیلنا کے مطابق، ایک ایسا ساتھی جو جذباتی تحفظ دے، دکھ اور مشکل گھڑیوں میں سہارا بنے، اور بغیر کسی جَجمنٹ کے حوصلہ افزائی کرے، وہی محبت کو ہمیشہ زندہ رکھتا ہے۔

شرمیلا ٹیگور اور منصور علی خان پٹودی کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ محبت کا اصل راز صرف کشش میں نہیں بلکہ بھروسے، احترام، مزاح اور اس یقین میں ہے کہ آپ کا ساتھی کبھی آپ کو جان بوجھ کر دکھ نہیں دے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شرمیلا ٹیگور نواب منصور علی خان پٹودی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: شرمیلا ٹیگور شرمیلا ٹیگور نے

پڑھیں:

ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے  لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات

اسلام آ باد:

این سی سی آئی اے  کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔

لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔

ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا  ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے  اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔

جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔

وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے  تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔

درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں  ہے۔ اگر  اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔

وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔

ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت  لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی خفیہ ایجنسی کیلئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار مچھیرے کے اہم انکشافات
  • اداکارہ خوشبو خان کا ارباز خان سے طلاق کے بیان پر یوٹرن
  • ایشوریہ رائے 52 سال کی ہوگئیں؛ جواں نظر آنے کا راز بھی بتادیا
  • افغان طالبان نے جو لکھ کر دیا ہے ، اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں بچے گا: طلال چوہدری
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟
  • بلوچستان اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کا صوبہ ہے ‘حافظ نعیم الرحمن
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے  لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
  • افشاں قریشی نے اپنی خوبصورت محبت کی کہانی سنادی