’ملزم برا انسان ہوگا لیکن اسکے کچھ حقوق بھی ہیں،‘سپریم کورٹ کے پی پولیس پر شدید برہم
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
سپریم کورٹ آف پاکستان نے خیبر پختونخوا پولیس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے درخواست ضمانت پر ملزم کی فرانزک رپورٹ طلب کرلی۔
جسٹس حسن رضوی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 2 رکنی بینچ نے سماعت کی، دوران سماعت جسٹس شہزاد ملک نے ریمارکس دیے کہ ملزم برا انسان ہوگا لیکن اس کے کچھ حقوق بھی ہے، کیا پولیس نے مریض کی گرفتاری سے قبل ہسپتال یا ڈاکٹر سے اجازت لی۔
جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ کیا پولیس بستر مرض سے کسی سے کو ایسے گرفتار کر سکتی ہے، ملزم کا ریڑ کی ہڈی کا آپریشن ہوا تھا، آپریشن کے بعد ملزم چل پھر نہین سکتا ہے۔
جسٹس شہزاد ملک نے کہا کہ پولیس رپورٹ میں لکھا کے ملزم آپریشن کے بعد صحت یاب نہیں تھا۔
سرکاری وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ملزم فیاض حسین ہر مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام ہے، ملزم نے سوشل میڈیا پر شیعہ سنی مذہبی منافرت پھیلائی۔
جسٹس شہزاد ملک نے ریمارکس دیے کہ ملزم برا انسان ہوگا لیکن اس کے کچھ حقوق بھی ہے، سرکاری وکیل نے کہا کہ آجکل تو آپریشن کے دوسرے دن مریض چلنے پھرنے لگ جاتا ہے۔
جسٹس شہزاد ملک نے کہا کہ وکیل صاحب ہر کوئی سلطان راہی نہیں ہوتا، فلموں میں اتنی گولیاں لگنے کے بعد بھی ہیرو اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔
عدالت نے درخواست ضمانت پر ملزم کی فرانزک رپورٹ طلب کرلی، جسٹس حسن رضوی سربراہی مین دو رکنی بینچ نے سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کر دی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس شہزاد ملک نے نے کہا کہ
پڑھیں:
جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپےٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس ہر چھوٹ ہوتی ہے۔
جسٹس جمال خان نے ایڈیشنل اٹارنی جزل سے مکالمہ کیا کہ یہ تو آپ محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں، عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکھٹا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکھٹا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں۔
عاصمہ حامد نے دلیل دی کہ جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے۔
عاصمہ حامد نے کہا کہ مالی سال کا پروفیٹ موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔