امریکا میں انسانی جسمانی اعضا کی تجارت: معاملہ قانونی مگر بے قائدگیوں سے بھرپور
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
ہیرولڈ ڈیلرڈ کی عمر 56 سال تھی جب انہیں نومبر 2009 میں پیٹ کے گرد ایک خطرناک قسم کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ چند ہی ہفتوں میں یہ سابقہ مکینک اور ’مِسٹر فِکس اٹ‘ کہلانے والے ٹیکساس کے رہائشی ایک اسپتال میں اپنی زندگی کے آخری لمحات گزار رہے تھے لیکن پھر انہوں نے ایک اہم فیصلہ کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: صوبہ خیبر پختونخوا میں پہلی بار انسانی اعضا عطیہ کرنے کے لیے رجسٹریشن شروع
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیلرڈ کے آخری دنوں میں ایک کمپنی بایو کیئر ان سے ملنے آئی۔ کمپنی نے تجویز دی کہ اگر وہ چاہیں تو اپنا جسم طبی تحقیق کے لیے عطیہ کر سکتے ہیں جہاں اس کا استعمال گھٹنے کی تبدیلی کی سرجری کی مشق کے لیے ہوگا۔ کمپنی نے کہا کہ استعمال نہ ہونے والے جسمانی حصوں کو جلایا جائے گا اور راکھ مفت واپس کر دی جائے گی۔
ان کی بیٹی فرح فیسالڈ کے مطابق ان کی آنکھوں میں چمک آگئی اور انہوں نے اسے اپنے خاندان کے لیے بوجھ کم کرنے کا طریقہ سمجھا۔ جسم عطیہ کرنا ان کا آخری بے غرض عمل تھا۔
ڈیلرڈ کرسمس کی شب وفات پا گئے اور چند گھنٹوں میں بایو کیئر کی گاڑی ان کا جسم لے گئی۔ مگر چند ماہ بعد فرح کو پولیس کا فون آیا کہ ان کے والد کا سر ایک گودام سے برآمد ہوا ہے۔
پولیس نے کمپنی کے گودام میں 45 افراد کے 100 سے زائد اعضا دریافت کیے۔ ایک پولیس افسر کے مطابق تمام لاشیں موٹے اور بے ڈھنگے آلے سے ٹکڑے کی گئی تھیں اور لگتا تھا اس کے لیے ایک بڑی آرا مشین استعمال کی گئی ہو۔
مزید پڑھیے: راولپنڈی میں انسانی اعضا نکال کر فروخت کرنے والا گروہ گرفتار، متاثرہ شخص بازیاب
فرح کا کہنا ہے کہ انہوں نے سوچا تھا کہ ان کے والد کے جسم کے ساتھ عزت سے پیش آیا جائے گا مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں رات کو آنکھیں بند کرتی اور سرخ بڑے ٹبوں میں اعضا دیکھتی، مجھے نیند نہیں آتی تھی۔
بایو کیئر نے ان الزامات کی تردید کردی تھی اور اب یہ کمپنی وجود بھی نہیں رکھتی۔
یہ واقعہ ’باڈی بروکرز‘ کی دنیا کی ایک جھلک ہے۔ وہ نجی کمپنیاں جو انسانی لاشیں حاصل کر کے اکثر منافع کے لیے ان کے اعضا فروخت کرتی ہیں۔
یہ تجارت کیوں جاری ہے؟
امریکا میں انسانی جسمانی اعضا کی فروخت جزوی طور پر قانونی ہے کیونکہ وہاں ’نان ٹرانسپلانٹ ٹشو بینکس‘ کی شکل میں کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف لاشیں حاصل کرتے ہیں بلکہ انہیں کاٹ کر مختلف اداروں کو فروخت کرتے ہیں جیسے کہ میڈیکل یونیورسٹیز (سرجری کی تربیت کے لیے) اور میڈیکل انجینیئرنگ کمپنیاں (مصنوعی جوڑ یا آلات کی جانچ کے لیے)۔
یورپ اور برطانیہ میں یہ تجارت ممنوع ہے مگر امریکا میں کمزور قوانین نے اس تجارت کو فروغ دیا ہے۔
امریکا میں ایسی کتنی کمپنیاں کام کر رہی ہیں؟
سنہ2017 میں رائٹرز کی تحقیق نے انکشاف کیا تھا کہ امریکا میں کم از کم 25 منافع بخش کمپنیاں جسمانی اعضا کے کاروبار سے وابستہ تھیں جن میں سے ایک نے تین سال میں 1 کروڑ 25 لاکھ ڈالر کمائے۔
ریگولیشن کی کمی اور بداعتمادیجینی کلیمین، جنہوں نے اس موضوع پر کتاب ’دی پرائز آف لائف‘ لکھی، بتاتی ہیں کہ امریکا میں یہ قانون واضح نہیں۔ ایک طرف’یونیفارم اناٹومیکل گفٹ ایکٹ‘ انسانی ٹشوز کی فروخت کو روکتا ہے مگر ساتھ ہی ’پروسیسنگ‘ کے چارجز کی اجازت دیتا ہے جس کی آڑ میں منافع کمایا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: سائنس دانوں کو انسانی اعضا کی دوبارہ تخلیق کا راستہ دکھانے والا مسکراتا جل تھلیہ مل گیا
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی برینڈی شمٹ کہتی ہیں کہ کچھ لوگ واقعی تحقیق کے لیے جسم عطیہ کرتے ہیں مگر لاگت کی بچت بھی بڑی وجہ ہے کیوں کہ تدفین پر خاصے اخراجات آتے ہیں۔
اس وقت یونیورسٹی کو سالانہ 1600 مکمل لاشیں عطیہ کی جاتی ہیں جبکہ 50 افراد پہلے ہی رجسٹرڈ ہیں۔
استحصال اور المیےکئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بغیر وارثوں کے افراد کی لاشیں ریاستی عطیات کے طور پر دی جاتی ہیں جیسا کہ ٹیکساس میں ایک شخص ڈیل لیگیٹ کے ساتھ ہوا۔ ان کے بھائی ٹِم لیگیٹ کو ایک نیوز ایپ پر پتا چلا کہ اس کے بھائی کا جسم ایک نجی کمپنی نے تربیت کے لیے استعمال کیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے بہت غصہ آیا، وہ پرسکون انسان تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس پر انگلیاں اٹھیں۔
کیا اس کاروبار کو روکا جانا چاہیے؟کچھ لوگ تجویز دیتے ہیں کہ امریکا کو یورپ کی طرز پر اس تجارت کو مکمل طور پر ممنوع قرار دینا چاہیے اور صرف تعلیمی اداروں کو محدود اجازت ہونی چاہیے۔
دوسری جانب کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر منافع بخش کمپنیوں کو بند کر دیا گیا تو ضروری لاشیں دستیاب نہیں ہوں گی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے عوام میں جسمانی عطیہ سے متعلق شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ اعضا کے عطیہ کی مہمات ہوتی ہیں۔
کچھ میڈیکل اسکولز اب ورچوئل رئیلٹی کی مدد سے تربیت دینا شروع کر چکے ہیں۔ سنہ 2023 میں کیس ویسٹرن ریزرو یونیورسٹی نے انسانی لاشوں کی جگہ وی آر ماڈلز استعمال کرنے شروع کر دیے۔
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ ٹیکنالوجی جسمانی تجربے کی جگہ نہیں لے سکتی۔
یہ بھی پڑھیے: روزانہ کتنے ہزار مائیکرو پلاسٹک ذرات کیسے ہمارے جسم میں داخل ہو رہے ہیں؟
الغرض جب تک جدید ٹیکنالوجی مکمل طور پر انسانی لاشوں کی جگہ نہ لے لے تب تک انسانی جسموں کی مانگ بھی رہے گی اور منافع بھی کمایا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ استحصال کے خدشات بھی موجود رہیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکا میں جسمانی اعضا کی فروخت انسانی اعضا انسانی اعضا کا عطیہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکا میں جسمانی اعضا کی فروخت انسانی اعضا کا عطیہ امریکا میں انہوں نے اعضا کی عطیہ کر کے لیے
پڑھیں:
بچیوں سے زیادتی کیس ‘ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی میں شربت فروش کا متعددد بچیوں سے زیادتی کرنے کا مقدمہ، عدالت نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں تین روز کی توسیع کردی۔ ملزم شبیر تنولی کو سات مقدمات میں عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں تین روز کی توسیع کردی۔