چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس میں مختلف پہلووٴں کا جائزہ لینے اور چند اہم دفعات پر غور و خوض کے بعد متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ فی الحال عدالت کی فیسوں اور سیکیورٹیز میں اضافے سے متعلق ترامیم کے نفاذ کو موٴخر کر دیا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔

اعلامیے کے مطابق فل کورٹ اجلاس میں شرکت کرنیو الے ججز میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان شامل تھے۔

اجلاس میں جسٹس شہزاد احمد ملک، جسٹس عقیل عباسی، جسٹس شاہد بلال حسن ،جسٹس محمد ہاشم کاکڑ،جسٹس محمد شفیع صدیقی ،جسٹس صلاح الدین پنہور،جسٹس شکیل احمد ،جسٹس عامر فاروق، جسٹس اشتیاق ابراہیم، جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی شریک ہوئے۔

اجلاس میں چیف جسٹس پاکستان نے تمام شرکاء کو خوش آمدید کہا اور سپریم کورٹ رولز 1980 کے نظر ثانی شدہ مسودے کی تیاری پر کمیٹی کی کاوشوں کو سراہا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کمیٹی کے وسیع اور مفصل کام کی تعریف کی جو ججز اور قانونی برادری کی رائے کو شامل کرتے ہوئے تیار کیا گیا اور جس کا نتیجہ سپریم کورٹ رولز 2025 کا جامع مسودہ ہے۔

فل کورٹ اجلاس میں جسٹس شاہد وحید، جو کمیٹی کے چیئرمین ہیں، نے فل کورٹ کو ان رولز کے بارے میں بریفنگ دی۔

تفصیلی غور و فکر کے بعد فل کورٹ نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ سپریم کورٹ رولز 2025 ایک "زندہ دستاویز" ہیں اور وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق ان کا جائزہ لیا جائے گا اور ان میں ترمیم کی جائے گی۔

فل کورٹ نے مختلف پہلووٴں کا جائزہ لینے اور چند اہم دفعات پر غور و خوض کے بعد متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ فی الحال عدالت کی فیسوں اور سیکیورٹیز میں اضافے سے متعلق ترامیم کے نفاذ کو موٴخر کر دیا جائے۔

کمیٹی ججز، بار کے نمائندگان اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز پر غور کرے گی اور اپنی سفارشات کی روشنی میں یہ معاملہ دوبارہ فل کورٹ کے سامنے فیصلے کے لیے پیش کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے اس پیش رفت کو ایک اہم سنگِ میل قرار دیا جو عدلیہ کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور سپریم کورٹ رولز کو جدید تقاضوں کے مطابق متحرک، لچکدار اور موٴثر رکھنے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چیف جسٹس پاکستان سپریم کورٹ رولز فل کورٹ اجلاس اجلاس میں

پڑھیں:

جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔

سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپےٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکنڈ شیڈول میں  پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس ہر چھوٹ ہوتی ہے۔

جسٹس جمال خان نے ایڈیشنل اٹارنی جزل سے مکالمہ کیا کہ  یہ تو آپ  محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں، عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکھٹا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکھٹا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں۔

عاصمہ حامد  نے دلیل دی کہ جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی  نے ریمارکس دیے کہ آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے۔

عاصمہ حامد نے کہا کہ مالی سال کا پروفیٹ موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صوبائی محتسب اعلیٰ کی زیرصدارت اداروں میں زیر التوا کیسز کی پیش رفت سے متعلق اجلاس
  • سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
  • کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • سپریم کورٹ بلڈنگ کمیٹی کا اجلاس، کراچی برانچ رجسٹری کے ماسٹر پلان کی منظوری
  • جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!
  • جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ