فٹبال ورلڈ کپ 2026 کس خطرے سے دوچار، ماہرین نے کیا بتایا؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
اگر فوری طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے اقدامات نہ کیے گئے تو 2026 میں ہونے والا فٹبال ورلڈ کپ شمالی امریکا میں اپنی نوعیت کا آخری ایونٹ ثابت ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ورلڈ کپ کے لیے منتخب شدہ 16 میں سے 10 مقامات شدید گرمی کے خطرے سے دوچار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فٹبال ورلڈ کپ 2026 میں شرکت ہوگی یا نہیں؟ لیونل میسی نے خبروں پر خاموشی توڑ دی
رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق’پچز ان پرل‘ کے عنوان سے کی گئی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2050 تک شمالی امریکا کے تقریباً 90 فیصد میزبان اسٹیڈیمز کو شدید گرمی کے خلاف حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہوگی جبکہ ایک تہائی مقامات پر پانی کی طلب فراہمی سے زیادہ ہو جائے گی۔
رپورٹ میں سنہ 2030 اور سنہ 2034 کے فٹبال ورلڈ کپ کے مقامات کو بھی ماحولیاتی خطرات کے تناظر میں جانچا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کیسے دنیا بھر میں گرمی بڑھنے سے مشہور فٹبالرز کے ابتدائی میدان بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
کھیل اور آب و ہوا کا چیلنجاسپین کے ورلڈ کپ جیتنے والے مڈفیلڈر خوان ماتا نے کہا کہ میں اسپین سے ہوں اور موسمیاتی بحران کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ فٹبال ہمیشہ لوگوں کو یکجا کرتا آیا ہے لیکن اب یہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم کیا کھو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیے: معروف اسٹریمنگ کمپنی ’نیٹ فلکس‘ نے خواتین فٹبال ورلڈ کپ کے نشریاتی حقوق حاصل کرلیے
حال ہی میں امریکا میں منعقدہ کلب ورلڈ کپ موسمی خطرات کی ایک جھلک پیش کر چکا ہے جہاں کھلاڑیوں نے شدید گرمی اور طوفانی بارشوں کے باعث کنڈیشنز کو ناممکن قرار دیا۔ فیفا کو ایونٹ کے دوران کولنگ بریکس، پانی کے وقفے، سایہ دار بینچز اور پنکھے شامل کرنے پڑے۔
خطرے کی گھنٹیرپورٹ کے مطابق امریکا، کینیڈا اور میکسیکو کے 16 میں سے 14 اسٹیڈیمز میں 3 بڑے ماحولیاتی خطرات یعنی شدید گرمی، ناقابل برداشت بارش اور سیلاب کے امکانات سنہ 2025 تک محفوظ کھیل کے معیار سے تجاوز کر چکے ہیں۔
13 اسٹیڈیمز میں ہر سال کم از کم ایک دن ایسا ہوتا ہے جب درجہ حرارت فیفا کے پانی کے وقفے کے معیار 32 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ یہ پیمانہ انسانی جسم پر گرمی کے اثرات کو سورج کی روشنی میں ماپنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اٹلانٹا، ڈلاس، ہیوسٹن، کینساس سٹی، میامی اور مونٹیری جیسے شہروں میں یہ درجہ حرارت 2 ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک برقرار رہتا ہے۔ ہیوسٹن میں ہر سال 51 دن اور ڈلاس میں 31 دن یہ درجہ حرارت خطرناک حد35 ڈگری سے بڑھ جاتا ہے جسے سائنس دان انسانی برداشت کی آخری حد تصور کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت کی فٹبال فیڈریشن بحران کا شکار، فیفا نے سخت وارننگ دے دی
اگرچہ کچھ اسٹیڈیمز (جیسے ہیوسٹن اور ڈلاس) میں گرمی کو کم کرنے کے لیے چھتیں لگائی گئی ہیں لیکن رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ خطرہ صرف بڑے اسٹیڈیمز تک محدود نہیں۔
دنیا بھر کی پچز بھی متاثرتحقیق میں مصر میں محمد صلاح کے آبائی اسٹیڈیم اور نائجیریا میں ولیم ٹروئسٹ-ایکونگ کی بچپن کی پچ کو بھی شامل کیا گیا جو مستقبل میں شدید گرمی کے باعث سال بھر ناقابل استعمال ہو سکتی ہیں۔ نائجیریا کی پچ پر تو سنہ 2050 تک سال کے 338 دن شدید گرمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
پروفیسر پیئرز فوسٹر، ڈائریکٹر، پریسٹلی سینٹر فار کلائمٹ فیوچرز (لیڈز)، کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے ٹورنامنٹس کو سرد مہینوں میں منتقل کرنے یا نسبتاً ٹھنڈے علاقوں میں منعقد کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو ہم جیسے جیسے اس دہائی میں آگے بڑھیں گے خطرات مزید بڑھتے جائیں گے۔
کھیل کے مستقبل کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت96 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ فٹبال کی عالمی صنعت سنہ 2040 تک نیٹ زیرو کاربن اخراج کا ہدف مقرر کرے اور اپنے منصوبے عوام کے سامنے پیش کرے۔
رپورٹ میں اس کے علاوہ فیفا اور دیگر ٹورنامنٹ منتظمین سے کہا گیا ہے کہ وہ ماحولیاتی موافقت کے لیے فنڈ قائم کریں۔
یہ بھی پڑھیے: رونالڈو نے فٹبال ورلڈ کپ 2034 کے سعودی عرب میں انعقاد کی بھرپور حمایت کردی
ایک سروے کے مطابق تینوں میزبان ممالک (امریکا، کینیڈا، میکسیکو) کے 3،600 شائقین میں سے 91 فیصد کا مطالبہ ہے کہ سنہ 2026 کا فٹبال ورلڈ کپ ماحول دوست ایونٹ کا عملی نمونہ ہونا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹڈی فٹابل ورلڈ کپس کو خطرہ فٹبال ورلڈ کپ 2026 کو خطرہ فیفا ورلڈ کپ 2026.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹڈی فیفا ورلڈ کپ 2026 فٹبال ورلڈ کپ ورلڈ کپ 2026 گیا ہے کہ کے مطابق گرمی کے یہ بھی کے لیے
پڑھیں:
پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
اسلام آباد:ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شائستہ خان کا کہنا ہے کہ تعلیم پر سرکاری سرمایہ کاری کی کمی کے باعث لاکھوں بچے، خصوصاً لڑکیاں، اپنے تعلیم کے حق سے محروم ہیں، جبکہ موسمی رکاوٹیں اور ماحولیاتی تبدیلیاں اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔
چیئرپرسن، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن گلمینہ بلال کا کہنا ہے کہ تعلیمی نظام مالی وسائل کی کمی کا شکار ہے، فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کا شعبہ آگاہی کی کمی اور روایتی معاشرتی رویوں سے متاثر ہے، جو صنفی امتیاز اور تکنیکی شعبوں میں صنفی فرق کم کرنے میں حائل ہیں۔
ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں حقیقی تبدیلی کے لیے سیاسی عزم اور مساوی مالی معاونت ضروری ہے، اگر صنفی مساوات اور سماجی شمولیت کو ترجیح نہ دی گئی تو پاکستان ایک اور نسل کو محرومی اور عدم مساوات کے اندھیروں میں کھو دے گا۔
گزشتہ روز سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن (ایس اے کیو ای) کے پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (پی سی ای) کے سالانہ کنونشن سے خطاب کے دوران سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر زہرہ ارشد نے کہا کہ تعلیم میں حقیقی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب مالی معاونت میں اضافہ کیا جائے اور صنفی مساوات و سماجی شمولیت کو پالیسی اور عمل کے ہر درجے میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کا بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ منصفانہ استعمال کو یقینی بنائے بغیر جامع تعلیم کے وعدے محض کاغذی رہ جائیں گے۔ تعلیمی فنڈنگ میں حکومتوں کا احتساب صرف اعداد و شمار تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ احتساب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہونا چاہیے کہ بجٹ کا ہر روپیہ ہر لڑکی کی تعلیم کے حق کی تکمیل میں خرچ ہو۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شاہد سرویا نے کہا کہ پاکستان کو اپنی تعلیم کی ایمرجنسی سے نکلنے کے لیے کم از کم جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ وسائل ہر سال اسکول جانے والی عمر کے بچوں میں 1.7 فیصد اضافے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
پنجاب کے وزیر تعلیم کے مشیر ڈاکٹر شکیل احمد نے وضاحت کی کہ اسکولوں کی آؤٹ سورسنگ سے نہ صرف اسکول سے باہر بچوں بلکہ کم فیس والے نجی اسکولوں کے طلبہ کا اندراج بھی بڑھا ہے، تاہم مالی مشکلات اور سیاسی تبدیلیوں کے باعث اس پالیسی کی پائیداری ایک چیلنج بن سکتی ہے۔
بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے اسپیشل سیکریٹری عبدالسلام اچکزئی نے اعلان کیا کہ صوبے میں 12 ہزار اساتذہ کی خالی آسامیوں پر بھرتیاں مکمل کی گئی ہیں تاکہ لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی بڑھائی جا سکے، جبکہ لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ پروگرامز بھی شروع کیے جا رہے ہیں تاکہ اسکول واپسی اور حاضری کو یقینی بنایا جا سکے۔
خیبر پختونخوا محکمہ تعلیم کے مشیر محمد اعجاز خلیل نے بتایا کہ ترقیاتی تعلیمی بجٹ کا 70 فیصد حصہ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے مختص کیا جا رہا ہے، جس میں 10 ہزار کلاس رومز اور 350 واش رومز کی تعمیر شامل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کارکردگی میں کمزور اسکولوں کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے اور 1,000 مقامی گاڑیاں لڑکیوں کے لیے محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کریں گی۔
اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عاطف شیخ نے کہا کہ 90 فیصد معذور بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں 50 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ اُنہوں نے نشاندہی کی کہ معذور بچوں کے لیے مخصوص بجٹ لائنز اور اساتذہ کی شمولیتی تربیت کی عدم موجودگی لاکھوں بچوں کو نظام سے باہر رکھتی ہے۔
جینڈر اور گورننس ماہر فوزیہ یزدانی نے کہا کہ صنفی مساوات اور شمولیت کو فروغ دینے کا آغاز ابتدائی عمر سے ہونا چاہیے، جہاں آئینی حقوق مقامی زبانوں میں پڑھائے جائیں اور والدین، اساتذہ، اور کمیونٹی اس عمل کو مضبوط کریں۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں 18 فیصد لڑکیوں کی 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کر دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، جبکہ ملک میں جنوبی ایشیا کی بلند ترین ماں اور بچے کی اموات اور 40 فیصد بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں رکاوٹ جیسے مسائل موجود ہیں۔
خواجہ سرا سوسائٹی کی ڈائریکٹر مہنور چوہدری نے کہا کہ ٹرانس جینڈر طلبہ کی شمولیت کے لیے جامع نصاب، اساتذہ کی حساسیت، ٹراما سے آگاہی، کونسلنگ اور زندگی کی مہارتوں پر مبنی تعلیم ضروری ہے۔