Express News:
2025-09-18@12:59:37 GMT

  فرامین قائد آج بھی مشعلِ راہ ہیں!

اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT

آج بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کو ہم سے بچھڑے ہوئے 77 برس ہو چکے ہیں۔ قائداعظم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ’انڈین نیشنل کانگریس‘ سے کیا، لیکن پھر 10 اکتوبر 1913ء کو وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے رکن بنے، جس کے مجوز مولانا محمد علی جوہر اور موید سید وزیر حسن تھے۔

قائد کی ساری زندگی اصول پسندی سے آراستہ اور نظم وضبط سے مزین ہے۔ بہت سے ہم وطنوں کو اس بات کا قلق رہتا ہے کہ ’بانی پاکستان‘ اس نئے وطن کے قیام کے بعد بہ مشکل ایک سال ہی بہ قید حیات رہ سکے۔ اگر وہ کچھ برس اور زندگی پالیتے، تو شاید پاکستان کے حالات آج سے مختلف ہوتے۔ ستم یہ بھی ہوا کہ ان کی وفات کے فقط تین برس بعد ہی ان کے ’دستِ راست‘ قائد ملت لیاقت علی خان کو بھی راول پنڈی میں بھرے مجمعے میں شہید کر دیا گیا۔

قائد کی وفات کے بعد گورنر جنرل کی مسند خواجہ ناظم الدین کے سپرد کی گئی تھی، تو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ’وزارت عظمیٰ‘ کی اہم ذمہ داری خواجہ ناظم الدین ہی کو سنبھالنی پڑی۔ دوسری طرف پاکستان کے گورنر جنرل کی کرسی اب ملک غلام محمد کے ہاتھ آگئی، جس کے بعد سے حکومتی معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا چلا گیا۔

بہت سے ناقدین شہید ملت لیاقت علی خان پر بھی بابائے قوم سے فکری انحراف کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں، جس میں ایک اہم قدم وزارت عظمیٰ اور مسلم لیگ کی سربراہی ایک فرد کے پاس رکھنا شامل ہے۔ یہ ’پاکستان مسلم لیگ‘ کے نتظیمی ڈھانچے کا ایک معاملہ تھا، جس نے 1948ء میں ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ سے جنم لیا تھا۔ قائداعظم ’پاکستان مسلم لیگ‘ کے قیام کے بعد کچھ ماہ ہی دنیا میں رہے۔

ایسے میں ہم لیاقت علی خان کی جانب سے کی گئی اس تبدیلی کو ’قائد کے فرمان‘ سے انحراف قرار نہیں دے سکتے، کیوں کہ اس حوالے سے قائداعظم نے یا لیاقت علی خان اور دیگر ممتاز اکابرین نے اس وقت یہ ضروری سمجھا کہ وزیراعظم کو تنظیمی طور پر مسلم لیگ کا سربراہ نہیں ہونا چاہیے، سو ایسا کرلیا گیا، بعد میں اگر اس کی ضرورت محسوس ہوئی، تو مسلم لیگ کے دستور میں تبدیلی کر لی گئی۔ یہ لیاقت علی کی ایک سیاسی حکمت عملی ہے، ہم اِسے قائد کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کہہ سکتے، پھر جس طرح قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ پر مختلف بااثر لوگوں کا غلبہ بڑھ رہا تھا، ایسے میں لیاقت علی اور ان کے رفقا نے ایسا کرنا ضروری سمجھا ہوگا۔

ایسے ہی ’بابائے قوم‘ کی وفات کے بعد 1949ء میں ’قراردادِ مقاصد‘ کی منظوری کو بھی ’بانیٔ پاکستان‘ کے نظریے سے اختلاف قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے دلیل کے طور پر قائدکی 11 اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی کی تقریر پیش کی جاتی ہے، جس میں انھوں نے مذہبی اعتقادات کو فرد کا سیاسی معاملہ قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اس کا امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، جب کہ ’قراردادِ مقاصد‘ میں اسلام کو پاکستان کے آئین کی بنیاد قرار دیا گیا۔

اس حوالے سے مورخین اور محققین کے درمیان ایک بحث پائی جاتی ہے، جو لوگ 11 اگست کی تقریر سے ’سیکولرازم‘ کا نتیجہ اخذ کرتے ہیں، وہ ’قراردادِ مقاصد‘ کی مخالفت کرتے ہیں، جب کہ دوسری جانب کا موقف یہ ہے کہ گیارہ اگست کی تقریر کی وضاحت بھی قائد ہی بہتر کر سکتے تھے، قائداعظم نے اس کے بعد اور اس سے پہلے ہمیشہ پاکستان میں اسلامی قوانین اور اسلامی نظام ہی کی بات کی ہے، چناں چہ قائد ملت نے ’قراردادِ مقاصد‘ کے ذریعے قائد کے اسی نظریے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی نہ کہ ان کے حکم کی خلاف ورزی کی۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’قائد ملت‘ نے ’بابائے قوم‘ کی وفات کے بعد انھی کی فکر کے مطابق اس مملکت کے امور کو آگے بڑھانے کی کوشش کی، لیکن 1951ء میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ریاستی معاملات میں خرابیوں میں بہت تیزی آگئی، جیسے 1952ء میں ڈھاکا میں بنگلا زبان کے مظاہرین پر فائرنگ، 1953ء میں لاہور میں مارشل لا اور 1954ء دستور ساز اسمبلی کی برخاستگی کے ساتھ جنوری 1951ء کے بعد فوج کے کمانڈر انچیف بننے والے جنرل ایوب خان کو باقاعدہ وزیر دفاع بنانے جیسے متنازع معاملات سامنے آئے۔ 7 اگست 1955ء کو ملک غلام محمد تو بالآخر گورنر جنرل کے عہدے سے سبک دوش ہوگئے، لیکن امور مملکت کے پٹری سے اترنے کا عمل اسی طرح جاری رہا، جو 14 اکتوبر 1955ء کو غیر منصفانہ ’ون یونٹ‘ کے قیام اور پھر 1958ء میں ملک میں پہلے مارشل لا کے نفاذ پر منتج ہوا۔

یہ تمام حالات اس امر کے گواہ ہیں کہ بابائے قوم کی وفات کے بعد ’قائد ملت‘ ان تمام متنازع مراحل کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے، ان کی شہادت کے بعد پاکستان کا اقتدار ’بانیان پاکستان‘ کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ شاید اسی لیے جنرل ایوب خان نے کراچی سے دارالحکومت منتقل کرنے کا اعلان بھی کر دیا اور معاشی طور پر ایک کمزور مملکت پر ایک نئے درالحکومت کی تعمیر کا بھاری بوجھ ڈال کر وفاقی حکومت کے دفاتر پنڈی میں قائم کر لیے گئے۔ دارالحکومت کی منتقلی سے صرف کراچی کے شہریوں ہی میں احساس محرومی پیدا نہیںہوا، بلکہ اِسے مشرقی پاکستان کے شہریوں نے بھی بالکل اچھا نہیں سمجھا۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی سربراہوں کو ’قائد‘ قرار دیتی ہیں اور ان کے ایک اشارۂ ابرو پر اپنی جان دینے تک پر آمادہ دکھائی دیتی ہیں، لیکن بابائے قوم کے فرامین کسی بھی سیاسی قائد کی ترجیح دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی آج کی کوئی سیاسی جماعت قائداعظم کے فرامین اور احکامات کی عَلم بردار ہے۔

ستم تو یہ ہے کہ نام نہاد سیاسی قائدین کے اوندھے سیدھے بیانات کے دفاع میں اپنے سارے فلسفے صَرف کر دینے والے معمر سیاسی دانش وَر تک ’بابائے قوم‘ کے بہت سے احکامات پسِ پشت ڈال دیتے ہیں اور اس کے لیے وقت کی نام نہاد مصلحت کو دلیل بنایا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آج کے حالات کے مطابق ’بابائے قوم‘ کے فلاں حکم کے برخلاف کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیوں کہ ’’سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی!‘‘ اور سب سے بڑھ کر اس کے لیے ’قومی مفاد‘ کا نام لیا جاتا ہے، یہ ہماری تاریخ کا ایسا سنگین مذاق بن چکا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ’قومی مفاد‘ کے نام پر جو جی میں آیا ہے وہ کیا ہے۔

ایسے میں اگر سرکاری دفاتر میں ہمارے وزرا یا وزرائے اعلیٰ ’بانی پاکستان‘ کی تصویر کے دائیں بائیں اپنے اپنے سیاسی قائدین کی تصاویر ٹانگ دیں، تو کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔۔۔! ہماری حکومتوں کو قومی تنصیبات اور سرکاری اداروں کو ’بانیان پاکستان‘ کے بہ جائے اپنے اپنے نام نہاد سیاسی راہ نماؤں اور متنازع سیاسی قائدین سے موسوم کرنے کا زیادہ شوق ہو تو کوئی اعتراض کرنے والا بھی سنائی نہیں دیتا، بلکہ ہمارے بہت سے بڑے اہل قلم بھی اس پر ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے برساتے دکھائی دیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد سیاسی راہ نماؤں کو قائداعظم کے فرامین اپنے سیاسی مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دکھائی دیتے ہیں، اس لیے وہ براہ راست قائد پر تنقید کی جرأت تو نہیں رکھتے، لیکن اگر، مگر کرکے کسی نہ کسی طرح قائد کے فرامین کو بلڈوز ضرور کرتے رہتے ہیں۔

ہمارا ملک مستقل طور پر جس طوائف الملوکی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار رہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم قائد کے فرامین کا اِعادہ کریں اور اپنی نئی نسل کو بھی بتائیں کہ محمد علی جناح کے نظریات اور خیالات کیا تھے۔ انھوں نے پاکستان کے لیے جس دارالحکومت کراچی کا انتخاب کیا تھا، اُسے کیوں بہ یک جنبشِ قلم ایک سیاسی آمر جنرل ایوب خان نے اسلام آباد منتقل کر دیا؟

آج ہمارے صوبوں کے درمیان بھائی چارے اور محبت کی شدید کمی دکھائی دیتی ہے۔ صوبوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات اور دوریوں کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے قائداعظم کو بھلا دیا، انھوں نے روز اول سے ہی صوبوں کو تلقین کی تھی کہ وہ اپنی پاکستانی شناخت کو صوبائی شناخت سے برتر رکھیں، جب کہ آج کے بہت سے سیاسی راہ نماؤں کی تو روزی روٹی ہی بالواسطہ یا بلاواسطہ صوبائیت کی بنیاد پر چلتی ہے، اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ عوام کو قائد کا یہ فرمان یاد رہے!

قائد کا ایک فرمان پاکستان کی ایک قومی زبان کے حوالے سے بھی ہے۔ بانیٔ پاکستان نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ اس ملک کی قومی زبان ایک ہی ہوگی اور وہ صرف اردو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ انھوں نے صوبوں سے ان کی زبانیں چھین لی تھیں۔ انھوں نے 1948ء میں ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے اگر چاہیں تو اردو کے ساتھ صوبائی سطح پر اپنی کوئی ایک زبان رکھ سکتے ہیں، لیکن مرکزی سطح پر ہماری زبان صرف اردو ہی ہوگی۔ ہم نے 1956ء اور 1962ء کے دساتیر میں اردو کے ساتھ بنگلا زبان کو بھی پاکستان کی قومی زبان قرار دیا، لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم اس کے باوجود پاکستان کو دو ٹکڑے ہونے سے نہیں بچا سکے۔

اس حوالے سے بعض ستم ظریف اردو ہی کو پاکستان ٹوٹنے کی وجہ قرار دے دیتے ہیں، اور پھر قائداعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ انھوں نے یہاں کے لوگوں پر اردو زبان مسلط کی، جب کہ حقیقت ہے کہ پوری تحریک پاکستان کے دوران مذہب کے ساتھ اردو زبان کو ہمیشہ کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگر اردو زبان پاکستان ٹوٹنے کی وجہ ہوتی، تو ہم نے تو بنگلا کو بھی قومی زبان بنا دیا تھا، پھر کیوں پاکستان ٹوٹ گیا؟ پاکستان ٹوٹنے کی اصل وجہ ہمارے تنگ نظر رویے اور بنگالیوں سے کیا جانے والا تعصب تھا۔ ہم نے صوبائیت کو ’پاکستانیت‘ پر ترجیح دی، بنگالی پاکستانیوں کو خود سے کم تر سمجھا، جس کی بنا پر انھوں نے ہم سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔

آج 1973ء کے آئین کی دفعہ 251کے تحت اردو ہی پاکستان کی واحد قومی زبان ہے۔ اگرچہ یہ قائد کے فرمان کی دستوری تکمیل ہے، لیکن یہ آئین کی وہ دفعہ ہے، جس پر 50 سال گزر جانے کے بعد آج تک ایک دن کے لیے بھی عمل نہیں ہو سکا ہے۔ آئین میں درج ہے کہ 1988ء تک اردو کو سرکاری سطح پر نافذ بھی کر دیا جائے گا، آج اس مہلت کو گزرے ہوئے بھی 37 برس ہو چکے ہیں۔ 8 ستمبر 2008ء کو اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، لیکن پاکستان کی وڈیرہ شاہی اور نوکر شاہی کی رکاوٹوں کی بنا پر پاکستان میں قومی زبان اردو آج تک نافذ نہیں ہو سکی ہے۔

قائداعظم کا ایک اہم فرمان ناجائز صیہونی مملکت اسرائیل کے حوالے سے بھی موجود ہے، اس جبری ریاست کے خلاف 1948ء میں بابائے قوم نے انتہائی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اُسے ’عربوں کے سینے میں خنجر‘ سے تعبیر کیا تھا۔ ہمیں یہ دھیان میں رکھنا چاہیے کہ یہ وہ اسرائیل تھا کہ جو آج کے اسرائیل سے کہیں زیادہ محدود تھا، اس کے بعد تو اس کی سرحدیں مسلسل پھیلتی جا رہی ہیں۔ 1967ء میں اسرائیل نے مسلمانوں کے قبلۂ اول بیت المقدس پر نہ صرف قبضہ کیا، بلکہ اُسے اپنا درالحکومت بھی بنا لیا، جسے 2017ء میں امریکا نے بھی اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرلیا۔

آج ہمیں ذرائع اِبلاغ پر بہت سی آوازیں سنائی دیتی ہیں، جو قائداعظم کے اس فرمان کے برخلاف اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتی ہیں، اس کے لیے مختلف عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے غاصبانہ وجود کو تسلیم کیے جانے کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جب کہ اصول پسندی اور اپنی تاریخ سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ اس حوالے سے قائد کے فرمان کو پیش نظر رکھا جائے۔ ایک یہی نہیں بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کے حوالے سے قائد کے احکامات ہمارے پیش نظر رہنے چاہئیں، تاکہ ہم اس مملکت کو قائد کی فکر کے مطابق ڈھال سکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی وفات کے بعد لیاقت علی خان اس حوالے سے پاکستان کے سیاسی قائد پاکستان کی کے فرامین اس کے لیے مسلم لیگ دیتے ہیں قائد ملت نام نہاد انھوں نے ہے کہ ہم یہ ہے کہ نہیں ہو قائد کی کے ساتھ جاتا ہے قائد کے بہت سے ہیں کہ تھا کہ کو بھی کر دیا

پڑھیں:

سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری

سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری WhatsAppFacebookTwitter 0 16 September, 2025 سب نیوز

لاہور(سب نیوز)وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری کا پیپلز پارٹی کے رہنماوں کی پریس کانفرنس پر ردعمل آگیا۔صوبائی وزیراطلاعات عظمی بخاری نے کہا کہ سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کے لیے پی ٹی آئی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟۔
انہوں نے کہا کہ ہم سیلاب متاثرین کی مدد میں مصروف ہیں اس لیے اتحادی سمجھ کر برداشت کر رہے ہیں، اتحادی ہونے کا یہ مطلب نہیں اب آپ کے جعلی فلسفے اور ناکام تھیوریاں سنتے جائیں،عظمی بخاری نے کہا کہ منظور چودھری اور حسن مرتضی اپنے فلسفے اور دکھ بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کو سنائیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا کر رہا ہے، مریم نواز اور پنجاب کی انتظامیہ دن رات سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو ریلیف دینے میں مصروف ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ الحمدللہ پنجاب حکومت سیلاب متاثرین کی ہر قسم کی مدد اپنے وسائل سے کر رہی ہے۔عظمی بخاری نے کہا کہ سندھ میں ابھی سیلاب سے کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ملک سے امداد مانگنے پر فورس کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے تمام وسائل اور حکومتی مشینری کا رخ سیلاب متاثرین کی طرف موڑ دیا ہے، مریم نواز نے وفاق سمیت کسی بھی تنظیم کی طرف مدد کیلئے نہیں دیکھا۔صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور اس کے ہارے ہوئے لوگوں کو سندھ کے لوگوں کی فکر کرنی چاہئے، 2022 کے سندھ کے سیلاب متاثرین آج بھی امداد کے منتظر ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپی ٹی آئی نے ہمیشہ ٹی ٹی پی اور دہشتگردوں کے موقف کی تائید کی، بیرسٹر عقیل ملک پی ٹی آئی نے ہمیشہ ٹی ٹی پی اور دہشتگردوں کے موقف کی تائید کی، بیرسٹر عقیل ملک امت مسلمہ کے مابین باہمی دفاعی معاہدے کی ضرورت ہے،مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کے اندر منافق لوگ موجود ہیں، ایک دن بھی ایسا نہیں کہ بانی کی رہائی کیلئے کوشش نہ کی ہو،علی امین... وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد کے درمیان انتہائی اہم ملاقات طے پاک بھارت ٹاکرے میں میچ ریفری کا تنازع، قومی ٹیم نے دبئی میں شیڈول پریس کانفرنس ملتوی کر دی حیدر آباد، بحریہ ٹاون کی 893ایکڑ زمین کو غیر قانونی قرار،خالی کروانے کا حکم TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
  • تحریک انصاف اب کھل کر اپوزیشن کرے ورنہ سیاسی قبریں تیار ہوں گی، عمران خان
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری
  • بھارت میں کرکٹ کو مودی سرکار کا سیاسی آلہ بنانے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں
  • قائد پاکستان مسلم لیگ نواز شریف سوئٹزر لینڈ روانہ
  • نواز شریف سوئٹزر لینڈ روانہ
  • حماس کو عسکری اور سیاسی شکست نہیں دی جاسکتی: اسرائیلی آرمی چیف