فیس معافی اسکیم کیلیے 50 کروڑ مختص کیے ہیں، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
اسلام آباد:
چیئرمین فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈاکٹر اکرام علی ملک نے کہا ہے کہ فیس معافی اسکیم کے لیے 50 کروڑ روپے مختص کیے ہیں تاکہ مستحق طلبہ مالی بوجھ کے بغیر تعلیم حاصل کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ماڈل امتحانی مراکز کے قیام کا منصوبہ دوبارہ فعال کر رہے ہیں جن میں لائبریری، کمپیوٹر لیب اور سائنسز لیب شامل ہوں گی تاکہ پریکٹیکل امتحانات بھی انہی مراکز میں لیے جا سکیں۔
فیڈرل ایجوکیشن رپورٹرز ایسوسی ایشن (فیرا) کے نمائندہ وفد سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اکرام علی ملک نے کہا کہ طلبہ کو ایک کنٹرولڈ اور معیاری امتحانی ماحول مہیا کرنا بورڈ کی ترجیح ہے تاکہ نقل اور دیگر مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے کی جانب سے ان مراکز کے لیے جگہ تو مارک کر دی گئی ہے مگر تاحال منظوری نہیں دی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ کم آمدنی والے طلبہ کے لیے فیس معافی اسکیم متعارف کرانے کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا فلاحی اداروں میں رجسٹرڈ طلبہ کو مفت تعلیم فراہم کی جائے گی اور ان سے کسی قسم کی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔
ڈاکٹر اکرام علی ملک نے بتایا کہ بورڈ آف گورنرز نے اس فیس معافی اسکیم کے لیے 500 ملین روپے مختص کیے ہیں تاکہ مستحق طلبہ مالی بوجھ کے بغیر تعلیم حاصل کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی بورڈ سے اس وقت ملک بھر کے 4000 سے زائد تعلیمی ادارے منسلک ہیں جبکہ بیرونِ ملک 55 ادارے ایف بی آئی ایس ای سے وابستہ ہیں۔ تاہم مغربی دنیا میں کسی ادارے کی وفاقی بورڈ سے وابستگی نہیں ہے، صرف دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے بچوں کے لیے قائم ایک اسکول وفاقی بورڈ سے منسلک ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈگری تصدیق کی فیس 200 روپے سے بڑھا کر 1000 روپے، میٹرک کی مارک شیٹ کی فیس 1500 روپے اور میٹرک امتحانات کی فیس 5000 روپے مقرر کی گئی ہے۔
ان کے مطابق فیسوں میں اضافہ ناگزیر تھا کیونکہ امتحانی اخراجات میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیڈرل بورڈ کے پاس اس وقت دو ارب روپے کا انڈوومنٹ فنڈ موجود ہے اور بورڈ کا نظام مکمل شفافیت کے ساتھ چلایا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر اکرام کا کہنا تھا کہ اساتذہ کے معیار میں بہتری لائے بغیر طلبہ کے نتائج میں بہتری ممکن نہیں۔ حکومتی ادارے روزگار کی فراہمی کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ مہارت کی بنیاد پر چلنے چاہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیفشل انٹیلیجنس کے باعث آئندہ پانچ برسوں میں تعلیمی نظام مزید خودکار ہو جائے گا، جس سے شفافیت اور کارکردگی میں نمایاں بہتری آئے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فیس معافی اسکیم انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر اکرام کے لیے کی فیس
پڑھیں:
شرح سود برقرار رکھنا معیشت کیلیے رکاوٹ ہے ،سید امان شاہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-3
کوئٹہ(کامرس ڈیسک )عوام پاکستان پارٹی بلوچستان کے صوبائی کنوینئر سید امان شاہ نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ غیر موزوں اور عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کے لیے بھی مایوس کن ہے۔ اپنے جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہا کہ جب مہنگائی کی رفتار کم ہو رہی ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو میں ہے اور کاروباری سرگرمیوں کو سہارا دینے کی اشد ضرورت ہے، ایسے میں شرح سود کو 11 فیصد پر برقرار رکھنا ملکی معیشت اور ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بلند شرح سود کی وجہ سے کاروباری قرضے مہنگے ہو گئے ہیں، جس کے نتیجے میں خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs) شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ مالی بوجھ بڑھنے سے نئی سرمایہ کاری رک جاتی ہے اور روزگار کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ہاؤسنگ، گاڑیاں اور دیگر ضروریات کے لیے قرضوں میں نمایاں کمی واقع ہو چکی ہے، جس نے معیشت کے مختلف شعبوں پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ سید امان شاہ نے مزید کہا کہ بینکوں کی جانب سے حکومتی بانڈز میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی جا رہی ہے جبکہ نجی شعبہ قرضوں کے حصول سے محروم رہ گیا ہے، جس سے کاروباری ماحول مزید کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسٹیٹ بینک اور معاشی پالیسی ساز فوری طور پر شرح سود میں کمی کریں، تاکہ کاروبار اور سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔ مانیٹری اور فِسکل پالیسی میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ معیشت کو متوازن ترقی مل سکے۔SMEsاور نوجوان کاروباری افراد کے لیے رعایتی قرض اسکیمیں متعارف کروائی جائیں اور عام صارفین کے لیے بینک فنانسنگ کو سہل اور قابلِ رسائی بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ وقت محض احتیاط کا نہیں بلکہ جرات مندانہ اور دوراندیش فیصلوں کا ہے۔ اگر معیشت کو سانس لینے کا موقع نہ دیا گیا تو ملک طویل جمود کا شکار ہو سکتا ہے۔ سید امان شاہ نے اعلان کیا کہ وہ جلد معاشی ماہرین، کاروباری شخصیات اور صارفین کی نمائندہ تنظیموں کے ساتھ مشاورت کے بعد ایک جامع معاشی سفارشات پیکیج تیار کریں گے تاکہ پالیسی سازوں کے سامنے عوامی آواز مؤثر انداز میں پیش کی جا سکے۔