کلاؤڈ برسٹ،انسانی زندگی کے لیے نئے خطرات
اشاعت کی تاریخ: 15th, September 2025 GMT
کلاؤڈ برسٹ کیا ہے اور کیوں ہوتا ہے ۔ سائنس اس کے بارے میں کیا کہتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق کلاؤڈ برسٹ یا بادل کا پھٹنا ایک غیر معمولی موسمیاتی واقعہ ہے جس میںبہت ہی کم وقت میں شدید بارش ہوتی ہے جس سے اچانک سیلابی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے جب ایک گھنٹے میں سوملی میٹر بارش ایک ہی جگہ پر ہوتو اسے کلاؤڈ برسٹ کہتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے کہ پورے کا پورا بادل پھٹ گیا ہو۔کلاؤڈ برسٹ سے ہونے والی بارش زمین کے پانی جذب کرنے کی صلاحیت سے بہت زیادہ ہوتی ہے‘ ایسے واقعات عموماً پہاڑی علاقوں میں ہوتے رہتے ہیں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کلاؤڈ برسٹ میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
کلاؤڈ برسٹ پاکستان، بھارت ، نیپال ،چین میں اکثر نظر آتا ہے یورپ میں بھی ہوتا ہے یہ وہاں ایلپس کے پہاڑوں پر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے امریکا میں بھی پہاڑی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اس سال کلاؤڈ برسٹ سے پاکستان میں بہت زیادہ بارشیں ہوئیں پہاڑی علاقوں میں سیلابی ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ نے بہت زیادہ تباہی مچائی ‘سورج کی شعاعیں سمندر کے پانی کو گرم کرتی ہیں ، بادل بنتے ہیں اور یہ خشکی کی طرف جاتے ہیں ۔اگر بارش کا پانی ان میں زیادہ ہو تو ایسا لگے گا کہ بادل پھٹ گیا ہے اور پانی آبشار کی طرح زمین پر گرے گا۔
خلاء میں ٹمپریچر کم ہوتا ہے۔ اس پورے پراسس کو گرافک لفٹ کہتے ہیں یہ عمل پہاڑی علاقوں میں زیادہ ہوتا ہے اور وہاں شدید بارشیں اس کے نتیجے میں ہوتی ہیں ۔سائنسی دلیل کے مطابق زمین اور بادلوں کے درمیان موجود گرم ہوا کی لہر بادلوں کو فوری نمی برقرار رکھنے سے روک دیتی ہے۔جب دباؤ ناکافی ہوتا ہے تو بادل سے پانی اچانک بڑی مقدار میں گر کر کلاؤڈ برسٹ کا باعث بن جاتا ہے۔کراچی میں کلاؤڈ برسٹ کیوں ہورہے ہیں کراچی ایک فلیٹ زمین بالکل کنکریٹ کا بنا ہوا ہے ۔
وہاں حدت بہت زیادہ ہے جب آبی بخارات سمندر سے کراچی کی طرف آتے ہیں تو یہ بخارات آہستہ آہستہ اوپر اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔اوپر ٹمپریچر کم ہوتا ہے ۔ اور پھر اس طرح خاص طرح کے بادل بنتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ روئی کے ڈھیر فضا میں ہوں ۔ سوال یہ ہے کہ وزنی بادل بن کیوں رہے ہیں اگر ایک ڈگری فضاء کا ٹمپریچر بڑھے گا تو اس کے نتیجے میں 7فیصد زیادہ نمی بادلوں کے اندر آئے گی۔ یعنی بادل اتنے ہی زیادہ بنیں گے ۔
پچھلے پونے دوسوسالوں میں زمین کا درجہ حرارت پونے دوڈگری بڑھا ہے ۔ ٹمپریچر بڑھنے سے بادل بھی وزنی بن رہے ہیں ۔ اگر ہم ساؤتھ ایشیاء کی بات کریں تو دو طرف سے مون سون کے بادل آتے ہیں ۔ یہ بحیرہ عرب کی طرف سے آتے ہیں دوسرے مون سون بادل خلیج بنگال کی طرف سے آتے ہیں ۔ یہ انڈیا ، بنگلہ دیش پاکستان کی طرف آتے ہوئے ایک بہت بڑی قدرتی دیوار ہے جسے ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑوں نے بنایا ہوا ہے ۔ اس ہمالیائی دیوار سے ٹکرا کر یہ بادل بہت شدت سے برستے ہیں ۔
ایک تو درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے اور دوسرا کلاؤڈ برسٹ زیادہ ہونے کے نتیجے میں گلیشئر زیادہ پگھلنے شروع ہوگئے ہیں ۔ بادلوں کی مختلف اقسام ہیں ۔ یہ کالے رنگ کے ہوتے ہیں کچھ روئی کی طرح کے ہوتے ہیں ۔2001میں اسلام آباد میں کلاؤڈ برسٹ ہوا اس کے نتیجے میں 10گھنٹوں میں 620ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی ۔برصغیر میں ایسے بھی کلاؤڈ برسٹ ہوئے ہیں جب کہ پورے کے پورے گاؤں بہہ گئے اور ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کا خاتمہ ہوگیا۔کلاؤڈ برسٹ ہمارے شمالی علاقوں میں بہت زیادہ ہوتے ہیں اس کی وجہ موسمی اور جغرافیائی تبدیلیاں ہیں ۔ گلیشئر بہت تیزی سے پگھل رہے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے پاکستان میں سیکڑوں گلیشئرز بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق پچھلے چالیس سے پچاس برسوں میں ہمالیہ کے 13فیصد گلیشئر پگھل چکے ہیں ۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اگر ہماری دنیا کا ٹمپریچر بڑھتا جاتا ہے اور زمین کا درجہ حرارت مزید 1.
زیریں علاقوں کے مقابلے میں ہمالیہ کے اونچے علاقوں میں گلوبل وارمنگ زیادہ ہے ۔ کیونکہ گلیشئر کے پگھلنے سے ان میں دبی ہوئی زہریلی میتھین گیس خارج ہوتی ہے جو زمینی درجہ حرارت میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے یعنی جتنا زیادہ زمینی درجہ حرارت بڑھے گا اتنا ہی زیادہ گلیشئر پگھلیں گے اور اتنی ہی زیادہ مزید میتھین گیس خارج ہوگی۔ یعنی زمین کے باسی اب ایک Vicious Circle میں پھنس چکے ہیں ۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پہاڑی علاقوں میں کے نتیجے میں گلیشئر پگھل کلاؤڈ برسٹ ہمالیہ کے بہت زیادہ کے مطابق زیادہ ہو آتے ہیں جاتا ہے ہوتا ہے رہے ہیں کی طرف ہے اور
پڑھیں:
کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟
اڑن طشتریوں اور خلائی اغوا کی کہانیوں کو بھول جائیں کیونکہ اب سائنسدان زمین سے باہر زندگی کی تلاش کو ایک منظم اور سنجیدہ سائنسی مشن کے طور پر انجام دے رہے ہیں اور توقع ہے کہ اگلی دہائی میں ہمیں اس کا کوئی ثبوت بھی مل سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیویارک: آسمان میں پراسرار اشیا کی نقل و حرکت، کیا یہ خلائی مخلوق کی کارستانی ہے؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت زمین سے باہر زندگی کی تلاش کئی محاذوں پر جاری ہے۔ مریخ پر ناسا کا پریزروینس روور نمونے جمع کر رہی ہے جنہیں آئندہ برسوں میں زمین پر واپس لا کر تجزیہ کیا جائے گا۔
نظام شمسی کے منجمد چاندوں پر مشن بھیجے جا رہے ہیں تاکہ ان کی سطح کے نیچے چھپے سمندروں میں زندگی کے آثار تلاش کیے جا سکیں۔ دوسری جانب ماہرین فلکیات ہماری کہکشاں میں موجود دیگر سیاروں کی فضا کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں تاکہ کسی ’بائیو سگنیچر‘ یعنی حیاتیاتی نشان کا پتا چل سکے۔
مزید پڑھیے: پراسرار سیارچہ خلائی مخلوق کا بھیجا گیا کوئی مشن ہوسکتا ہے، ہارورڈ کے سائنسدان کا دعویٰ
برطانیہ کے ماہر فلکیات لارڈ مارٹن رِیس نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اگلے 10 سالوں میں ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے کوئی ثبوت ہوگا کہ قریبی سیاروں پر کوئی حیاتیاتی سرگرمی موجود ہے یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم واقعی ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔
مریخ پر زندگی؟ ایک ممکنہ اشارہستمبر 2025 میں ناسا نے اعلان کیا کہ مریخ کے جیجیرو کریٹر میں پرانے دریا کے کنارے سے ملنے والے مَڈ اسٹونز میں ایسے معدنیات دریافت ہوئے ہیں جو زمین پر عام طور پر حیاتیاتی عمل کے نتیجے میں بنتے ہیں جیسے گریگائٹ اور ویوینائٹ۔
اگرچہ یہ دریافت حتمی ثبوت نہیں ہے لیکن اسے مریخ پر ماضی کی زندگی کی ایک ممکنہ علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم ان نمونوں کو زمین پر لا کر جدید لیبارٹریز میں تجزیہ کرنے کے بغیر کوئی یقینی بات نہیں کی جا سکتی اور فی الحال ناسا کے ’مارس سیمپل ریٹرن مشن‘ کو فنڈنگ کے مسائل کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: ایلون مسک نے خلائی مخلوق کے وجود کے حوالے سے اپنی رائے بتادی
اوپن یونیورسٹی یو کے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سوزانے شونزر کا کہنا ہے کہ اگر مریخ پر زندگی رہی ہے تو چٹانوں اور پانی کے تعاملات میں اس کے ثبوت چھپے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان نمونوں کی باریک بینی سے جانچ کرنی ہوگی۔
آئس چاند: ایک نیا افقسائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اگر زندگی کسی ایسے مقام پر دریافت ہو، جو زمین سے بالکل مختلف ہو، تو یہ زندگی کے آزاد آغاز کا ناقابل تردید ثبوت ہوگا۔
یورپا (Jupiter کا چاند) اور انسلیڈس (Saturn کا چاند) اس دوڑ میں سرِفہرست ہیں جہاں سمندر برف کی موٹی تہہ کے نیچے چھپے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: گوگل اے آئی نے زمین پر خلائی مخلوق کے پوشیدہ ٹھکانوں کی نشاندہی کردی
ناسا کا یورپا کلپر اور یورپی ایجنسی کا جوس مشن بالترتیب سنہ 2030 اور سنہ 2031 میں یورپا پہنچیں گے۔ یہ مشنز زندگی کا براہ راست ثبوت تو نہیں لائیں گے لیکن ماحول اور سمندر کی ساخت کا جائزہ لیں گے تاکہ مستقبل میں برف کے نیچے مشینیں بھیجنے کی راہ ہموار کی جا سکے۔
زمین جیسے سیارے؟ نیا مشاہدہاب تک ماہرین فلکیات ساڑھے 5 ہزار سے زائد ’ایگزو پلینٹس‘ (یعنی دیگر ستاروں کے گرد گھومنے والے سیارے) دریافت کر چکے ہیں۔ ان میں سب سے دلچسپ نظام TRAPPIST-1 ہے، جس میں زمین جیسے 7 سیارے موجود ہیں جن میں سے تین ‘قابل رہائش’ زون میں آتے ہیں۔
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ اب ان سیاروں کی فضا کا تجزیہ کر رہی ہے۔ ستمبر 2025 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق TRAPPIST-1e سیارے پر ایک ہلکی سی فضا کے آثار ملے ہیں اور سنہ 2026 میں مزید واضح نتائج متوقع ہیں۔
مزید پڑھیں: اڑن طشتری والی مخلوق کا تعلق کس سیارے سے ہے، انوکھا نقطہ نظر
ناسا کے ایکس پلینٹ سائنس انسٹیٹیوٹ کی ڈاکٹر جیسسی کرسچنسن نے کہا کہ اگر ہمیں ان سیاروں پر فضا کا سراغ ملا تو اگلے 20 سال کی تمام تحقیقی کوششیں انہی سیاروں پر مرکوز ہو جائیں گی۔
ذہین مخلوق (انٹیلیجنٹ لائف) کی تلاش کا آغاز 20ویں صدی کے وسط میں سیٹی پروگرام سے ہوا تھا جو ریڈیو سگنلز کے ذریعے دیگر دنیاوں سے رابطہ تلاش کرنے کی کوشش تھی۔
مزید پڑھیے: مریخ پر زندگی کے آثار: نئے اور مضبوط سراغ مل گئے
آج، بریک تھرو لسٹن جیسے پروگرام دور دراز کے سیاروں سے ممکنہ ریڈیو سگنلز کا تجزیہ کر رہے ہیں جبکہ 2028 میں شروع ہونے والا اسکوائر کلومیٹر ایرے ریڈیو ٹیلی اسکوپ ان کوششوں کو نئی وسعت دے گا۔
پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے جیسن رائٹ کہتے ہیں کہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر کوئی سگنل آیا تو ہم اسے کسی بھی وقت پکڑ سکتے ہیں۔
خاموش خلا بھی ایک جواب ہےزندگی کی تلاش کی تمام کوششیں ہمیں یہ سکھا رہی ہیں کہ زمین سے باہر زندگی ممکن ہے لیکن ضروری نہیں کہ عام ہو۔ ڈاکٹر ساشا کوانز کہتے ہیں اگر ہمیں کچھ نہیں ملتا تو یہ بھی ایک اہم سائنسی نتیجہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے کچرا لانے والا جہاز پرواز کے لیے تیار
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہو سکتا ہے کہ زندگی واقعی کائنات میں نایاب ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خلائی مخلوق خلائی مخلوق کا سراغ خلائی مخلوق کی نشاندہی فلکیات مریخ