UrduPoint:
2025-09-19@11:44:32 GMT

افغانستان: طالبان کے انٹرنیٹ بند کر دینے کے مضمرات؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT

افغانستان: طالبان کے انٹرنیٹ بند کر دینے کے مضمرات؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) جنگ زدہ ملک افغانستان کے شمالی صوبے بلخ نے منگل کے روز طالبان رہنما ہیبت اللہ اخوند زادہ کی جانب سے ٹیکنالوجی پر مکمل پابندی عائد کرنے کے بعد، فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند کرنے کی تصدیق کی۔

شمالی صوبوں قندوز، بدخشاں، بغلان اور تخار سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بھی اسی طرح کی بندشوں اطلاعات ہیں۔

طالبان قیادت نے سرکاری طور پر اس کی کوئی وضاحت فراہم نہیں کی ہے، تاہم بلخ کے گورنر کے ترجمان نے کہا کہ یہ فیصلہ "غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکنے" کے لیے کیا گیا ہے۔ لیکن بہت سے ماہرین کو شبہ ہے کہ اسلامی بنیاد پرست گروپ طالبان اس کے ذریعے تنقیدی مواد اور ممکنہ احتجاج کو روکنا چاہتے ہیں۔

معیشت کے لیے نتائج

لندن میں قائم انٹرنیٹ مانیٹر نیٹ بلاکس کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ متاثرہ صوبوں میں انٹرنیٹ کے استعمال میں ڈرامائی کمی آئی ہے۔

(جاری ہے)

سکیورٹی کے ماہر بسم اللہ تبان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "انٹرنیٹ میں یہ خلل پورے افغانستان میں بڑے پیمانے پر جبر کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔ طالبان اپنے کریک ڈاؤن کو مزید بڑھا سکتے ہیں اور بین الاقوامی نگرانی سے بچ سکتے ہیں۔ یہ سنگین تشویش کی بات ہے۔"

البتہ اب تک موبائل انٹرنیٹ متاثر نہیں ہوا ہے۔ تاجر اور کاروباری مالکان خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اس رسائی کو بھی محدود کیا گیا، تو سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

اس کے علاوہ، پری پیڈ کارڈز بہت مہنگے ہیں اور موبائل انٹرنیٹ نسبتاً سست ہے۔ فائبر آپٹک انٹرنیٹ بنیادی طور پر کمپنیوں، بینکوں اور سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔

افغان چیمبر آف کامرس کے نائب صدر خان جان الکوزئی نے ایکس پر کہا: "فی الحال، 80 فیصد کاروبار آن لائن کیا جاتا ہے۔ ہمیں پہلے ہی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔

عوام اور حکومت کے درمیان خلیج کو مزید وسیع نہ کریں۔"

سن 2026 سے 2018 تک افغانستان کے وزیر تعلیم کے طور پر خدمات انجام دینے والے سید احمد شاہ سادات نے بھی ممکنہ نتائج سے خبردار کیا۔

مستقبل میں آنے والے 'سیاہ دن'

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "فائبر آپٹک نیٹ ورک پر پابندی، جس پر لوگ آن لائن تعلیم، تجارت اور بینکنگ سسٹم پر انحصار کرتے ہیں، زندگی کے تمام شعبوں پر منفی اثر ڈالے گا۔

طالبان کے پاس کوئی متبادل انٹرنیٹ سسٹم نہیں ہے۔ اگر یہ نیٹ ورک منقطع ہو جاتا ہے تو افغانستان کو ایک تاریک وقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "سرکاری ایجنسیاں اور ادارے جیسے پاسپورٹ اور رجسٹریشن دفاتر، کسٹم دفاتر، بینک اور میڈیا ہاؤسز اس سے خاص طور پر متاثر ہوں گے، کیونکہ وہ فائبر آپٹک کنکشن پر انحصار کرتے ہیں۔

ان کی ناکامی سے مرکزی انتظامی ڈھانچے پر اضافی دباؤ بھی پڑتا ہے۔" بین الاقوامی میڈیا ادارے بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے علاقائی ڈائریکٹر بہ لی یی نے کہا، "براڈ بینڈ انٹرنیٹ پر پابندی سنسرشپ میں ایک بے مثال اضافہ ہے، جو صحافیوں کے کام اور عوام کے معلومات کے حق کو کمزور کرے گا۔"

انہوں نے مزید کہا، "طالبان کو چاہیے کہ وہ اپنے جبر کا سلسلہ ختم کریں اور غیر مشروط طور پر انٹرنیٹ تک رسائی بحال کریں، جو کہ خبریں جمع کرنے کا ایک لازمی ذریعہ ہے۔

" لڑکیوں کی آن لائن تعلیم کا خاتمہ؟

لڑکیوں اور خواتین کے لیے، اس فیصلے کے خاص طور پر سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی کے بعد سے، بہت سے لوگوں نے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے آن لائن تعلیم کو واحد ذریعہ کے طور پر اختیار کیا۔

افغان فلم ساز سحرا کریمی، جو بیرون ملک سے اپنے طالب علموں کو پڑھاتی ہیں، نے کہا، "میرے طالب علموں کے پاس وائی فائی تھا، لیکن اب یہ کام نہیں کر رہا ہے۔

میں نے خبروں میں پڑھا ہے کہ طالبان نے بہت سے شہروں میں انٹرنیٹ بند کر دیا ہے۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔۔۔۔ اب میں لڑکیوں کو کیسے پڑھاؤں گی؟"

افغانستان کے اندر سرگرم کارکن بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کو ایک ویڈیو پیغام میں کہا، "انٹرنیٹ بند کرنا پسماندگی، جہالت اور تباہی کی طرف آخری قدم ہے۔"

ایک اور نے اسے "قوم کے وقار، آزادی اور مستقبل پر براہ راست حملہ" قرار دیا۔

آن لائن اسکول نیٹ ورک لرن افغانستان کی بانی پشتانہ درانی نے خبردار کرتے ہوئے کہا، "جب طالبان نے انٹرنیٹ کاٹ دیا، تو یہ صرف ایک تکنیکی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ملک کے مستقبل پر حملہ ہے۔"

انہوں نے کہا کہ بہت سے طلباء کے لیے، انٹرنیٹ اساتذہ اور اسباق کے لیے آخری کڑی ہے۔ لڑکیاں خاص طور پر، جو اسکولوں اور یونیورسٹیوں سے خارج ہیں، تعلیم کو جاری رکھنے کا اپنا واحد موقع بھی کھو دے رہی ہیں۔

درانی نے مزید کہا، "ہر بلیک آؤٹ افغان نوجوانوں کو مزید پیچھے دھکیلتا ہے، ملک کی فکری بنیاد کو کمزور کرتا ہے، اور نوجوان نسل کی مایوسی کو گہرا کرتا ہے۔"

ص ز/ ج ا (وصلت حسرت ناظمی/ حسین سیرت)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انٹرنیٹ بند کر آن لائن نے کہا کے لیے بہت سے

پڑھیں:

افغانستان میں دہشت گردوں کے 60 کیمپ پاکستان کیلئے خطرہ ہیں،عاصم افتخار احمد

افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے سب سے سنگین خطرہ ہے، پاکستانی مندوب
طالبان بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کریں، سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتحال پر بحث میں پاکستان کی شکایت

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے 60 کیمپ پاکستان کے لیے خطرہ ہیں افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت دہشت گرد گروہوں کے 60 سے زائد کیمپ فعال ہیں، افغانستان سے جنم لینے والی دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے۔ ۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتحال پر بریفنگ کے دوران پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ طالبان حکام کو انسدادِ دہشت گردی سے متعلق اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد تنظیمیں (جن میں داعش-خراسان، القاعدہ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، ای ٹی آئی ایم، کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور کالعدم مجید بریگیڈ شامل ہیں) افغان پناہ گاہوں سے کام کر رہی ہیں، جہاں 60 سے زائد دہشت گرد کیمپ سرحد پار دراندازی اور حملوں کے مراکز کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ان دہشت گرد گروہوں کے باہمی تعاون کے قابلِ اعتماد شواہد موجود ہیں۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ ان شواہد میں مشترکہ تربیت، غیر قانونی اسلحہ کی تجارت، دہشت گردوں کو پناہ دینا اور مربوط حملے شامل ہیں، جن کا مقصد پاکستان میں شہری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانا اور بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں کو درہم برہم کرنا اور سبوتاژ کرنا ہے۔عاصم افتخار نے کہا کہ دہشت گرد افغان پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملوں میں ملوث ہیں، پاکستان اور چین نے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ پر عالمی پابندیوں کی درخواست دی ہے، طالبان بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کریں اور دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کو ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کے قیام میں کردار ادا کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • قطر کی ثالثی کام کرگئی، افغان طالبان نے برطانوی جوڑے کو رہا کردیا
  • افغانستان میں دہشت گردوں کے 60 کیمپ پاکستان کیلئے خطرہ ہیں،عاصم افتخار احمد
  • طالبان سے بگرام ایئربیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ
  • طالبان نے غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کیلیے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کردی
  • افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
  • برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند پاکستانیوں کیلئے بڑی خبر آگئی
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام
  • طالبان نے بےحیائی روکنے کیلیے وائی فائی پر پابندی لگا کر انٹرنیٹ کیبل کاٹ دی