افغانستان: طالبان کے انٹرنیٹ بند کر دینے کے مضمرات؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) جنگ زدہ ملک افغانستان کے شمالی صوبے بلخ نے منگل کے روز طالبان رہنما ہیبت اللہ اخوند زادہ کی جانب سے ٹیکنالوجی پر مکمل پابندی عائد کرنے کے بعد، فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند کرنے کی تصدیق کی۔
شمالی صوبوں قندوز، بدخشاں، بغلان اور تخار سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بھی اسی طرح کی بندشوں اطلاعات ہیں۔
طالبان قیادت نے سرکاری طور پر اس کی کوئی وضاحت فراہم نہیں کی ہے، تاہم بلخ کے گورنر کے ترجمان نے کہا کہ یہ فیصلہ "غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکنے" کے لیے کیا گیا ہے۔ لیکن بہت سے ماہرین کو شبہ ہے کہ اسلامی بنیاد پرست گروپ طالبان اس کے ذریعے تنقیدی مواد اور ممکنہ احتجاج کو روکنا چاہتے ہیں۔
معیشت کے لیے نتائجلندن میں قائم انٹرنیٹ مانیٹر نیٹ بلاکس کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ متاثرہ صوبوں میں انٹرنیٹ کے استعمال میں ڈرامائی کمی آئی ہے۔
(جاری ہے)
سکیورٹی کے ماہر بسم اللہ تبان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "انٹرنیٹ میں یہ خلل پورے افغانستان میں بڑے پیمانے پر جبر کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔ طالبان اپنے کریک ڈاؤن کو مزید بڑھا سکتے ہیں اور بین الاقوامی نگرانی سے بچ سکتے ہیں۔ یہ سنگین تشویش کی بات ہے۔"
البتہ اب تک موبائل انٹرنیٹ متاثر نہیں ہوا ہے۔ تاجر اور کاروباری مالکان خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اس رسائی کو بھی محدود کیا گیا، تو سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
اس کے علاوہ، پری پیڈ کارڈز بہت مہنگے ہیں اور موبائل انٹرنیٹ نسبتاً سست ہے۔ فائبر آپٹک انٹرنیٹ بنیادی طور پر کمپنیوں، بینکوں اور سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔افغان چیمبر آف کامرس کے نائب صدر خان جان الکوزئی نے ایکس پر کہا: "فی الحال، 80 فیصد کاروبار آن لائن کیا جاتا ہے۔ ہمیں پہلے ہی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
عوام اور حکومت کے درمیان خلیج کو مزید وسیع نہ کریں۔"سن 2026 سے 2018 تک افغانستان کے وزیر تعلیم کے طور پر خدمات انجام دینے والے سید احمد شاہ سادات نے بھی ممکنہ نتائج سے خبردار کیا۔
مستقبل میں آنے والے 'سیاہ دن'انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "فائبر آپٹک نیٹ ورک پر پابندی، جس پر لوگ آن لائن تعلیم، تجارت اور بینکنگ سسٹم پر انحصار کرتے ہیں، زندگی کے تمام شعبوں پر منفی اثر ڈالے گا۔
طالبان کے پاس کوئی متبادل انٹرنیٹ سسٹم نہیں ہے۔ اگر یہ نیٹ ورک منقطع ہو جاتا ہے تو افغانستان کو ایک تاریک وقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔"ان کا مزید کہنا تھا، "سرکاری ایجنسیاں اور ادارے جیسے پاسپورٹ اور رجسٹریشن دفاتر، کسٹم دفاتر، بینک اور میڈیا ہاؤسز اس سے خاص طور پر متاثر ہوں گے، کیونکہ وہ فائبر آپٹک کنکشن پر انحصار کرتے ہیں۔
ان کی ناکامی سے مرکزی انتظامی ڈھانچے پر اضافی دباؤ بھی پڑتا ہے۔" بین الاقوامی میڈیا ادارے بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیںکمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے علاقائی ڈائریکٹر بہ لی یی نے کہا، "براڈ بینڈ انٹرنیٹ پر پابندی سنسرشپ میں ایک بے مثال اضافہ ہے، جو صحافیوں کے کام اور عوام کے معلومات کے حق کو کمزور کرے گا۔"
انہوں نے مزید کہا، "طالبان کو چاہیے کہ وہ اپنے جبر کا سلسلہ ختم کریں اور غیر مشروط طور پر انٹرنیٹ تک رسائی بحال کریں، جو کہ خبریں جمع کرنے کا ایک لازمی ذریعہ ہے۔
" لڑکیوں کی آن لائن تعلیم کا خاتمہ؟لڑکیوں اور خواتین کے لیے، اس فیصلے کے خاص طور پر سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی کے بعد سے، بہت سے لوگوں نے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے آن لائن تعلیم کو واحد ذریعہ کے طور پر اختیار کیا۔
افغان فلم ساز سحرا کریمی، جو بیرون ملک سے اپنے طالب علموں کو پڑھاتی ہیں، نے کہا، "میرے طالب علموں کے پاس وائی فائی تھا، لیکن اب یہ کام نہیں کر رہا ہے۔
میں نے خبروں میں پڑھا ہے کہ طالبان نے بہت سے شہروں میں انٹرنیٹ بند کر دیا ہے۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔۔۔۔ اب میں لڑکیوں کو کیسے پڑھاؤں گی؟"افغانستان کے اندر سرگرم کارکن بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کو ایک ویڈیو پیغام میں کہا، "انٹرنیٹ بند کرنا پسماندگی، جہالت اور تباہی کی طرف آخری قدم ہے۔"
ایک اور نے اسے "قوم کے وقار، آزادی اور مستقبل پر براہ راست حملہ" قرار دیا۔
آن لائن اسکول نیٹ ورک لرن افغانستان کی بانی پشتانہ درانی نے خبردار کرتے ہوئے کہا، "جب طالبان نے انٹرنیٹ کاٹ دیا، تو یہ صرف ایک تکنیکی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ملک کے مستقبل پر حملہ ہے۔"
انہوں نے کہا کہ بہت سے طلباء کے لیے، انٹرنیٹ اساتذہ اور اسباق کے لیے آخری کڑی ہے۔ لڑکیاں خاص طور پر، جو اسکولوں اور یونیورسٹیوں سے خارج ہیں، تعلیم کو جاری رکھنے کا اپنا واحد موقع بھی کھو دے رہی ہیں۔
درانی نے مزید کہا، "ہر بلیک آؤٹ افغان نوجوانوں کو مزید پیچھے دھکیلتا ہے، ملک کی فکری بنیاد کو کمزور کرتا ہے، اور نوجوان نسل کی مایوسی کو گہرا کرتا ہے۔"
ص ز/ ج ا (وصلت حسرت ناظمی/ حسین سیرت)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انٹرنیٹ بند کر آن لائن نے کہا کے لیے بہت سے
پڑھیں:
جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان
جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان taliban WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کی سویلین حکومت افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتی ہے لیکن پاکستانی فوج تعلقات کو بہتر بنانے کی ان کوششوں کو ناکام بنا رہی ہے۔پاکستانی فوج نے طالبان حکومت کے ترجمان کے اس الزام پر تاحال کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے۔
ایک نجی پاکستانی ٹیلی ویژن چینل خیبر نیوز کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں مجاہد نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے پاکستان میں دو طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد نے قطر اور ترکی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کے دوران پاکستانی وزیر دفاع کے سخت بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے دوران ایسا کرنے سے مذاکرات میں کسی اور کو فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن جب کوئی افغانوں سے بات کرنے بیٹھتا ہے اور پھر پیچھے سے دھمکی دیتا ہے تو اس سے مذاکرات کے ماحول پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان کے گذشتہ سال کے اواخر میں دورہ کابل کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے دعوی کیا کہ پاکستانی فوجیوں نے پکتیکا پر اس وقت فضائی حملہ کیا جب صادق خان کابل میں طالبان حکومت کے اعلی عہدیداروں سے ملاقات میں مصروف تھے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے دعوی کیا کہ: جس رات صادق خان کابل میں مہمان تھے پکتیکا پر حملہ ہوا، فضائی حملے کیے گئے۔ پاکستان کی طرف دو نظریات ہیں: سویلین حکومت کچھ کرتی ہے، تعلقات بنانا چاہتی ہے، فوج آ کر اسے دوبارہ خراب کرنا چاہتی ہے اور اس عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح ہمارے تعلقات مزید خراب ہو گئے۔
طالبان حکومت کے ترجمان نے مزید کہا کہ انھیں پاکستان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن انھوں نے الزام عائد کیا کہ انھیں شک ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت اور خاص طور پر فوج پر ہمیں شک ہے کیونکہ وہ جنگ کسی اور کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔ذبیح اللہ مجاہد نے کسی مخصوص ملک کا نام لیے بغیر الزام عائد کیا کہ شاید یہ کسی اور کی طرف سے کہا جا رہا ہو، شاید وہ اس جنگ کے ذریعے کسی کے قریب جانا چاہتے ہیں۔ مجاہد نے الزام عائد کیا کہ ان کی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج میں ماحول کو خراب کرنے کا کام جاری ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرشاہ محمود سے سابق پی ٹی آئی رہنماں کی ملاقات، ریلیز عمران تحریک چلانے پر اتفاق،فواد چوہدری کی تصدیق شاہ محمود سے سابق پی ٹی آئی رہنماں کی ملاقات، ریلیز عمران تحریک چلانے پر اتفاق،فواد چوہدری کی تصدیق استنبول مذاکرات بارے حقائق کو ترجمان افغان طالبان نے توڑ مروڑ کر پیش کیا: پاکستان افغان مہاجرین کی وطن واپسی: صرف ایک دن میں 10 ہزار افراد افغانستان روانہ شہباز شریف کی جاتی امرا آمد، سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات،سیاسی صورتحال پر مشاورت تیسرا ٹی ٹوئنٹی: پاکستان کا جنوبی افریقا کیخلاف ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ اسلام آباد میں ریسٹورنٹس اور فوڈ پوائنٹس کیلیے نئے ایس او پیز جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم