چاہ بہار پورٹ پابندی: بھارت کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
امریکا نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کی اسٹریٹجک چاہ بہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے دیا گیا استثنیٰ 29 ستمبر سے واپس لے رہا ہے۔ یہ رعایت بھارت کو 2018 میں ملی تھی تاکہ وہ افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے اپنے منصوبے پر کام جاری رکھ سکے۔
بھارت کے لیے چاہ بہار کی اہمیتچاہ بہار بندرگاہ ایران کے صوبے سیستان-بلوچستان میں واقع ہے اور اسے ’گولڈن گیٹ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بندرگاہ بھارت کو پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیا تک متبادل تجارتی اور ٹرانزٹ راستے فراہم کرتی ہے۔
بھارت نے ایران کے ساتھ مل کر شاہد بہشتی ٹرمینل کے آپریشن کا 10 سالہ معاہدہ کیا ہے، جس کے لیے نئی دہلی نے 2024-25 میں 100 کروڑ روپے مختص کیے۔
سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبےبھارت نے اب تک چاہ بہار میں بنیادی ڈھانچے اور قرض کی مد میں 120 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا نے بھارت کا چاہ بہار منصوبہ مشکل میں ڈال دیا، استثنیٰ ختم
اس بندرگاہ کے ذریعے 80 لاکھ ٹن سے زیادہ سامان منتقل کیا جا چکا ہے اور یہ افغانستان کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانے کا بھی ذریعہ بنی۔
بھارت کے لیے مشکلاتامریکی فیصلہ بھارت کے لیے ایک نیا سفارتی چیلنج ہے۔ ایک طرف نئی دہلی کی واشنگٹن سے اہم شراکت داری ہے اور دوسری طرف ایران کے ساتھ اسٹریٹجک اور اقتصادی تعلقات۔
پابندیوں کے نفاذ کے بعد بھارت کے چاہ بہار منصوبے میں کی گئی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ سکتی ہے اور خطے میں اس کی طویل مدتی حکمتِ عملی متاثر ہو سکتی ہے۔
امریکا کا مؤقفیاد رہے کہ امریکا نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار پر بھارت کو دیا گیا استثنیٰ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق یہ اقدام تہران کے مبینہ جوہری پروگرام کے خلاف ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی کا حصہ ہے۔
واشنگٹن نے خبردار کیا ہے کہ چاہ بہار میں کام کرنے والے یا اس سے جڑے دیگر افراد ایران فریڈم اینڈ کاؤنٹر پرو لیفریشن ایکٹ کے تحت پابندیوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران بھارت پاکستان چاہ بہار چاہ بہار پورٹ سینٹرل ایشیا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایران بھارت پاکستان چاہ بہار سینٹرل ایشیا چاہ بہار بھارت کو بھارت کے ہے اور کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایران نے امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات شروع کرنے کے فیصلے کو دنیا کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ واشنگٹن کا یہ اقدام نہ صرف غیر ذمے دارانہ ہے بلکہ عالمی استحکام کے لیے براہِ راست خطرہ بھی پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا ملک جو پہلے ہی ہزاروں ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے، جب دوبارہ تجربات کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو ایک نئے خطرناک دوڑ کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
عباس عراقچی نے کہا کہ امریکا اپنے عسکری مفادات کے لیے عالمی قوانین اور عدمِ پھیلاؤ کے معاہدوں کو مسلسل پامال کر رہا ہے۔ انہوں نے امریکا کو شرپسند ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو کر طاقت کے زعم میں مبتلا ہے، وہ انسانیت اور عالمی امن دونوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
ایران نے عالمی برادری خصوصاً اقوامِ متحدہ اور جوہری توانائی ایجنسی سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکا کے اس خطرناک فیصلے کا فوری نوٹس لیں اور ایسے اقدامات کو روکنے کے لیے عملی کردار ادا کریں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 33 سال بعد ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا اپنے جوہری اثاثوں کی جانچ برابری کی بنیاد پر فوری طور پر شروع کرے گا تاکہ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے ایٹمی پروگراموں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
برطانوی ذرائع کے مطابق واشنگٹن نے اس فیصلے کو قومی سلامتی کی ضرورت کے طور پر پیش کیا ہے، تاہم عالمی سطح پر اس پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق اگر امریکا نے واقعی جوہری تجربات بحال کیے تو یہ سرد جنگ کے دور کی یاد تازہ کر دے گا اور دنیا ایک نئی ہتھیاروں کی دوڑ میں داخل ہو سکتی ہے۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس فیصلے کے بعد دیگر ایٹمی ریاستیں بھی اپنے تجربات تیز کر سکتی ہیں، جس سے عالمی امن، ماحول اور انسانی بقا پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔