امریکہ: چابہار بندرگاہ پر بھارت کے لیے پابندیوں کی چھوٹ واپس
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بھارت کو ایران کی چابہار بندرگاہ کی تعمیر کے لیے نئی دہلی کو پابندیوں سے متعلق جو رعایات دی گئی تھیں، انہیں وہ واپس لے رہی ہے۔
ایران کی چابہار بندرگاہ دفاعی نکتہ نظر سے اہم ہے اور جب چین کی جانب سے گوادر کی بندرگاہ ڈیولپ کرنے کا عمل شروع ہوا تو بھارت نے اسی تناظر میں ایران کی اس بندرگاہ کو لے کر کام شروع کیا تھا۔
چونکہ ایران کے حوالے سے امریکہ نے بہت سی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اس لیے مودی کی درخواست پر سن 2018 میں ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ نے اس بندرگاہ کے آپریشنز کو پابندیوں سے مستثنٰی قرار دیا تھا، جسے اب واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ پابندیاں آج سے تقریباً 10 دن بعد یعنی 29 ستمبر سے نافذ العمل ہو جائیں گی اور کہا جا رہا ہے کہ تہران کے خلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ" بنانے کے لیے واشنگٹن نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
(جاری ہے)
امریکہ نے کیا کہا؟امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان تھامس پگوٹ نے ایک بیان میں کہا، "ایرانی حکومت کو الگ تھلگ کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے مطابق، وزیر خارجہ نے 2018 میں ایران فریڈم اینڈ کاؤنٹر پرولیفریشن ایکٹ کے تحت جاری کردہ پابندیوں کی استثنٰی کو منسوخ کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ، 29 ستمبر 2025 سے نافذ العمل ہو گا۔
"منسوخی کے فیصلے کے نفاذ کے بعد وہ تمام افراد جو چابہار بندرگاہ کو چلاتے ہیں یا دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہیں، وہ سب کے سب امریکی پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔
بھارت کے لیے ایک بڑا دھچکاماہرین کے مطابق گرچہ اس اقدام کے ذریعے ایران کو نشانہ بنانے کی بات کہی جا رہی ہے، تاہم اس کے بھارت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
نئی دہلی اس بندرگاہ (شاہد بہشتی ٹرمینل، چابہار پورٹ) کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے تیار کر رہا ہے۔بھارتی میڈیا نے اس حوالے سے ایسی خبریں شائع کی ہیں کہ چین کی جانب سے گوادر بندرگاہ کو جس طرح تعمیر کیا ہے، اس تناظر میں یہ فیصلہ چابہار کو ترقی دینے کے بھارتی منصوبوں کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے۔
استثنیٰ کی منسوخی بھارت کو ایک مشکل مقام پر ڈالتی ہے۔
13 مئی 2024 کو، نئی دہلی نے اپنے پہلے طویل مدتی ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت ایران کی بندرگاہ اور میری ٹائم آرگنائزیشن کے ساتھ شراکت میں چابہار کو چلانے کے لیے 10 سال کی ڈیل کی گئی تھی۔بھارت کے لیے چابہار صرف ایک تجارتی مرکز نہیں بلکہ اسٹریٹیجک نکتہ نظر سے بہت اہم ہے۔ نئی دہلی نے سب سے پہلے سن 2003 میں چابہار کو ترقی دینے کی تجویز پیش کی تھی کیونکہ یہ پاکستان پر بھروسہ کیے بغیر افغانستان اور وسطی ایشیا کو راستہ فراہم کرتی ہے اور یہ بین الاقوامی شمال-جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور سے بھی مربوط ہے، جو بھارت کو روس اور یورپ سے ملاتا ہے۔
بھارت اس بندرگاہ کو پہلے ہی افغانستان کو گندم کی امداد اور دیگر ضروری سامان بھیجنے کے لیے استعمال کر چکا ہے۔
امریکہ نے 2018 میں چابہار بندرگاہ کے منصوبے کو پابندیوں سے مستثنٰی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسے افغانستان کے لیے اچھی کھیپ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دفاعی نکتہ نظر سے اہم ایرانی بندرگاہچابہار ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں واقع ایک گہرے پانی کی بندرگاہ ہے۔
یہ بھارت کے لیے سب سے قریبی ایرانی بندرگاہ ہے اور کھلے سمندر میں واقع ہے، جو بڑے کارگو جہازوں کے لیے آسان اور محفوظ رسائی فراہم کرتی ہے۔مئی 2016 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ تہران کے دوران بین الاقوامی ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ کوریڈور (چابہار معاہدہ) کے قیام کے لیے بھارت، ایران اور افغانستان نے سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
بھارت نے اب تک 25 ملین امریکی ڈالر مالیت کی چھ موبائل ہاربر کرینیں اور دیگر سامان چابہار کو فراہم کیا ہے۔ بھارتی کمپنی، انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹڈ (آئی پی جی ایل) نے اپنی ایک ذیلی کمپنی انڈیا پورٹس گلوبل چابہار فری زون کے ذریعے، 24 دسمبر 2018 میں چابہار بندرگاہ کے آپریشنز کو سنبھالا تھا۔
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چابہار بندرگاہ بھارت کے لیے بندرگاہ کو میں چابہار اس بندرگاہ چابہار کو نئی دہلی ایران کی
پڑھیں:
غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔
نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔
طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔
غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔
ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔
25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔
میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔
طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔
سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔
23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔
طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔
اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔
نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔
یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔
چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔
انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔
لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔
نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔
نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔
روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
Post Views: 3