جامعہ کراچی میں سالانہ یوم مصطفیٰ (ص) کا انعقاد، اساتذہ سمیت طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد میں شرکت
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ کی آمد سے پوری دنیا کو انسانیت، اخوت اور امن کا عظیم پیغام ملا، آپ ﷺ نے اپنی سیرتِ طیبہ اور عملی نمونے کے ذریعے دنیا کو یہ درس دیا کہ انسانیت کی اصل کامیابی باہمی محبت، انصاف اور امن کے قیام میں ہے، موجودہ دور میں درپیش مسائل کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم سیرتِ نبوی ﷺ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ معروف عالم دین علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کہا ہے کہ انسانی تاریخ میں ایسے ادوار بھی گزرے ہیں جب معاشرہ مختلف اکائیوں میں تقسیم تھا اور ناانصافی کا یہ حال تھا کہ جانور کی قیمت عورت اور غلام سے زیادہ سمجھی جاتی تھی، اس دورِ ظلم و بربریت میں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اس وقت کے نظام کے خلاف آواز بلند کی اور باطل کے سامنے ڈٹ گئے۔ انہوں نے کہا کہ اُس وقت خانہ کعبہ میں 360 بت موجود تھے اور ہر قبیلے نے اپنا الگ الگ بت نصب کر رکھا تھا، یہی نہیں بلکہ ان بتوں اور باطل نظام کو بچانے کے لئے 360 فکری گروہ، جو آپس میں دشمن تھے، ایک ہو گئے تاکہ حق اور انصاف کی آواز کو دبایا جا سکے۔علامہ حسن ظفر نقوی نے موجودہ عالمی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، اصل پابندی اُس وقت شروع ہوتی ہے جب انسان جھوٹے خداؤں کو للکارتا ہے اور باطل نظام کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا سنتِ رسولﷺ ہے اور یہی وہ راہ ہے جو انسانیت کو نجات دلا سکتی ہے۔ ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے دفتر مشیر امور طلبہ جامعہ کراچی کے زیر اہتمام پارکنگ گراؤنڈ بالمقابل آرٹس لابی جامعہ کراچی میں منعقدہ سالانہ ”یوم مصطفی ﷺ“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمو دعراقی، علامہ سید عقیل انجم قادری، پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی، مشیر امور طلبہ جامعہ کراچی ڈاکٹر نوشین رضا، کیمپس سیکیورٹی ایڈوائزر ڈاکٹر سلمان زبیر اور جامعہ کراچی کے مختلف شعبہ جات کے اساتذہ اور طلبا و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔ علامہ سید حسن ظفر نقوی نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سعت قلبی پیدا کرو، دوسرے کو گلے سے لگانا اور قریب آنا سیکھو، ایسی گفتگو سے گریز اور پرہیز کرو جس سے اختلاف پیدا ہو۔
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ کی آمد سے پوری دنیا کو انسانیت، اخوت اور امن کا عظیم پیغام ملا، آپ ﷺ نے اپنی سیرتِ طیبہ اور عملی نمونے کے ذریعے دنیا کو یہ درس دیا کہ انسانیت کی اصل کامیابی باہمی محبت، انصاف اور امن کے قیام میں ہے، موجودہ دور میں درپیش مسائل کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم سیرتِ نبوی ﷺ سے دور ہوتے جا رہے ہیں، آج دنیا کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، اُن میں سب سے بڑا مسئلہ حق اور باطل کے درمیان جاری کشمکش ہے، حضور اکرم ﷺ نے ہمیشہ حق کا ساتھ دینے اور باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا پیغام دیا ہے۔ ڈاکٹر خالد عراقی نے کہا کہ آج غزہ کے مظلوم مسلمان اپنے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ظلم و بربریت کا شکار ہیں، یہ ہم سب کی دینی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے لیے آواز بلند کریں اور ہر ممکن عملی اقدام اٹھائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بحیثیت مسلم اُمہ ہم سب کو اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر خالد عراقی نے مزید کہا کہ اگر ہم سیرتِ طیبہ ﷺ کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اپنالیں تو نہ صرف موجودہ مسائل کا حل ممکن ہوگا بلکہ دنیا بھر میں امن و انصاف کا قیام بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے، آپ ﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور یہ رحمت ہمیشہ کے لئے ہے، حضوراکرم ؐؐ کی تعلیمات میں نہ صرف عصر حاضر بلکہ آنے والے وقتوں اور ادوار کے مسائل کا حل بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم حضورؐ کی سیرت اور حضورؐ کے عشق و اتباع کو تمغوں کی طرح سجائے آگے بڑھتے رہے ہم نے ریگزاروں سے لیکر بڑے بڑے شہنشاہی محلوں تک فتح کی تاریخ رقم کی، تحقیق و تدریس کا وہ معیار قائم کیا کہ اغیار بھی دنگ رہ گئے۔
علامہ سید عقیل انجم قادری نے کہا ہے کہ اتباع دراصل محبت اور اطاعت کے مجموعے کا نام ہے، محض ڈنڈے کے زور پر اتباع ممکن نہیں ہوسکتی، جب تک دل کے خلوص میں محبتِ رسول ﷺ کی شمع فروزاں نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دورِ دہریت اور نفسا نفسی میں اگر انسانیت کو تباہی و بربادی سے بچاکر فلاح کے راستے پر گامزن کرنا ہے اور جہنم کی راہوں سے بچاکر جنت کی راہوں کی طرف لے جانا ہے تو دنیا کے سامنے حضرت محمد ﷺ کے ''رحمت للعالمین'' کے پیغام کو اجاگر کرنا ہوگا۔ علامہ عقیل انجم قادری نے مزید کہا کہ رسول اکرم ﷺ نے وہ شمع روشن کی جس میں نہ گورے کو کالے پر اور نہ ہی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت دی گئی، بلکہ تقویٰ کو ہی اصل معیار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ نے جو کچھ فرمایا، اس پر سب سے پہلے خود عمل کرکے دکھایا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر حضور اکرم ﷺ ڈاکٹر خالد علامہ سید اور باطل دنیا کو اور امن کے خلاف
پڑھیں:
اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-5
غلام حسین سوہو
یہ مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ تعلیمی کارکنوں کی اندرونی تحریک کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ اس جمی ہوئی بے حسی کا مقابلہ کیا جا سکے جو ایک خطرناک اور ہر طرف پھیلی ہوئی بلا کی طرح پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس آفت سے ناآشنا ہیں جس نے ہماری قومی اساس کو خود انحصاری اور خوشحالی کے لیے کھوکھلا کر دیا ہے۔
“I hope when the going gets tough, the tough get going” کے مطابق اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہم تدریسی شعبے کو قربانی، ہمدردی اور مسلسل نشوونما کی بنیاد پر ایک باوقار پیشے میں بدل سکیں گے۔ لوگ استاد کے کردار کو محض تدریسی ذمے داری نہیں بلکہ طلبہ کو علم کی بھول بھلیوں میں رہنمائی کرنے، تجسس کی آگ جلانے، مہارتیں، قابلیتیں اور باوقار کردار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی پیمانے پر جب ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور تعلیمی رجحانات کس طرف بڑھ رہے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکسٹ بْک، رٹے بازی اور مبہم تعلیمی منتقلی کا کلچر حاوی ہے۔ جدید بورڈز، اسمارٹ کلاس رومز اور ہائی ٹیک لیب کے باوجود تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کی موجودگی یا غیر موجودگی کا نہیں بلکہ جذبے، لگن اور جدت کی کمی کا ہے۔
یہ موجودہ کلچر گھوڑے کی لاش کو پیٹنے کے مترادف ہے، جہاں تعلیم حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کو زیادہ پیشہ ورانہ خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے کام کو ذاتی ذمے داری سمجھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اساتذہ کو نصابی کتب اور باندھے ہوئے وسائل سے ہٹ کر اپنی تدریسی حکمت ِ عملیاں بنانے اور نافذ کرنے کی آزادی دی جائے تو وہ طلبہ کو ذمے دار شہری اور روزگار کے قابل بنانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اسی طرح معاونتی نظام بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی فلاح و بہبود کو ترجیح دے سکیں، مثلاً وسائل میں سہولت، رعایتیں اور انتظامی بوجھ میں کمی۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معزز اساتذہ اپنی علمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بعض کا ماننا ہے کہ ہاں، مگر عملی رکاوٹیں جیسے نصاب کی تکمیل کے لیے وقت کی کمی، وسائل کی قلت اور ناکافی تحریک انہیں مزید ترقی سے روکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اساتذہ میں پائی جانے والی بے حسی پورے نظام تعلیم کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایسا احتسابی کلچر پیدا کریں جو ہمدردی پر مبنی ہو۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ احتساب کا مطلب صرف سزا نہیں بلکہ نشوونما اور بہتری ہے۔ اساتذہ کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کریں اور اجتماعی ذمے داری کا ماحول پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی کلچر میں جذبے، جدت اور لگن کی کمی ہے۔ ہمیں ایسے کلچر کی ضرورت ہے جہاں استاد خود کو تبدیلی کے ایجنٹ سمجھیں اور نئے تجربات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اسی طرح طلبہ پر مرکوز تدریسی طریقے مثلاً تحقیق پر مبنی اور منصوبہ جاتی تدریس اساتذہ میں تدریس کی خوشی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔
’’سماج اکثر یہ خواب دیکھتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے آپ کو روشنی کے نگہبان سمجھنا چاہیے — ایسے افراد جو دوسروں کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے لیے ہمدردی اور نرمی پر زور دینا لازمی ہے۔ جذباتی ذہانت کی تربیت اساتذہ کو یہ سکھا سکتی ہے کہ طلبہ کے ساتھ بامعنی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں، اعتماد اور تعاون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔
’’میٹا کوگنیٹو مہارتوں کی پرورش اساتذہ کو یہ قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی تدریسی حکمت ِ عملیوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور طلبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں‘‘۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، واضح تدریسی طریقے اور عملی تربیت کو ملانا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو صاف اور منظم رہنمائی ملے۔ اسی طرح مضمون پر مبنی تربیت اساتذہ کے علمی اثاثے کو گہرا کرتی ہے جس سے وہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ اسباق فراہم کر سکیں۔
کامیاب تعلیمی نظام کا انحصار مسلسل سیکھنے، ہمدردی اور جدت پر ہے۔ اس طرح ہم اپنے اساتذہ کو حقیقی روشنی کے نگہبان میں بدل سکتے ہیں جو قربانی، نرمی اور غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے کردار کو نبھائیں۔ جب ہم ان کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں گے اور ان کو ضروری سہولتیں فراہم کریں گے تو ہم ایسا ماحول تشکیل دیں گے جہاں استاد اور طلبہ دونوں ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو روشن، بااختیار اور بہتر بنائیں۔
(مصنف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں جنہوں نے مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں: سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن، ایف ڈی ای اسلام آباد۔ ڈائریکٹر (سرٹیفکیشن) NAVTTC۔ ڈائریکٹر (آپریشنز اینڈ لیگل) STEVTA۔ ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب حیدرآباد۔ چیئرمین، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی)