وزیر صحت سندھ کا ایچ پی وی ویکسین کیخلاف منفی پروپیگینڈا پھیلانے والوں کو انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
صوبائی وزیرِ صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے ایچ پی وی ویکسین کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی افواہیں پھیلانے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ سائبر کرائم کو خط لکھ کر ویڈیوز فراہم کردی گئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے بتایا کہ سندھ میں 41 لاکھ بچیوں میں سے اب تک 57 فیصد کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ جس سیاسی جماعت نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا ہے، وہ صحت جیسے معاملے کو سیاست سے بالاتر رکھ کر سوچیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی پریس کلب میں پریس کلب ممبران کی بچیوں کو سروائیکل کینسر سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کیلئے دو روزہ کیمپ کی افتتاحی تقریب میں کیا۔ تقریب میں ماہرین امراضِ نسواں پروفیسر نگہت شاہ، ڈاکٹر حلیمہ یاسمین اور ماہر امراضِ اطفال ڈاکٹر خالد شفیع بھی موجود تھے۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے خطاب میں کہا کہ سندھ میں 9 تا 14 سال کی 41 لاکھ بچیاں ہیں جنہیں ایچ پی وی وائرس سے بچاؤ کی ویکسین دی جائے گی۔ سوشل میڈیا پر ایچ پی وی ویکسین کے حوالے سے منفی تاثر پیدا کیا گیا ہے۔ یہ مانع حمل کے مقصد کے لیے استعمال نہیں کی جارہی، یہ وائرس کے خلاف اثر انگیزی رکھتی ہے اور 2006 سے دنیا بھر میں لگائی جارہی ہے۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا کہنا تھا کہ اگر یہ ویکسین مہم کامیاب رہی تو ہم دیگر امراض سے بچاؤ کے لیے مزید ویکسین متعارف کروائیں گے۔ یہ تیرہویں ویکسین ہے جو ای پی آئی کا حصہ بن رہی ہے۔ ڈاکٹر حلیمہ یاسمین نے کہا کہ میں گائنی آنکولوجی کی سرجری کرتی ہوں۔ ایک ایک گانٹھ یا ٹیومر نکالنے پر اس رات تھکن نہیں جاتی۔ ایسے عورت سے آنے والی بدبو سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کو سروائیکل کینسر ہے بائیوپسی سے بھی پہلے۔ ہم اسی دن الگ الگ مراکز میں ریڈیو تھراپی کی بکنگ بھیجتے ہیں۔ میرا شوہر میری بیٹیوں کو لگوانے کے لیے فکر مند ہے کیونکہ میری بیٹیاں چودہ سال سے بڑی ہیں۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں اب تک اس مہم کے ذریعے 41 لاکھ میں 57 فیصد بچیوں کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ میں نے سیاسی افراد، ایم این اے اور ایم پی ایز کو کہا ہے کہ یہ افراد دیگر سیاسی جماعتوں سے ہی کیوں نہ ہوں، میں کہتی ہوں ساتھ دیں۔ ایک سیاسی جماعت ایسا کرتی ہے، اس سے کہوں گی کہ ایسا نہ کریں۔ میں نے وزیر اعظم کو خط لکھا، میں نے کہا کہ ہم زرِمبادلہ خرچ کر رہے ہیں، ہم کیوں ویکسین خود مینوفیکچر نہیں کرتے؟ اس کی انڈسٹری لگانے میں بہت بڑا بجٹ چاہیے۔ میں نے کہا ان کو قرض ہی دے دیں۔ حکومت ویکسین خرید رہی ہے لیکن انڈسٹری بنانا وفاقی حکومت کا معاملہ ہے۔ ہم کینسر رجسٹری بنا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور وزیر اعلیٰ سندھ صحت کے امور پر بہت کام کر رہے ہیں۔ اسپتالوں میں بہتری کی گنجائش ہے تو وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم ڈینگی اور ملیریا سے بچاؤ کے لیے جراثیم کش اسپرے کروا رہے ہیں۔ ہم اسپتالوں میں بستر بھی مہیا کر رہے ہیں۔ شہری بھی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ ہم دوا ڈال کر لاروا کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کینسر سروائور سمعہ زیبر نے کہا کہ جب مجھے سروائیکل کینسر ہوا تو پہلے نہیں پتہ چل رہا تھا کہ کیا ہوا۔ میں مختلف نجی کلینکس کے دھکے کھانے کے بعد جناح اسپتال کے شعبہ امراض نسواں گئی۔ علاج کا ہر مرحلہ دردناک تھا۔ میرے تین بیٹے ہیں لیکن اس مرض کے سبب مجھے جلدی مینوپاز ہوگیا۔ اگر ایک ویکسین ہے تو اسے لگوائیں۔
پروفیسر نگہت شاہ نے کہا کہ میں نے اپنی بیٹی کو تب ویکسین لگوائی جب یہ آسانی سے دستیاب نہیں تھی، اس وقت تین ڈوز لگی تھیں۔ ماضی میں ہم نے نعرہ بنایا کہ جہیز نہ دو مگر یہ ویکسین لگاؤ۔ کینسر کا نام ہی متاثر فرد کی آدھی موت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر خالد شفیع نے کہا کہ ڈیڑھ سال قبل سے طبی ماہرین نے غوروفکر کیا، تحقیق ہوئی کہ سنگل ڈوز ویکسین مؤثر ہے۔ اگر اس کمیٹی نے فیصلہ کیا تو بچیوں کی بہتری کے لیے ہم نے اپنی بچیوں کو پہلے سے لگائی۔ یہ 41 لاکھ بچیاں بھی ہماری بیٹیاں ہیں۔ کینسر کے علاج میں لاکھوں خرچ ہوتے ہیں۔ اگر یہ بانجھ پن کرتی تو کیا میں اپنی بیٹی کو لگواتا؟ غیر تصدیق شدہ مواد کو فارورڈ نہ کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کر رہے ہیں ایچ پی نے کہا کہ سے بچاؤ کے لیے
پڑھیں:
صوبائی حکومت نے معطل ڈاکٹر کو دوبارہ سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کا ایم ایس تعینات کردیا
کراچی:حکومت سندھ نے سرکاری نمبر پلیٹ کے غلط استعمال پر معطل کیے جانے والے ڈاکٹر کو دوبارہ سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کا ایم ایس تعینات کر دیا۔
سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود کے دوبارہ ایم ایس تعینات کیے جانے والے ڈاکٹر آغا عامر نے اسپتال کی سرکاری کلٹس کار کی نمبر پلیٹ نکال کر مبینہ طور پر اپنے دوست اور اسپتال کے ٹھیکدار کی پرائیویٹ کار میں لگا دی تھی۔
مذکورہ گاڑی ایم ایس کے دوست چلارہے تھے اور ٹول پلازہ پر ٹول نہ دینے پر تکرار ہوئی تھی جہاں پرائیویٹ کار چلانے والے نے ٹول پلازہ پر اپنے اپ کو سرکاری اسپتال کاایم ایس ظاہر کیا تھا۔
اس پر ٹول پلازہ پر تعینات عملے نے کار کی نمبر پلیٹ کی تصاویر لے کر اعلی حکام کو بھیجی تھی، جس کے نیتجے میں 23 جولائی کو چیف سیکریٹری سندھ نے انہیں ایم ایس کے عہدے سے فوری طور پر معطل کرکے محکمے میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
تاہم سندھ حکومت نے ڈاکٹر آغا عامر کو بحال کرتے ہوئے دوبارہ سعود آباد اسپتال میں ایم ایس تعینات کردیا ہے۔