جرمنی میں مہاجرین کی تعداد میں 2011ء کے بعد سے پہلی بار کمی
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) اس بارے میں برلن حکومت سے ایک سوال جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت دی لِنکے (لیفٹ پارٹی) کی طرف سے پوچھا گیا تھا۔ اس سوال کے جواب میں حکومت کی طرف سے فراہم کردہ تفصیلات جمعہ 19 ستمبر کو لیفٹ پارٹی کی طرف سے عام کی گئیں۔
حکومتی ڈیٹا کے مطابق جرمنی میں رہائش پذیر غیر ملکی مہاجرین کی آبادی میں رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران تقریباﹰ 50 ہزار کی کمی ہوئی۔
2024ء کے اختتام پر یہ تعداد قریب 3.55 ملین تھی، جو اس سال 30 جون تک 50 ہزار کی کمی کے بعد 3.5 ملین ہو چکی تھی۔ 2011ء کے بعد پہلی بار کمی
اس ڈیٹا سے یہ پتا بھی چلا کہ گزشتہ ششماہی کے دوران جرمنی میں مقیم مہاجرین کی مجموعی تعداد میں دراصل 2011ء کے بعد سے پہلی مرتبہ کمی ہوئی ہے۔
(جاری ہے)
اس وقت جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد میں پناہ کے متلاشی وہ تارکین بھی شامل ہیں، جو حال ہی میں جرمنی آئے۔
ان کے علاوہ اس تعداد میں ملک میں پہلے سے طویل المدتی بنیادوں پر مقیم مہاجرین بھی شامل ہیں اور وہ یوکرینی باشندے بھی جو کییف کی روس کے خلاف جنگ کے باعث اپنے جانیں بچانے کے لیے بطور مہاجرین یوکرین سے جرمنی آئے تھے۔
لیفٹ پارٹی کے مطابق ملک میں مہاجرین کی مجموعی تعداد میں ہونے والی کمی ان مختلف عوامل کے نتائج کی مظہر بھی ہے، جن میں جرمنی سے پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کا ملک بدر کیا جانا، مہاجرین کا رضاکارانہ طور پر واپس جانا اور ان کا لازمی قانونی شرائط پوری کرنے کے بعد جرمن شہریت حاصل کر لینا بھی شامل ہیں۔
قریب پانچ لاکھ مہاجرین کی قانونی حیثیت غیر یقینیجرمن وزارت داخلہ کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق 83,150 شامی باشندوں کو جرمن شہریت دی جا چکی ہے اور ایسا نہیں تھا کہ یہ سب کے سب شامی مہاجرین تھے۔
اس کے علاوہ فی الوقت جرمنی میں مقیم تقریباﹰ 3.5 ملین مہاجرین میں سے قریب نصف ملین (492,000) ایسے ہیں، جن کے قیام کی قانونی حیثیت غیر یقینی ہے۔
یہ غیر ملکی ایسے افراد ہیں، جن کی طرف سے پناہ کے لیے دی گئی درخواستوں پر یا تو ابھی سرکاری کارروائی جاری ہے، یا پھر جنہیں عارضی طور پر ملک میں قیام کی اجازت دی گئی ہے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سال جولائی کے آخر تک اپنے وطن میں جنگ کی وجہ سے جرمنی میں رہائش پذیر یوکرینی مہاجرین کی تعداد 1.27 ملین بنتی تھی۔
جرمن ایوان زیریں بنڈس ٹاگ کی لیفٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن کلارا بیُونگر نے ان اعداد و شمار کے حوالے سے کہا کہ ملک میں مہاجرین کی مجموعی تعداد میں یہ کمی ''خوشیاں منانے کی کوئی وجہ نہیں‘‘ کیونکہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں پر سختی کی وجہ سے تحفظ کے ضرورت مند انسان اب مقابلتاﹰ کم تعداد میں یورپ پہنچ رہے ہیں۔
ادارت: امتیاز احمد
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مہاجرین کی مجموعی تعداد میں میں مہاجرین کی کی طرف سے ملک میں کے بعد
پڑھیں:
جرمنی؛ گستاخِ اسلام کو چاقو مارنے کے الزام میں افغان نژاد شخص کو عمر قید
جرمنی کی ایک عدالت نے افغان شہری کو اسلام مخالف ریلی میں چاقو سے حملہ کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق مئی 2024 میں ہونے والے اس واقعے میں ایک پولیس افسر ہلاک جب کہ پانچ شہری شدید زخمی ہوگئے تھے۔
یہ حملہ مغربی شہر مانہائیم میں اسلام مخالف تنظیم پیکس یورپا کے ایک احتجاجی مظاہرے میں کیا گیا تھا جس میں مقرر نے مبینہ طور پر مذہبِ اسلام کی گستاخی کی تھی۔
سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار نے حملہ آور کو روکنے کی کوشش جس پر اس نے پولیس پر بھی چاقو کے وار کیے تھے۔
ملزم کی شناخت صرف سلیمان اے کے نام سے ظاہر کی گئی ہے جس کے پاس سے شکار کے لیے استعمال ہونے والا ایک بڑا چاقو برآمد ہوا تھا۔
اس حملے کے دوران ملزم بھی شدید زخمی ہوگیا تھا جو کئی روز تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل رہا اور جون 2024 میں عدالتی تحویل میں منتقل کر دیا گیا۔
استغاثہ کے مطابق سلیمان اے کے شدت پسند تنظیم داعش سے نظریاتی روابط تھے، تاہم اسے دہشت گردی کے بجائے قتل اور اقدامِ قتل کے الزامات کے تحت مجرم قرار دیا گیا۔