جرمن چانسلر فریڈرش میرس کا دورہ اسپین
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے جمعرات کی شام کو ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز سے میڈرڈ میں ملاقات کی اور غزہ کے تنازعے پر "اختلاف رائے" کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں نے "مختلف نتائج" اخذ کیے ہیں۔
جرمن چانسلر کا میڈرڈ کا یہ دورہ اس وقت ہوا ہے، جب یورپی یونین فلسطینی علاقے میں جاری انسانی بحران کے حوالے سے اسرائیل پر ممکنہ پابندیاں نافذ کرنے پر تبادلہ خیال کر رہی ہے۔
یورپی یونین کے بیشتر رکن ممالک نے ایسی پابندیوں کی حمایت کی ہے، تاہم قابل ذکر طور پر جرمنی اس میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
قدامت پسند سیاسی رہنما میرس نے کہا کہ جرمنی اسرائیل کے ساتھ "مضبوطی سے" کھڑا ہے، تاہم انہوں نے غزہ کے معاملے پر اس کے ردعمل کو "غیر متناسب" قرار دیا۔
(جاری ہے)
سانچیز کی بائیں بازو کی حکومت اسرائیل کے وزیر اعظم بنجیمن نیتن یاہو اور غزہ میں ان کی فوجی مہم پر یورپ کے سب سے بڑے ناقدین میں سے ایک رہے ہیں۔
میرس نے کہا، "اسرائیلی حکومت پر تنقید تو ممکن ہے، تاہم ہمیں اسے کبھی بھی یہودیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے استعمال نہیں ہونے دینا چاہیے۔" انہوں نے مزید کہا کہ وہ اور سانچیز نے اس موقف سے اتفاق کیا ہے۔
تاہم، جرمن چانسلر نے واضح کیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا جرمنی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، جو اسپین نے 2024 میں ہی کر لیا تھا۔
سانچیز نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو "نسل کشی" قرار دیا ہے اور بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں اسرائیلی کھلاڑیوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ہسپانوی وزیر اعظم سانچیز نے اسرائیل پر اسلحے کی مکمل پابندی کے ساتھ ہی "غزہ میں نسل کشی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم میں براہ راست ملوث تمام افراد کے لیے سفری پابندی" کا بھی اعلان کیا ہے۔
جرمنی کو اسرائیل پر پابندیوں سے متعلق فیصلہ کرنا ہےجرمن چانسلر فریڈرش میرس نے میڈرڈ کے دورے کے موقع پر کہا کہ جرمنی اکتوبر میں کوپن ہیگن میں یورپی یونین کے اجلاس سے قبل اسرائیل کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کی حمایت کرنے کے بارے میں فیصلہ کر لے گا۔
ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانچیز کے ساتھ بات کرتے ہوئے میرس نے کہا کہ غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں اس کے بیان کردہ اہداف کے متناسب نہیں ہیں، لیکن کہا کہ جرمنی اس نظریے میں شریک نہیں ہے کہ یہ اقدامات نسل کشی کے مترادف ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہم ان سوالات پر جرمن حکومت کی حتمی رائے تک پہنچیں گے، جن کے جوابات اب آنے والے دنوں میں یورپی سطح پر دینے کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "ہم اگلے ہفتے وفاقی کابینہ کی سطح پر ان مسائل پر دوبارہ بات کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد ہم یکم اکتوبر کو کوپن ہیگن میں ہونے والے غیر رسمی کونسل کے اجلاس میں ایک ایسے موقف کو حاصل کر لیں گے جسے پوری جرمن حکومت کی حمایت بھی حاصل ہو گی۔"
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یورپی یونین جرمن چانسلر اسرائیل کے انہوں نے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز
غزہ(آئی پی ایس )اردن اور جرمنی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پلان کے تحت فلسطینی پولیس کی معاونت کے لیے متوقع بین الاقوامی فورس کو اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔
یہ نام نہاد بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی جبکہ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔
تاہم اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا، الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزر خارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نا صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے، جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے۔اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو اس وقت لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل بیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے: مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کی سابق قیادت کا حکومتی وزرا اور فضل الرحمان سے ملاقاتوں کا فیصلہ شاہ محمود قریشی سے سابق رہنمائوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی پاکستان کے بلال بن ثاقب دنیا کے بااثر ترین کرپٹو رہنما ئوں میں شامل اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظمCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم