Jasarat News:
2025-09-21@01:02:47 GMT

جمعیت ہرباطل نظریے کیخلاف برسر پیکار ہے‘عائشہ رضوان

اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر)اسلامی جمعیت طالبات پاکستان اپنے قیام کے 57 برس مکمل کر چکی ہے۔ اس پر مسرت موقع پر ناظمہ اعلیٰ اسلامی جمعیت طالبات پاکستان عائشہ رضوان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حق و صداقت کا علم اٹھائے یہ تحریک معاشرے میں خیر کی ترویج کر رہی ہے۔ چند طالبات سے شروع ہونے والا یہ قافلہ اب ملک بھر میں باطل نظریات کے خلاف برسر پیکار ہے۔نصف صدی سے زاید کا یہ سفر کارکنانِ جمعیت کے اخلاص ، قربانیوں اور کوششوں سے عبارت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کارکنانِ جمعیت چاہے تعداد میں کم ہیں لیکن یہ دھرتی کا وہ نمک ہے جن کے ذریعے سے معاشرے میں خیر کا نفوذ ہے اور بالخصوص تعلیمی ادارے سیکولر نظریات کا گڑھ نہیں بن سکے۔اسلامی جمعیت طالبات پاکستان طالبات کی وہ واحد نمائندہ تنظیم ہے جو طالبات کو درپیش فکری و نظریاتی چیلنجز کا مقابلہ کر رہی ہے اور پاکستان بھر کی تمام طالبات کو ان کی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے ہر قسم کا پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ یوم تاسیس کے اس موقع پر کارکنان جمعیت مبارکباد کی مستحق ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں کہ اس عزیمت کے قافلے کا حصہ ہیں جس کا منتہائے مقصود رضائے الٰہی کا حصول ہے۔بلاشبہ یہ سفر طویل ہے مگر ان شاء اللہ ہم جلد اس کے اثرات وطن عزیز میں دیکھیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

صبح صبح دعائیہ کلمات کے پیغامات اور ہم

صبح صبح انفرادی طور پر اور گروپ میں اجتماعی طور پر اس قدر نیک افعال، اعمال اور دعائیہ کلمات کے پیغامات کی بھرمار ہوتی ہے کہ آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اتنے سارے نیک لوگ معاشرے میں کہاں رہتے ہیں؟

اگر وہ اسی معاشرے میں رہتے ہیں تو معاشرے کا یہ حال کیوں ہے؟ اگر آپ کی عبادات مسجد کے باہر آپ کے روزمرہ کے افعال میں نظر نہیں آتی تو اسے عادت یا عادات تو کہا جاسکتا ہے عبادت یا عبادات نہیں کہہ سکتے۔

میرے ایک عزیز دوست نے میری تحاریر پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا کہ میں روزمرہ کے معروف موضوعات کو چھوڑ کر معاشرے کے حساس موضوعات پر لکھتا ہوں کہ جس پر عام طور پر لکھاری لکھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ انھوں نے تو اجتناب سے بھی سخت لفظ استعمال کیا تھا پر میں نے اجتناب پر قناعت کرلی۔ میرا جواب یہ تھا کہ اگر ہم واقعی معاشرے میں مثبت تبدیلی چاہتے ہیں تو کسی کو تو ان موضوعات کا انتخاب کرنا ہوگا، جب کہ ہمیں اس بات کی بھی آگہی ہے کہ معاشرہ ایسی نشاندہی کرنے والے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

ایک خاتون نے اپنے شوہر کےلیے لکھا کہ ’’میرا شوہر اتنا بھی برا نہیں ہے جتنا شناختی کارڈ میں نظر آتا ہے اور اتنا اچھا بھی نہیں جتنا فیس بک پر نظر آتا ہے‘‘۔ کوئی بھی معاشرہ نہ مکمل طور پر اچھا ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر برا ہوتا ہے۔ معاشرے میں افراد کی ایک مخصوص تعداد کہ جسے critical mass کہتے ہیں اگر وہ اچھائی کی جانب راغب ہے تو وہ معاشرہ اچھا کہلائے گا اور اگر یہی کریٹیکل ماس برائی کی جانب راغب ہو تو وہ معاشرہ برا کہلائے گا۔ 

موجودہ حالات میں ہمارے معاشرے کو اچھا کہنا خاصا مشکل کام ہے مگر یقین مانیے ہمارا معاشرہ اتنا بھی برا نہیں۔ اشرافیہ کی چوریوں کی وجہ سے معاشرے میں جو وسائل کی قلت ہوگئی ہے اس سے مجبور ہوکر معاشرے نے موجودہ رویہ اختیار کرلیا ہے۔ اگر وسائل کی تقسیم منصفانہ ہوجائے اور عدل کا نظام یہاں رائج کردیا جائے تو اس معاشرے کو بہت کم وقت میں ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے ہر محلے کی مساجد میں کسی بھی نماز میں جتنے نمازی ہوتے ہیں اگر وہ سورۃ فاتحہ کا ترجمہ پڑھ لیں اور اس پر خلوص دل سے اپنی روزمرہ کی زندگی میں عملدرآمد کرنا شروع کردیں تو یہ تعداد بھی اس محلے کےلیے کریٹیکل ماس ہوگی اور اس محلے کی کایا پلٹنے کےلیے کافی ہے۔ اس طرح سے رفتہ رفتہ پورا ملک سدھارا جاسکتا ہے لیکن اگر قوم نے منافقت ہی کرنی ہے تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں اور اس کے جواب میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ پھر اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔

آخر میں حسب روایت ایک کہانی اور اختتام۔ اس کہانی میں تمام لوگ بشمول میرے جو صبح بخیر اور جمعہ مبارک کے پیغامات بھیجتے ہیں، ان کےلیے سبق ہے۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک پاکستانی نے سویڈش لڑکی سے شادی کرلی لیکن لڑکی اپنے مذہب پر ہی قائم رہی۔ شادی کے بعد پاکستانی صاحب اسے اسلام اور اسلام کی تعلیمات کے بارے میں بتاتے رہے۔ وہ اسے بتاتے کہ اسلام محبت کا دین ہے، عفو و درگزر کا مذہب ہے۔ حسن و سلوک اور حسن معاملہ کا مذہب ہے۔ نفرت اور قطع تعلقی کو اچھا نہیں سمجھتا، رحم اور برداشت کی تعلیم دیتا ہے۔ بالآخر، ایک دن اس سویڈش لڑکی نے ان تعلیمات اور اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔

پاکستانی صاحب ایک بار چھٹیاں گزارنے پاکستان تشریف لائے تو اپنی سویڈش بیوی کو بھی ساتھ لیتے آئے۔ کوئی ایک ہفتہ اپنے خاوند کے گھر والوں کے ساتھ رہنے کے بعد سویڈش بی بی کہنے لگی کہ تم اپنے گھر والوں کو بھی اسلام کی تبلیغ کرو، تاکہ وہ بھی مسلمان ہوجائیں اور گھر کا ماحول بہتر ہوجائے۔ 

اس سے آگے شاید کچھ نہیں لکھا جاسکتا۔ کل جب آپ صبح بخیر کا پیغام بھیجیں تو اس کہانی کو ضرور یاد کیجیے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • حق دو طلبہ تحریک‘‘ کو پورے آزاد کشمیر میں چلائیں گے‘اسلامی جمعیت طلبہ
  • صبح صبح دعائیہ کلمات کے پیغامات اور ہم
  • فلسطینی بچوں سے اظہار یکجہتی کیلئے کراچی چلڈرن غزہ مارچ
  • جماعت اسلامی کا کراچی میں غزہ چلڈرن مارچ، طلبہ و طالبات بڑی تعداد میں شریک
  • چلڈرن غزہ مارچ”ہزاروں طلبہ و طالبات کی شرکت، اسرائیلی جارحیت کیخلاف نعرے
  • 22ستمبر: عظیم اسلامی مفکر، مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا 46واں یوم وفات
  • لاہور؛ احتجاج کرنے پر رہنما جماعت اسلامی سمیت جمعیت کے متعدد کارکنان گرفتار
  • راولپنڈی انٹرمیڈیٹ نتائج : طالبات نے پہلی تینوں پوزیشنز اپنے نام کرلیں
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت