رحمان بابا، بیجو اور درانی قبرستان کی تاریخ
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
قسمت ایک بار پھر مجھے پشاور لے آئی تھی جس کی بنیادی وجہ خیبر پاس ریلوے اور لنڈی خانہ کا اسٹیشن تھا۔ یہ داستان آپ کو بعد میں سناؤں گا پہلے چلتے ہیں اس تاریخ کی طرف جو ہم نے واپسی پر دیکھی۔
میں اپنے ساتھیوں عمران احسان اور محمد شعیب کے ساتھ واپس پشاور پہنچا تو واپسی کی ٹرین چھوٹنے میں میں کافی سمے باقی تھا۔ سو انہیں ہزارخوانی اور درنائی قبرستان دکھانے کا سوچا۔
شام سے پہلے ہم ہزار خوانی قبرستان میں رحمان بابا کے مزار کے سامنے تھے۔
پشتو کا حافظ شیرازی، رحمان بابا
ہزار خوانی، پشاور کا ایک مشہور اور بڑا قبرستان ہے جس کے ایک کونے میں پشتو ادب کا مشہور شاعر محو استراحت ہے۔
یہ رحمان بابا ہیں۔۔۔۔۔
سن 1432ء میں جنمے پشتو کے عظیم صوفی شاعر عبد الرحمٰن، مہمند قبیلے کی ایک شاخ غوریہ خیل سے تعلق رکھتے تھے۔
آپ پشاور کے قریب بہادر کلی میں پیدا ہوئے اور اپنے زمانے کے معتبر علما سے فقہ اور تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ پشتون شاعری کے حافظ شیرازی کہلاتے ہیں۔
آپ کی شاعری انسانیت، عاجزی اور خدا کی محبت سے لبریز ہے۔ ان کا مشہور مجموعہ دیوانِ رحمان پشتو ادب میں کلاسیکی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ محبت کو سب سے بڑی عبادت سمجھتے تھے اور دنیاوی غرور کو بے کار قرار دیتے تھے۔
آپ کی شاعری کو پشتو کی اعلیٰ شاعری میں شمار کیا جاتا ہے۔ آپ مشہور پشتون شاعر اور بہادر جنگجو خوشحال خان خٹک کے ہم عصر ہیں۔ اور آپ نے ہر قسم کے فلسفے اور علم کو اپنی شاعری میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
ترجمہ:یعنی اگر اس جہان میں اگر کوئی ہدایت اور پیروی کے لائق روشنی ہے تو وہ صرف محمد صلی اللّہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی راہ ہے۔ ورنہ اس جہاں میں اس کے علاوہ کوئی روشنی والا راستہ نہیں ہے۔
ترجمہ:
میں غرور کے محل نہیں چاہتا، اے رحمان
میں خدا کی محبت میں سادہ زندگی چاہتا ہوں
آپ کی وفات کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں۔
کچھ روایات 1711 بتاتی ہیں جب کہ چند مستند مقامی روایتی ذرائع 1715ء کو وفات کا سال قرار دیتے ہیں۔
آپ کے مزار کے پاس ایک کتب خانہ اور آڈیٹوریم کمپلیکس بھی بنایا گیا ہے۔
مزار کی عکاسی کر کے ہم ایک اور تاریخی مقبرے کی طرف نکلے جو قریب ہی وزیر باغ کے پاس موجود ہے۔ یہ بیجو کا مقبرہ ہے۔
بیجو کا مقبرہ
وزیرباغ سے آگے مرکزی سڑک کنارے ایک تباہ حال، سنسان اور خالی (بغیر قبر کے) مقبرہ کھڑا ہے جو بیجو کے مقبرے کے نام سے مشہور ہے۔
بی بی جان، جنہیں عام طور پر بیجو کہا جاتا ہے، تیمور شاہ درانی (احمد شاہ ابدالی کے بیٹے اور درانی سلطنت کے بادشاہ) کی ایک کنیز تھیں۔ اپنی خوب صورتی، نرمِ مزاجی اور اعلیٰ سلیقے کی وجہ سے تیمور شاہ ان پر فریفتہ ہوگئے اور انہیں خاص مقام عطا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ تیمور شاہ نے بیجو کو ملکہ جیسا درجہ دیا، جس پر شاہی بیگمات کو سخت حسد ہوا۔
شاہی سازشوں اور حسد کی بنا پر بیجو کو زہر دے کر قتل کردیا گیا۔ بعض روایات کے مطابق یہ کارنامہ شاہی بیگمات نے انجام دلایا تاکہ تیمور شاہ کی توجہ بیجو سے ہٹ جائے۔ بیجو کی اچانک موت نے تیمور شاہ کو شدید صدمہ پہنچایا۔
بیجو کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے تیمور شاہ نے پشاور میں ان کے لیے ایک مقبرہ تعمیر کروایا۔
یہ مقبرہ 1772ء تا 1780ء کے درمیان تعمیر ہوا جو گنبد نما ہے اور درانی فنِ تعمیر کی خوب صورت جھلک پیش کرتا ہے۔ اس کی محرابی دروازے اور اندرونی محرابیں دیکھ کے اس کی خوب صورتی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ یہ مقبرہ خستہ حالی کا شکار ہوچکا ہے، تاہم آج بھی یہ پشاور کی محبت کی ایک لازوال داستان کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ عوام میں یہ مزار ’’بیجو کی قبر‘‘ کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔
بیجو کی قبر پشاور کی ان نایاب یادگاروں میں سے ہے جو نہ صرف درانی دور کی شاہی زندگی پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ انسانی جذبات، محبت اور قربانی کی کہانی بھی سناتی ہے۔
درانی قبرستان، افغانستان کے حاکموں کا مدفن
بیجو بی بی کے مقبرے کے پاس ہمیں ایک پرانا محرابی دروازہ نظر آیا جو قبرستان کا مرکزی دروازہ تھا۔ اس دروازے کے اندر گئے تو ایک قبرستان اور قریب ہی ایک قدیم مسجد نظر آ رہی تھی۔ یہ مسجد پیچھے سے اپنی قدامت کی گواہی دے رہی تھی لیکن سامنے سے بالکل نئی تھی اور اسی مسجد کے سامنے قبرستان کا وہ احاطہ ہے جہاں پر افغانستان کے کچھ حکم راں محوِآرام ہیں۔
یہ درانیوں کا قبرستان ہے جسے میں کب سے دیکھنا چاہ رہا تھا۔
سبز رنگ کے دروازے کے بائیں جانب جو تختی لگی ہے اس کے مطابق یہاں بزرگ شیخ حبیبب باباؒ، فاتح میوند غازی سردار محمد ایوب خان، سردار محمد ابراہیم خان، امیر شیر علی خان اور سردار جلال الدین خان مدفون ہیں۔
آئیں ان تاریخ ساز ہستیوں اور ان کے اجداد کے بارے میں مزید جانتے ہیں جو بارکزئی سلطنت کے قیام کا باعث بنے۔
شروع کریں گے بارکزئی سلطنت کے خالق دوست محمد خان سے۔
امیر دوست محمد خان، بارکزئی سلطنت کے بانی
درانی سلطنت کے دور میں بارکزئی پشتون سردار پائندہ خان کے ہاں قندھار میں پیدا ہونے والے امیر دوست محمد خان بارکزئی (1863-1792)، محمد شاہ رنگیلا کے بعد 1826 میں افغانستان کے حکم راں بنے جن کی اپنی زندگی کسی ڈرامے سے کم نہیں۔ امیرِکبیر کے نام سے مشہور دوست محمد خان نے بارکزئی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ دو بار افغانستان کے امیر رہے جن کی مہمات نے کابل، قندھار اور ہرات کے شہروں کو اکٹھا کر کے ایک ریاست بنا دیا تھا، ان سے پہلے یہ کارنامہ احمد شاہ درانی نے سرانجام دیا تھا۔
لارڈ آکلینڈ نے 1839 میں افغانستان پر حملہ کر کے دوست محمد خان کو ہٹا کر شاہ شجاع کو تخت پر بٹھا دیا۔ دوست محمد کے بیٹے اکبر خان کی قیادت میں افغانوں نے بغاوت کی اور شاہ شجاع کو قتل کردیا۔ شدید جنگ کے بعد انگریز سپاہ کو پسپا کیا اور دوست محمد افغانستان کے تخت پر واپس آ گیا جہاں وہ مرتے دم تک یعنی 1863 تک قابض رہا۔
امیر شیر علی خان بارکزئی اور دوسری اینگلو افغان جنگ
اپنے باپ کی موت کے بعد شیر علی خان افغانستان کے تخت پر براجمان ہوئے جو 1825 کو کابل میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ 1863 سے 66 تک امیرِافغانستان رہے جس کے بعد ان کے بھائی افضل خان انہیں ہرا کر تخت نشین ہوئے۔
ٹھیک ایک سال بعد ہیضے سے ان کی موت واقع ہوئی اور ان کے بھائی اعظم خان امیر بن بیٹھے جسے ہرا کر شیر علی 1868 میں دوسری بار حاکم بنے اور 1879 میں اپنی وفات تک امیرِافغانستان رہے۔ ان کے دور میں افغانستان نے روسی اور برطانوی سلطنتوں کے بیچ غیر جانب دار رہنے کی کوشش کی جس کی پاداش میں دوسری اینگلو افغان جنگ ان پر مسلط کی گئی۔
اس جنگ نے ان کو بری طرح متاثر کیا کیوںکہ کوئٹہ سمیت بہت سے علاقے انہیں تاجِ برطانیہ کو سرنڈر کرنے پڑ گئے تھے۔ انہوں نے کابل میں برطانوی نمائندہ مقرر کرنے میں پس و پیش سے کام لیا تو اس بات کو روس کی طرفداری سے تشبیہ دیتے ہوئے انگریز سرکار نے 1878 میں کابل پر حملہ کردیا۔ انگریز فاتح ہوئے تو انہیں تخت چھوڑ کر روس کے پاس مدد مانگنے جانا پڑا جہاں راستے میں ہی مزارشریف میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے محمد یعقوب خان کو انگریز سرکار نے افغانستان کا امیر بنا دیا۔
پشاور کے اس قبرستان میں بھی ایک شیر علی خان دفن ہیں جو امیر افغانستان شیر علی نہیں بلکہ غازی ایوب خان کے بیٹے شیر علی خان ہیں۔
محمد یعقوب خان اور معاہدہ گندمک
محمد یعقوب خان، اپنے بھائی ایوب خان کی طرح امیرِافغانستان اور صوبہ ہرات کے گورنر رہ چکے ہیں۔
یعقوب خان کو ان کے والد شیرعلی نے کم عمری میں ہی ہرات کی حکم رانی سونپ دی تھی لیکن جب شیر علی نے اپنی بیٹے عبداللّہ جان کو اپنا وارث نام زد کیا تو یعقوب اور ان کے بیچ بدمزگی پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے یعقوب کو کابل میں قید کردیا گیا۔
جلد عبداللّہ جان کے انتقال سے یعقوب کا راستہ صاف ہوگیا۔
دوسری اینگلو افغان جنگ میں شیر علی کے فرار اور پھر انتقال کے بعد وہ جانشین بنے اور گندمک آئے، جہاں 1879 میں برطانیہ کے ساتھ گندمک معاہدے پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں، افغانستان کے خارجہ تعلقات کا کنٹرول برطانیہ کو منتقل ہوگیا اور کابل میں برطانوی سفیر تعینات کردیا گیا۔ اسی سال معاہدے سے اختلاف اور کچھ دیگر وجوہات کے نتیجے میں یعقوب خان مستعٰفی ہوئے جس پر انہیں ہندوستان بھیج دیا گیا اور ایوب خان امیرِافغانستان بن گئے۔
آپ کا انتقال 1923 میں ہندوستان میں ہوا۔ برطانوی ناول نگار میری ’’مارگریٹ کائی‘‘ کے مشہور ناول ’’دی فار پویلینز‘‘ میں بھی آپ کا ذکر موجود ہے۔ یہ ناول برطانوی ہند کی تاریخ پر لکھا گیا تھا۔
جنگ میوند اور ملالئی
سن 1857ء میں کابل میں شیرعلی خان امیر افغانستان ( 1863 تا 1878) کے ہاں پیدا ہونے والے پرنس چارلی، غازی محمد ایوب خان، گورنر ہرات اور افغانستان کے امیر رہ چکے ہیں۔ آپ کے رتبے کو سمجھنے کے لیے ہمیں میوند کے میدان جنگ کا رُخ کرنا پڑے گا جہاں ملالہ میوند یا ملالئی، انگریز سام راج سے برسرِپیکار افغان فوجوں کو ہارتے ہوئے دیکھ کر میدان میں کود پڑیں اور اپنے دوپٹے کا جھنڈا بنا کر لہراتے ہوئے پشتو میں کہا؛
ترجمہ:
’’ساتھیو! اگر تم آج میوند کے اس میدان میں شہید نہ ہوئے، تو ساری زندگی لوگ تمھیں بے غیرتی کا طعنہ دیتے رہیں گے۔‘‘
لکھنے والے لکھتے ہیں کہ یہی وہ لمحہ تھا جب جنگ کا پانسا پلٹا اور برطانوی فوج شکست کھا کر میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔ افغان جنگ میوند میں فاتح ٹھہرے اور ملالئی کا نام اور ان کے وہ اشعار، پختون تاریخ میں جرأت کا باب اور جنگ کے خلاف مزاحمت کی ایک نئی آواز بن گئے۔ انیس سالہ اس لڑکی کے باپ اور منگیتر نے بھی اس جنگ میں شہادت کا رتبہ پایا۔
پہلی اینگلو افغان جنگ کی شکست کے زخموں سے چور انگریز سام راج نے 27 جولائی 1880 کے ایک گرم دن، نئی جنگی حکمت عملیوں کے ساتھ افغان سرزمین پر حملہ کردیا۔ انگریز سپاہ کی قیادت جنرل بروز جب کہ افغان لشکر کی قیادت غازی ایوب خان کر رہے تھے۔ یہ جنگ قندھار سے 70 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع میوند کے مقام پر لڑی گئی۔ اگرچہ جنگ میں افغان فوجیوں کا زیادہ جانی نقصان ہوا لیکن وہ یہ جنگ جیت گئے اور انگریزوں کو پیچھے دھکیل دیا۔
اس جنگ پر مشہور انگریز ادیب رڈیارڈ کپلنگ نے ’’وہ دن‘‘ کے نام سے ایک نظم لکھی؛
کوئی موسیقار نہیں ہیں جو موسیقی بجاتے ہیں
کاش وہ اپنی شکست سے پہلے ہی فوت ہوجاتا
کاش میں نے اسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا
غازی محمد ایوب خان، پرنس چارلی
افغان پرنس چارلی کے نام سے مشہور غازی ایوب کو میوند کی جنگ کے بعد ایک قومی ہیرو کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس جنگ میں اپنے دشمن کو طاقت اور عقل دونوں محاذوں پر ہرایا تھا۔ صوبہ ہرات کے گورنر رہنے کے علاوہ آپ اپنے بھائی محمد یعقوب خان کے بعد 1879 سے 1880 تک کے مختصر عرصے میں افغانستان کے امیر بھی رہے۔
میوند کی جنگ میں فتح کے بعد ایوب خان کو جنرل رابرٹ اور امیر عبدالرحمٰن کی مشترکہ فوجوں نے قندھار کی جنگ میں شکست دی جو ایک ماہ بعد یکم ستمبر 1880 کو ہوئی تھی۔
ایوب خان کو معزول کر کے برطانوی ہندوستان میں جلاوطن کردیا گیا۔ تاہم ایوب خان فرار ہوکر ایران چلے گئے جہاں تہران میں برطانیہ کے سفیر سر مورٹیمر ڈیورنڈ کے ساتھ 1888 میں مذاکرات کے بعد وہ ہندوستان آ گئے اور لاہور میں رہائش پذیر ہوئے، جہاں اپریل 1914 میں ان کا انتقال ہوا۔ انہیں اپنی موت سے قبل ان کی خواہش کے مطابق پشاور کے شیخ حبیب بابا قبرستان، وزیر باغ میں دفن کیا گیا۔ پاس ہی ان کی والدہ کی قبر بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں ہم نے ان کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔
یہ تو تھے اس قبرستان میں مدفون چند مشہور ترین (اور اب گم نام ترین) حکم راں اور ان کی کہانیاں۔ اس احاطے میں ایک اور شخصیت کی قبر بھی ہے جو سبز رنگ کی ہے اور باقی قبور سے بڑی ہے۔ یہ شیخ حبیب باباؒؒ کی قبر ہے۔
سرہند میں پیدا ہونے والے شیخ حبیب، سلسلۂ نقشبندیہ بنوریہ کے بزرگ تھے جنہوں نے یہ سلسلہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں پھیلانے میں بہت محنت کی۔
ان کی وفات بادشاہ اورنگزیب کے دور میں 1685ء میں پشاور میں ہوئی۔
چوںکہ پشاور ایک دور میں درانی سلطنت کا اہم شہر تھا اس لیے اس قبرستان میں افغانستان کے کئی شہزادے اور راہ نما دفن ہیں۔ یہ افغان بھی شیخ حبیب اللّہ کو بزرگ مانتے تھے، لہٰذا ان کے آس پاس دفن ہونے کو ترجیح دی۔ اور آج یہ احاطہ شیخ حبیب باباؒؒ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مسجد حافظ مراد
اسی احاطے کے پاس اس قدیم مسجد کا دروازہ ہے جس کے اندر اب قدامت کا کوئی پہلو باقی نہیں چھوڑا گیا۔ مغرب میں اس کے قدیم گنبد اور ایک دیوار نظر آتی ہے لیکن سامنے اور اندر اب جِدت کا راج ہے۔ اندر ایک خوب صورت تالاب ہے اور محرابی دروازے ہیں۔
اس بارے میں ڈاکٹر احمد حسن دانی اپنی کتاب پشاور، فرنٹیئر کا تاریخی شہر میں یوں رقم طراز ہیں؛
’’شاہ حبیب کی قبر کے ساتھ واقع مسجد حافظ مراد نے 1725ء میں تعمیر کروائی تھی۔ یہ ایک لمبی عمارت ہے جس کے کونے میں برج موجود ہیں۔ یہ تین گنبد نما عبادت گاہ پر مشتمل ہے جس میں مشرق کی طرف برآمدہ ہے۔ ایک اور مسجد 1796 میں شیخ ایاز کی تھی جو درانی دور میں کچھ مشہور بزرگ تھے۔ یہ ایک چھوٹی اینٹوں سے بنی مسجد ہے جس کی چھت کم بلند ہے، اندرونی دیواریں پلستر اور مزید پینٹ کی گئی ہیں۔ ان پر کئی نوشتہ جات بھی ہیں۔ دربار میں دو قبریں ہیں۔‘‘
یہاں جس دوسری مسجد کا ذکر ہے وہ مجھے آس پاس نظر نہیں آئی، ہوسکتا ہے اب منہدم ہوگئی ہو۔ اسی طرح دانی صاحب نے مرکزی محرابی دروازے پر ایک گنبد کا ذکر کیا ہے جو اب موجود نہیں۔ ساتھ ہی مسجد کے تین گنبدوں کا بھی ذکر ہے جب کہ اب دو ہی نظر آتے ہیں اور تیسرے کی جگہ ایک نئی تعمیر شدہ دیوار نظر آتی ہے۔ اُس گنبد کی موجودگی ایک معما بنی ہوئی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امیر افغانستان میں افغانستان افغانستان کے قبرستان میں شیر علی خان کردیا گیا میں افغان تیمور شاہ اور ان کے کے نام سے میں پیدا سلطنت کے ایوب خان کابل میں ہے جس کے جاتا ہے کے بیٹے دیا گیا بیجو کی کے ساتھ ان کے ا کے بعد خان کو کی قبر کی ایک کے پاس
پڑھیں:
جعفر ایکسپریس حملے کا ماسٹر مائنڈ افغانستان میں پراسرار طور پر ہلاک
فتنۃ الہندوستان کا دہشتگرد گل رحمان عرف استاد مرید افغانستان میں پراسرار طور پر ہلاک ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع نے کہا کہ گل رحمان عرف استاد مرید جعفر ایکسپریس حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا، بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا کے مطابق فتنۃ الہندوستان کا دہشتگرد افغانستان کے صوبے ہلمند میں17 ستمبر 2025 کو ہلاک ہوا، دہشتگرد گل رحمان فتنۃ الہندوستان( مجید بریگیڈ) کا ٹرینر اور آپریشنل کمانڈر تھا۔
ذرائع نے کہا کہ دہشتگرد گل رحمان پاکستانی سیکیورٹی فورسز، چینی شہریوں، معصوم شہریوں اور مختلف اداروں پر حملوں میں ملوث تھا، فتنۃ الہندوستان نے پاکستان کے نہتے معصوم شہریوں، سیکیورٹی فورسز اور سی پیک منصوبوں کو نشانہ بنایا۔
ذرائع کے مطابق فتنۃ الہندوستان نے جعفر ایکسپریس، کراچی میں چینی قونصلیٹ اور گوادر پی سی ہوٹل میں دہشتگردانہ کارروائیاں کیں۔
فتنۃ الہندوستان نے خضدار اسکول بس دھماکا، کراچی میں کنفیوشس انسٹیٹوٹ خود کش دھماکا، پاکستان اسٹاک ایکسچینج حملہ اور کوئٹہ ریلوے اسٹیشن میں دہشتگردانہ کارروائیاں کیں، امریکا فتنۃ الہندوستان کے مجید برگیڈ کو عالمی دہشتگرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اور چین نے فتنۃ الہندوستان کے مجید برگیڈ کو اقوام متحدہ کی دہشتگرد فہرست میں ڈالنے کا مطالبہ کیا، فتنۃ الہندوستان کے دہشتگرد کی ہلاکت اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
Post Views: 6