Express News:
2025-09-21@23:44:37 GMT

غزہ، عالمی ضمیرکا کڑا امتحان

اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT

غزہ میں انسانی المیے کے خدشات بڑھ گئے ہیں، یونیسیف نے خبردارکیا ہے کہ غزہ ’’ پیاس سے موت‘‘ کے قریب ہے۔ غزہ پر صہیونی جارحیت جاری ہے جس کے نتیجے میں مزید 61 فلسطینی شہید کردیے گئے، اسکول پر حملے میں متعدد بچے نشانہ بنے، بے گھر افراد غزہ سٹی سے پیدل نکلنے پر مجبور ہیں جب کہ دوسری جانب امریکا نے اسرائیل کو6 ارب ڈالر کا اسلحے دینے کی تیاری کرلی ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر 10 ملک فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں گے۔

 غزہ اس وقت انسانی تاریخ کے بدترین سانحات میں سے ایک سے گزر رہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے ظلم و بربریت کی نئی داستان رقم کی ہے۔ اسکول، اسپتال، پناہ گاہیں حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام مقامات بھی حملوں کی زد میں آ چکے ہیں۔ اسکول پر حملے میں ایسے طلبہ نشانہ بنے جو پہلے ہی جنگ زدہ ماحول میں تعلیم کے خواب بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔

اب وہ خواب ہمیشہ کے لیے مٹی ہوگئے۔ صورتحال کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ ہزاروں بے گھر افراد غزہ سٹی سے پیدل نکلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایک طرف جانیں لی جا رہی ہیں، دوسری جانب بیانیہ اور منظرنامہ تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ عالمی میڈیا کا کردار جانبدار نظر آ رہا ہے اور اسرائیلی ریاست کی دہشت گردی کو ’’دفاع‘‘ کے پردے میں چھپایا جا رہا ہے۔

 اس وقت دنیا ایک ایسی نازک صورتحال سے دوچار ہے جس میں اخلاقی اصول، بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور عالمی ضمیر سب کچھ سیاست، طاقت اور مفادات کی بھینٹ چڑھتے نظر آرہے ہیں۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ کی صورتحال، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع اور اس میں امریکا کا کردار عالمی ضمیر کے لیے ایک کڑا امتحان بن چکا ہے۔

یہ حقیقت اب کسی پردے میں نہیں رہی کہ اسرائیل کو عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکا کی کھلی اور مسلسل حمایت حاصل ہے، چاہے وہ فوجی امداد کی صورت میں ہو، مالی مدد کی شکل میں یا اقوام متحدہ میں سفارتی تحفظ کی صورت میں۔ادھر امریکا کی جانب سے اسرائیل کو چھ ارب ڈالر کے اسلحے کی فراہمی کی تیاری ہو رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کانگریس سے منظوری حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے، جس کا واضح مطلب ہے کہ اسرائیلی جنگی مشینری کو مزید طاقت ملنے والی ہے۔

یہ امداد کوئی روایتی مالی مدد نہیں بلکہ غزہ میں انسانی المیے کو بڑھانے کا ایک راستہ ہے، جب عالمی ضمیر گونگا ہو جائے، تو اسلحہ ہی زبان بن جاتا ہے اور خون ہی پیغام۔ اس صورتحال پر تائیوان میں ایک مختلف اور قابل تقلید ردعمل دیکھنے میں آیا جہاں دفاعی ٹیکنالوجی کی نمائش کے موقع پر سیکڑوں مظاہرین نے احتجاج کیا اور درجنوں اسلحہ کمپنیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل کی جنگ سے مالی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

یہ مظاہرہ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے اور سرمایہ دارانہ مفادات کے خلاف عوامی آواز بلند ہونے لگی ہے۔ ایسے میں پرتگال کی جانب سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ایک مثبت پیش رفت ہے۔

اس دوران نیتن یاہو نے کھل کر ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کے استعماری منصوبے کو اپنا ہدف قرار دیا ہے۔ یہ ایک مذہبی صہیونی منصوبہ ہے جو سرزمین فلسطین سے باہر کے خطوں کو بھی اپنے اندر شامل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف سیاسی نہیں بلکہ مذہبی اور توسیع پسندانہ جنگ کا اعلان ہے جو خطے کو لامحدود جنگ کی آگ میں جھونک سکتا ہے۔ نیتن یاہو کی یہ سوچ دراصل اس بات کا اقرار ہے کہ قابض اسرائیل کی سیاسی کہانیاں ناکام ہو چکی ہیں اور اب وہ مذہب کو ہتھیار بنا کر اپنے وجود کو دوام دینا چاہتے ہیں۔

آج اسرائیل بہ ظاہر فوجی طاقت سے غزہ کو روند رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ اس کے وجود کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ اندرون ملک فوج اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، بیرون ملک عالمی سطح پر تنہائی بڑھ رہی ہے اور نظریاتی سطح پر وہ گریٹر اسرائیل کے خونی خواب میں ڈوب رہا ہے۔ یہ محض ایک جنگ نہیں بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ ہے جو قابض اسرائیل کے چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر رہا ہے۔

ایک ایسا کینسر جو طاقت رکھتا ہے مگر اخلاقی جواز سے محروم ہے، تباہی مچاتا ہے مگر سیاسی طور پر شکست کھاتا ہے اور اپنے وجود کو بچانے کے نام پر اپنی فنا کی بنیاد رکھ رہا ہے۔غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو اب دو سال مکمل ہونے والے ہیں۔ اس عرصے میں اب تک کم ازکم 65 ہزار فلسطینیوں کی جانیں گئی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں۔ شہید ہونے والوں میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ دو سال کے عرصے میں ایسا کون سا ظلم ہے جو غزہ پر نہ ڈھایا ہو، یہاں تک کہ مظلوم فلسطینیوں کے لیے دنیا بھر سے بھیجی گئی ریلیف بھی نہیں پہنچنے دی جس کے نتیجے میں غزہ میں ایک اور دردناک سلسلہ شروع ہوا۔ 100سے زیادہ صحافیوں کو ٹارگٹ کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

پوری دنیا اس آخری درجہ کے ظلم و بربریت اور درندگی کے خلاف آواز اٹھاتی رہی مگر اسرائیل نے کسی کی نہیں سنی۔ بدترین فضائی حملوں کے بعد اب اسرائیل نے وہاں اپنی فوج اتار دی ہے۔ غزہ کی بیس لاکھ آبادی کسمپرسی کے آخری دور میں ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’غزہ کے شہری میری بات غور سے سنیں، میں آپ کو موقع دے رہا ہوں فوراً علاقہ خالی کردیں۔‘‘ دنیا کے کسی ملک کے باشندوں کے ساتھ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہوکہ انھیں پہلے بدترین نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ان کو یہ دھمکی ملی کہ وہ علاقہ پوری طرح خالی کردیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگل کا راج قائم کردیا ہے۔ فضا سے پمفلٹ برسا کر غزہ کے ان باشندوں کو جو وہاں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور جوان ہوئے یہ دھمکیاں مل رہی ہیں، مگر غزہ کے باشندے جس مٹی کے بنے ہوئے ہیں، اس میں فرار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ غزہ کے لوگ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ڈٹے رہیں گے اور شکست اسرائیل کا مقدر ہوگی۔

اقوام متحدہ نے ایک بار پھر فلسطین کے دو ریاستی حل کی قرارداد منظور کی ہے، دوسری جانب امریکا جو خود کو انسانی حقوق، جمہوریت اور انصاف کا علمبردار کہتا ہے، وہ اسرائیل کی کھلی جارحیت پر سوال اٹھانے کے بجائے اسے مزید طاقتور بنانے میں مصروف ہے۔ امریکی کانگریس میں بار بار اربوں ڈالر کی فوجی امداد کے بل پاس کیے جاتے ہیں، وہ بھی ایسے وقت میں جب غزہ میں بچے بھوک، پیاس، بمباری اور دواؤں کی کمی کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں۔ امریکا نہ صرف اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتا ہے بلکہ اس کی کارروائیوں کو بین الاقوامی سطح پر تحفظ بھی دیتا ہے۔ اقوام متحدہ میں جب بھی فلسطینیوں کے حق میں کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے، امریکا اسے ویٹو کر دیتا ہے۔

یہ طرز عمل عالمی قانون کی روح کے خلاف ہے اور دنیا میں انصاف کے نظام پر ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔اب سوال یہ نہیں کہ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ ان خلاف ورزیوں کے باوجود کیوں سزا سے بچ نکلتا ہے۔

کیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی صرف اسی وقت جرم سمجھی جاتی ہے جب وہ کسی کمزور ملک سے سرزد ہو؟ کیا بین الاقوامی قانون صرف انھی پر لاگو ہوتا ہے جن کے پاس بڑی طاقتوں کی حمایت نہ ہو؟ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کارروائیاں جن میں اسپتالوں پر حملے، بچوں اور خواتین کی ہلاکتیں، بنیادی انسانی سہولیات کی بندش، اور امدادی کارکنوں کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ بین الاقوامی قانون کے واضح طور پر خلاف ہیں، لیکن امریکا کی خاموشی یا مشروط تحفظ نے ان جرائم کو معمول بنا دیا ہے۔

اگر اسرائیل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور امریکا اس کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ اس پر عالمی سطح پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی کرتا ہے، تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکا خود بھی ان خلاف ورزیوں میں شریک ہے، اگرچہ براہِ راست نہیں تو بالواسطہ طور پر ضرور۔ جب ایک ریاست کسی دوسرے ملک کو ہتھیار فراہم کرتی ہے، مالی امداد دیتی ہے اور اس کے اقدامات پر کوئی جوابدہی نہیں لیتی، تو یہ تعلق محض سفارتی یا دفاعی تعاون تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کی اخلاقی اور قانونی ذمے داریاں بھی بنتی ہیں۔

اس وقت دنیا کو ایک واضح مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ صرف مذمتی بیانات، روایتی اقوام متحدہ کی قراردادیں اور انسانی حقوق کے نام نہاد اداروں کی رپورٹس کافی نہیں۔ اگر عالمی برادری واقعی ایک منصفانہ اور پائیدار عالمی نظام چاہتی ہے تو اسے طاقتور ممالک اور ان کے اتحادیوں کو بھی اسی معیار پر پرکھنا ہوگا جس پر باقی دنیا کو پرکھا جاتا ہے، اگر امریکا واقعی انصاف، امن اور قانون کی حکمرانی کا علمبردار ہے تو اسے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ترک کرنا ہوگی اور اس کی کارروائیوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی قانون اقوام متحدہ کہ اسرائیل اسرائیل کو اسرائیل کی اسرائیل نے کے لیے اور اس غزہ کے رہا ہے ہے اور

پڑھیں:

قطر پر اسرائیلی حملے کے مضمرات

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250920-03-7

 

جاوید احمد خان

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کا نام لیے بغیر دارالحکومت دوحا پر حالیہ اسرائیلی حملے کی متفقہ مذمتی قرارداد منظور کرلی۔ پاکستان کے مطالبے پر بلائے گئے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کا مذمتی بیان برطانیہ اور فرانس نے تیار کیا۔ یہ بیان تمام 15 اراکین بشمول اسرائیل کے اتحادی امریکا کی منظوری سے جاری کیا گیا ہے۔ امریکا عام طور پر اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم قرارداد آتی ہے تو اس کو ویٹو کردیتا ہے لیکن اس بار سلامتی کونسل کی بیان کی حمایت سے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس حملے میں ناراضی ظاہر ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے اسرائیلی حملہ یو این چارٹر اور قطر کی سلامتی کے خلاف قرار دیا، انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے صرف قطر کو نہیں بلکہ عالمی امن کو نقصان پہنچایا ہے۔ سلامتی کونسل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کونسل نے کشیدگی میں کمی کی اہمیت کو اجاگر کیا اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، سلامتی کونسل کے بیان میں دوحا کو اہم ثالث قراردیا گیا جو اسرائیل اور حماس کے درمیان امن مذاکرات کے لیے امریکا اور مصر کے ساتھ کردار ادا کررہا ہے کونسل کے ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ اور انسانی تکالیف کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ہنگامی اجلاس کے لیے نیو یارک پہنچنے والے قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی نے کونسل کی حمایت کا خیر مقدم کیا اور اپنے ملک کے ثالثی کردار کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

اس سے پہلے یہ بیان بھی نظر سے گزر چکا ہے کہ دوحا اب ثالثی کا کردار ادا نہیں کرے گا لیکن اب سوچ تبدیل ہوگئی شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے حملے کو پسند نہیں کیا۔ اسرائیل جو اس وقت بے نتھے کا بیل بنا ہوا ہے وہ جو چاہے کرتا پھرے کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں، اس لیے کہ امریکا اس کی پشت پر ہے لیکن اسرائیل نے قطر میں حماس کی اعلیٰ قیادت کو ایک ہی ہلے میں صاف کردینے کا فیصلہ کیا وہ الٹا اس کے گلے پڑگیا دوسرے لفظوں میں یہ بیک فائر ہوگیا۔ پہلی بات تو یہی کہ اسرائیل کا یہ کہنا کہ ہم نے امریکا کو اعتماد میں لے لیا تھا اور اس کو اطلاع کردی تھی۔ کسی ہائر آفیشل کو اطلاع کردینے کا یہ مطلب کہاں سے ہوگیا کہ امریکی قیادت کو اعتماد میں لے لیا گیا اور پھر اطلاع بھی حملے سے کچھ چند منٹ پہلے کی گئی اگر دو گھنٹے پہلے اطلاع دیتے تو خدشہ تھا کہ کہیں امریکا کی طرف سے قطر کے رہنمائوں کو مطلع کردیا جائے اور قطری حکام بروقت حماس رہنمائوں کو مطلع کرکے میٹنگ کینسل کروادیں یا اجلاس کی جگہ بروقت تبدیل کردی جائے۔ یعنی ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آوے۔ یہ بھی ہوجائے کہ ہم نے بروقت اطلاع کردی تھی اور حماس کی قیادت بچنے بھی نہ پائے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ واللہ خیرالمالکین اللہ بہترین چال چلنے والا ہے اسی کو ہم عام الفاظ میں یہ بھی کہتے ہیںکہ مارنے والے سے بچانے والا بہت بڑا ہے۔ اب ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حماس کی اعلیٰ قیادت اس حملے سے کیسے بچ گئی۔ اسرائیل کے پا س ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے وہ اپنے اہداف کے ٹھکانوں اور اس کی سرگرمیوں سے واقف رہتا ہے۔ دراصل موساد کے ایجنٹ پوری عرب دنیا کے ہر ملک کی جڑوں تک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایران میں پانچ لاکھ یہودی ہیں یہ سب تو موساد کے ایجنٹ تو نہیں ہوں گے لیکن ان کی ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ضرور ہوں گی۔ پھر دوحا اور سعودی عرب میں امریکی اسلحوں کے ذخائر اور امریکی اڈے ہیں ان میں پتا نہیں کتنے موساد کے ایجنٹ ہوں گے۔ ایران میں جن سائنسدانوں اور سینئر سیاسی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے۔ اسرائیل نے تو اپنا بیس کیمپ ایران میں بنایا ہوا تھا اتنی بڑی تعداد میں موساد کے ایجنٹوں کا ہونا خود ایرانی حکومت کے لیے حیران کن تھا۔ بلکہ ایک دلچسپ بات یہ سننے میں آئی کے ایک دفعہ ایران حکومت نے ایک کمیٹی بنائی کہ یہ کمیٹی ملک میں موساد کے ایجنٹوں کو تلاش کرکے ان کی نشاندہی کرے گی تاکہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے بعد میں تحقیق کی تو پتا چلا کہ جس فرد کو اس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا وہ خود موساد کا ایجنٹ ہے۔ ایران اسرائیل جنگ میں شروع میں ایرانی میزائل بے اثر جارہے تھے۔ اس لیے کہ حکومت ایران کو یہ شک ہوگیا کہ جہاں سے میزائل داغے جارہے ہیں وہیں کہیں موساد کے ایجنٹ نہ گھسے بیٹھے ہوں اس لیے جب ایران نے سمندر کے اندر سے میزائل مارے ان سے اسرائیل کی حالت خراب ہوئی اور وہ سیز فائر پر راضی ہوا۔

اسرائیل نے اپنے خفیہ نٹ ورک کے ذریعے ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا، اسی طرح اس نے لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ نصر اللہ کو ان کے انتہائی محفوظ مقام پر شہید کیا، اسی طرح یحییٰ سنوار کو غزہ میں جنگ لڑتے ہوئے شہید کیا۔ اسرائیل کی کوشش یہ رہی ہے کہ حماس کی قیادت کو صاف کیا جائے تاکہ مذاکرات میں تاخیر ہو اسرائیل بظاہر تو دوحا میں ہونے والے مذاکرات میں بادل نہ خواستہ شریک ہوتا رہا ہے لیکن وہ مذاکرات نہیں چاہتا اس لیے وہ قطر میں حماس کی سینئر قیادت کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے اس نے تمام بین الاقوامی حدود و قیود کو پامال کرتے ہوئے اس عمارت پر حملہ کردیا جہاں حماس کی قیادت جنگ بندی کے سلسلے میں امریکی تجاویز پر غور و خوض کے لیے جمع ہوئی تھی۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ حماس کے مرکزی رہنما اس حملے میں بچ کیسے گئے اس حوالے سے دو تھیوریز سامنے آرہی ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اسماعیل ہنیہ، حزب اللہ کے رہنما اور دیگر کی اسرائیلی ٹارگٹ کلنگ کی ٹیکنیک کو حماس کی قیادت سمجھ گئی اس لیے جب سارے رہنما جمع ہوگئے تو وہ عین وقت پر اپنے موبائل چھوڑ کر اس دوسری بلڈنگ میں چلے گئے جس کا راستہ اندر ہی سے تھا بعد میں دوسرے لوگ بھی جاتے لیکن اسی دوران حملہ ہوگیا چھے لوگ شہید ہوگئے، بقیہ حماس کی اعلیٰ قیادت بچ گئی دوسری تھیوری یہ ہے کہ یہ لوگ نماز پڑھنے کے لیے گئے تھے اور اپنے موبائل وہیں چھوڑ گئے تھے کہ موبائل کی سم جگہ کی نشان دہی کے کام آتی ہے۔ بہرحال کوئی بھی اسٹوری ہو حماس کی اعلیٰ قیادت بچ گئی اور مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کا پروگرام ناکام ہوگیا لیکن ایک پہلو سے کامیابی بھی ملی کہ ساری توپوں کا رخ دوسری طرف ہوگیا اب او آئی سی کا اجلاس، عرب سربراہوں کا اجلاس اور دیگر اجلاس کی طرف سرگرمیاں ہوں گی اور اسرائیل کو موقع مل جائے گا کہ وہ غزہ سٹی میں داخل ہوجائے گا اس ساری اسرائیلی کمینگی میں امریکا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔ امریکا کی دوغلی پالیسی کا اندازہ لگائیے کے ٹرمپ ایک طرف تو قطر کے سربراہ کو فون کرکے دوحا کی حمایت اور تعاون کی یقین دہانی کروارہے ہیں اور دوسری طرف ان کے وزیر خارجہ اسرائیل میں نیتن یاہو سے ملاقات کرکے کہہ رہے ہیں کہ امریکا اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اس کا مطلب ہے کل کو اسرئیل کسی اور عرب ملک پر حملہ کرسکتا ہے کہ امریکا اس کے ساتھ کھڑا ہے۔

حماس کے سربراہ خلیل الحیا تو اس حملے بچ گئے لیکن اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ حماس کی قیادت کو جہاں بھی جائے گی قتل کردیں گے ان ہی کے ساتھ خالد مشعل بھی ہیں جو حماس کا اصل دماغ ہیں اسرئیل ان کا بہت پہلے سے جانی دشمن ہے۔

1997 میں یہ اردن میں حماس کی ذمے داری سنبھالے ہوئے تھے اور وہاں سے وہ اسرائیل کے خلاف پراکسی وار کی منصوبہ بندی کرتے تھے ایک دفعہ ایک ہوٹل میں ان کی میٹنگ تھی وہاں اسرائیل کے آٹھ کمانڈوز آئے چھے تو باہر کھڑے رہے دو اندر گئے اور خالد مشعل کے قریب جاکر ان کے کان میں کوئی ایسی دوا ڈالی کہ وہ کومے میں چلے گئے خالد مشعل کے گارڈز نے ان دونوں کمانڈوز کو پکڑلیا باقی چھے جو باہر تھے وہ بھاگ لیے یہ دونوں جیل چلے گئے۔ اب اسرائیل نے ان دونوں کمانڈوز کو چھڑانے کی بہت کوششیں کی اردن میں شاہ حسین کی حکومت تھی انہوں نے سخت ایکشن لیا اور کہا کہ ان دونوں کمانڈوز کو سخت سزا دی جائے گی اسرائیل نے امریکا سے اپروچ کیا اس وقت بل کلنٹن امریکا کے صدر تھے۔ شاہ حسین بھی ڈٹ گئے انہوں نے بل کلنٹن سے کہا اسرائیل اس کی اینٹی ڈوز لائے اور خالد مشعل کو کومے سے باہر نکالے بالآخر اسرائیل کو بات ماننا پڑی اس وقت بھی نیتن یاہو اسرائیلی کابینہ کے رکن تھے۔ اسرائیل کے ڈاکٹرز آئے اور انہوں نے اینٹی ڈوز لگا کر خالد مشعل کو کومے سے باہر نکالا لیکن اس کے بعد بھی اردن نے کمانڈوز کو نہیں چھوڑا اور اسرائیل کی قید میں کئی سو فلسطینیوں کو جیل سے رہائی دلوائی پھر ان کمانڈوز کو چھوڑا گیا جب کوئی حکمران ڈٹ جائے تو بڑے بڑوں کو جھکنا پڑتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
  • صرف اسرائیل نہیں فلسطین پر ہونے والے مظالم میں امریکا اور مودی بھی قصوروارہیں، بھارتی اداکار بھی بول اٹھے
  • تیسری جنگِ عظیم کی طرف
  • اسرائیل کا قطر پر حملہ اور امریکا کی دہری پالیسی
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے مضمرات
  • امن اور انسانیت دشمن امریکا!
  • پاک، سعودی مشترکہ دفاع، ذمے داری بڑھ گئی ہے
  • عالمی سیاست کی نئی جہت
  • امریکا کی اسرائیل نوازی عیاں؛ چھٹی مرتبہ غزہ جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کردی