Express News:
2025-09-22@14:06:35 GMT

ذہن کی پوشیدہ دنیا: ادراک و خیال کی نظروں سے اوجھل مناظر

اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT

انسان کا سب سے قدیم اور شاید سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ اکثر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم سب ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں، سب ایک جیسا دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ کیا ہمارے مشاہدات اور تجربات بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں؟

جدید نفسیات، نیورو سائنس، اور فلسفے کی گہرائیوں میں جھانکیں تو ہمیں ایک الگ ہی تصویر نظر آتی ہے۔ بیرونی دنیا شاید ایک ہو، لیکن ہمارے اندر جو دنیا آباد ہے، جو منظر ہمارے ذہن میں بنتے اور بگڑتے ہیں، وہ ہر شخص کے لیے بالکل مختلف اور انوکھے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ’پوشیدہ سرزمین‘ ہے جہاں ہر کوئی اپنی الگ حقیقت میں زندگی گزار رہا ہے۔


ذہن کی فلٹرنگ: ہر سوچ ایک منفرد نظر

ہمارا ذہن کوئی خالی سلیٹ (Tabula Rasa) نہیں جس پر دنیا اپنی مرضی کے نقش بنا دے۔ یہ ایک فعال اور مسلسل فلٹر کرنے والا نظام ہے۔ ڈینیل کاہنیمن، جو کہ ایک مشہور ماہر نفسیات اور نوبل انعام یافتہ ہیں، نے اپنی کتاب 'Thinking, Fast and Slow' میں بتایا کہ ہمارا ذہن دو حصوں میں کام کرتا ہے: ایک حصہ تیز، جذباتی، اور غیر ارادی، جبکہ دوسرا حصہ سست، منطقی اور سوچے سمجھے فیصلے کرتا ہے۔ یہ دونوں حصے مل کر ہمارے ہر فیصلے اور سوچ کو شکل دیتے ہیں۔

ہمارا ماضی، ہماری یادیں، ثقافت، مذہب، ہمارے خوف اور ہماری امیدیں، یہ سب مل کر ایک خاص 'Perceptual Lens' بناتے ہیں۔ اس پرسیپچوئل لینز کو سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک ایسا ذہنی چشمہ ہے جو ہمیں ہر چیز کو اپنے مخصوص زاویے سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب کسی شہر میں کوئی احتجاجی مارچ ہوتا ہے تو ایک شخص کےلیے یہ ’جمہوریت کا حق‘ ہوسکتا ہے، جبکہ دوسرا اسے ’امن و امان کے لیے خطرہ‘ سمجھتا ہے۔ دونوں کی نظریں ایک ہی واقعہ دیکھ رہی ہیں، لیکن ان کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ اپنی جگہ Biased یا متعصب ہے۔ اسی طرح، ایک شاعر جب جنگل میں جاتا ہے تو اسے فطرت کی خوبصورتی اور اس کے گہرے جذبات نظر آتے ہیں، مگر اسی جنگل میں ایک کاروباری شخص صرف لکڑی کی قیمت اور اس کا ممکنہ منافع دیکھتا ہے۔ آنکھیں ایک ہی چیز دیکھ رہی ہیں، لیکن ان کے دماغوں میں بننے والی تصویریں مکمل طور پر مختلف ہیں۔


فلسفیانہ سوال: کیا ہم سب ایک ہی Tunnel میں قید ہیں؟

فلسفے میں یہ بحث صدیوں پرانی ہے۔ اٹھارہویں صدی کے فلسفی جارج برکلے کا مشہور قول "Esse est percipi" یعنی ’’کسی چیز کا وجود اس کے ادراک پر منحصر ہے‘‘ اس خیال کی بنیاد ہے۔ آج کل یہ سوچ 'Solipsism' کی شکل میں سامنے آتی ہے، جس کے مطابق ایک انسان اپنے ذہن کے علاوہ کسی اور وجود کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ شاید ایک انتہا پسندانہ سوچ ہو، لیکن یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہمارا اپنا وجود ہی ہمارے ہر تجربے کا محور ہے۔

ہم جو کچھ بھی جانتے ہیں، وہ ہمارے حواس خمسہ کے ذریعے ہمارے دماغ تک پہنچتا ہے۔ ہمارا دماغ ان سگنلز کو رنگ، آواز، اور احساس میں بدلتا ہے۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ہماری حقیقت صرف ایک محدود اور ادھورا ورژن ہو؟ کیونکہ ہمارے حواس بھی تو محدود ہیں؛ ہم الٹرا وائلٹ روشنی نہیں دیکھ سکتے اور کتوں جیسی سننے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔


نیورو سائنس کی نئی روشنی,  ہمارا دماغ ایک تخلیق کار ہے

جدید نیورو سائنس کے مشہور نیورو سائنٹسٹ ڈیوڈ ایگلمین نے اپنی کتاب 'The Brain: The Story of You' میں اس بات کی وضاحت کی کہ ہمارا دماغ ایک ’بند اکائی‘ کی طرح ہے۔ یہ صرف برقی سگنلز کو وصول کرتا ہے۔ یہ سگنلز نہ تو روشنی ہوتے ہیں اور نہ ہی آواز، بلکہ ہمارا دماغ انہیں رنگوں، خوشبوؤں اور جذبات میں ڈھالتا ہے۔ اس لحاظ سے، ہماری پوری زندگی دراصل ایک ’شعوری تخلیق‘ ہے۔ ماہرِ اعصاب انیل سیٹھ کا 'Predictive Processing' کا نظریہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے، جس کے مطابق ہمارا ذہن مسلسل یہ پیش گوئی کرتا ہے کہ اسے باہر سے کیا محسوس ہونے والا ہے۔


تنازعات کی اصل وجہ، اپنی حقیقت کا غرور

یہ صرف ایک علمی یا فلسفیانہ بحث نہیں ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی، ہمارے سماجی جھگڑے، اور یہاں تک کہ بین الاقوامی تنازعات بھی اسی غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ ’’میری حقیقت ہی آخری اور حتمی حقیقت ہے‘‘۔ جب ہم یہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں کہ دوسرے انسان کا نقطہ نظر بھی اس کی اپنی ذہنی ساخت، اس کے ذاتی تجربات اور اس کی اپنی اندرونی دنیا کا نتیجہ ہے، تو بات چیت ختم ہوجاتی ہے اور تصادم شروع ہوجاتا ہے۔

تو پھر اس کا کیا حل ہے؟ حل یہ نہیں کہ ہم اپنی داخلی حقیقت کو چھوڑ دیں، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں۔ اس کا حل تو اس حقیقت کو مان لینے میں پنہاں ہے کہ ’’ہر انسان اپنی اپنی دنیا میں رہ رہا ہے‘‘۔

یہی سوچ ہمیں ایک ایسی تواضع (Humility) عطا کرتی ہے، ایک ایسی انکساری دیتی ہے جس سے ہم دوسروں کے خیالات اور نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے ہم ان سے متفق نہ ہوں۔ یہی وہ بنیاد ہے جو صحت مندانہ تعلقات، مثبت گفتگو اور پرامن بقائے باہمی کو یقینی بناتی ہے۔ ہماری بیرونی دنیا کے مناظر شاید سب کے لیے ایک جیسے ہوں، لیکن ان سے کہیں زیادہ پراسرار اور وسیع سفر ہماری ان اندرونی دنیاؤں کا ہے، جنہیں ہمارا ذہن دیکھتا ہے۔ اس سچائی کو مان لینا ہی دراصل حقیقی دانشمندی کی پہلی سیڑھی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوتے ہیں کہ ہمارا کرتا ہے ہیں کہ ایک ہی اور اس

پڑھیں:

پاکستان کا اپنی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو عرب دنیا کے ـ’’بونا‘‘ سسٹم کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ

بڑھتے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہو کر بانڈز جاری کیے جائیں جن میں چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈز بھی شامل ہیں تاہم یورو بانڈ یا سکوک بانڈ جاری کرنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ یہ عالمی مارکیٹ کی طلب اور کم از کم ایک درجہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے بہتری پر منحصر ہے۔ پانڈا بانڈ دسمبر 2025 تک متوقع ہے اور اس کا پہلا لین دین 20 سے 25 کروڑ ڈالر کی حد میں ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان نے اپنی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو عرب دنیا کے ـ’’بونا‘‘ سسٹم کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ سسٹم عرب مانیٹری فنڈ (اے ایم ایف) کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ سرحد پار ادائیگیوں کے نظام کو مربوط کیا جائے گا لیکن یہ صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے رقوم وصول کرے گا۔ رقوم کی بیرون ملک منتقلی (آؤٹ فلوز) کی اجازت نہیں ہوگی۔ روزنامہ جنگ کیلئے مہتاب حیدر نے لکھا ہے کہ ادھر پاکستان 30 ستمبر 2025ء کو میچور ہونیوالے 50 کروڑ ڈالر کے یورو بانڈ کی ادائیگی کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب آئی ایم ایف کا جائزہ مشن اسلام آباد کا دورہ کرے گا تاکہ قرض پروگرام (EFF) کے تحت دوسرا جائزہ مکمل کیا جا سکے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے مختصر گفتگو میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کا کہنا تھا کہ ہم نے 30 ستمبر تک 50 کروڑ ڈالر یورو بانڈ کی ادائیگی کا بندوبست کر لیا ہے اور اس ادائیگی سے زرمبادلہ کے ذخائر پر کوئی دباؤ نہیں پڑے گا۔

مالی سال 2025-26 کے دوران 26 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہونا ہے، جن میں سے 3.5 ارب ڈالر پہلے ہی ادا کیے جا چکے ہیں۔ باقی واجب الادا قرضوں میں سے 9 ارب ڈالر دوست ممالک کی طرف سے دیئے گئے ڈپازٹس ہیں جو وقت آنے پر رول اوور کر دیئے جائیں گے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالر کے EFF معاہدے کے تحت 25 ستمبر سے اکتوبر کے پہلے ہفتے تک جائزہ مذاکرات طے ہیں۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک کے اس بیان سے کہ زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ نہیں پڑے گا، اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ یا تو اسلام آباد کو کسی بیرونی آمدنی کی توقع ہے یا مرکزی بینک مارکیٹ سے ڈالر خریدنے کا سلسلہ جاری رکھے گا تاکہ بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بڑھتے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہو کر بانڈز جاری کیے جائیں جن میں چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈز بھی شامل ہیں تاہم یورو بانڈ یا سکوک بانڈ جاری کرنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ یہ عالمی مارکیٹ کی طلب اور کم از کم ایک درجہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے بہتری پر منحصر ہے۔ پانڈا بانڈ دسمبر 2025 تک متوقع ہے اور اس کا پہلا لین دین 20 سے 25 کروڑ ڈالر کی حد میں ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارا کوئی ایجنڈا نہیں ہم آئین پر عمل درآمد کی بات کرتے ہیں. بیرسٹر گوہر
  • 23 ستمبر کو چُھٹی ؟ حقیقت سامنے آگئی
  • ٹرمپ کے علاوہ دنیا میں ہمارا کوئی مددگار نہیں، صیہونی میڈیا
  • ہمارا پاکستان کے خلاف کوئی ایجنڈا نہیں ہم آئین پر عمل درآمد کی بات کرتے ہیں، بیرسٹر گوہر
  • پاکستان کا اپنی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو عرب دنیا کے ـ’’بونا‘‘ سسٹم کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ
  • بدلتی دنیا میں ہم کہاں ہیں؟
  • ہمارے قول و فعل میں تضاد کیوں ہے؟
  • حضور اکرم ؐکی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ہے، غلام حسین سوہو
  • 60 سال نظروں سے اوجھل رہا زمین کا نیا چاند دریافت