Express News:
2025-11-06@17:53:29 GMT

ذہن کی پوشیدہ دنیا: ادراک و خیال کی نظروں سے اوجھل مناظر

اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT

انسان کا سب سے قدیم اور شاید سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ اکثر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم سب ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں، سب ایک جیسا دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ کیا ہمارے مشاہدات اور تجربات بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں؟

جدید نفسیات، نیورو سائنس، اور فلسفے کی گہرائیوں میں جھانکیں تو ہمیں ایک الگ ہی تصویر نظر آتی ہے۔ بیرونی دنیا شاید ایک ہو، لیکن ہمارے اندر جو دنیا آباد ہے، جو منظر ہمارے ذہن میں بنتے اور بگڑتے ہیں، وہ ہر شخص کے لیے بالکل مختلف اور انوکھے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ’پوشیدہ سرزمین‘ ہے جہاں ہر کوئی اپنی الگ حقیقت میں زندگی گزار رہا ہے۔


ذہن کی فلٹرنگ: ہر سوچ ایک منفرد نظر

ہمارا ذہن کوئی خالی سلیٹ (Tabula Rasa) نہیں جس پر دنیا اپنی مرضی کے نقش بنا دے۔ یہ ایک فعال اور مسلسل فلٹر کرنے والا نظام ہے۔ ڈینیل کاہنیمن، جو کہ ایک مشہور ماہر نفسیات اور نوبل انعام یافتہ ہیں، نے اپنی کتاب 'Thinking, Fast and Slow' میں بتایا کہ ہمارا ذہن دو حصوں میں کام کرتا ہے: ایک حصہ تیز، جذباتی، اور غیر ارادی، جبکہ دوسرا حصہ سست، منطقی اور سوچے سمجھے فیصلے کرتا ہے۔ یہ دونوں حصے مل کر ہمارے ہر فیصلے اور سوچ کو شکل دیتے ہیں۔

ہمارا ماضی، ہماری یادیں، ثقافت، مذہب، ہمارے خوف اور ہماری امیدیں، یہ سب مل کر ایک خاص 'Perceptual Lens' بناتے ہیں۔ اس پرسیپچوئل لینز کو سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک ایسا ذہنی چشمہ ہے جو ہمیں ہر چیز کو اپنے مخصوص زاویے سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب کسی شہر میں کوئی احتجاجی مارچ ہوتا ہے تو ایک شخص کےلیے یہ ’جمہوریت کا حق‘ ہوسکتا ہے، جبکہ دوسرا اسے ’امن و امان کے لیے خطرہ‘ سمجھتا ہے۔ دونوں کی نظریں ایک ہی واقعہ دیکھ رہی ہیں، لیکن ان کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ اپنی جگہ Biased یا متعصب ہے۔ اسی طرح، ایک شاعر جب جنگل میں جاتا ہے تو اسے فطرت کی خوبصورتی اور اس کے گہرے جذبات نظر آتے ہیں، مگر اسی جنگل میں ایک کاروباری شخص صرف لکڑی کی قیمت اور اس کا ممکنہ منافع دیکھتا ہے۔ آنکھیں ایک ہی چیز دیکھ رہی ہیں، لیکن ان کے دماغوں میں بننے والی تصویریں مکمل طور پر مختلف ہیں۔


فلسفیانہ سوال: کیا ہم سب ایک ہی Tunnel میں قید ہیں؟

فلسفے میں یہ بحث صدیوں پرانی ہے۔ اٹھارہویں صدی کے فلسفی جارج برکلے کا مشہور قول "Esse est percipi" یعنی ’’کسی چیز کا وجود اس کے ادراک پر منحصر ہے‘‘ اس خیال کی بنیاد ہے۔ آج کل یہ سوچ 'Solipsism' کی شکل میں سامنے آتی ہے، جس کے مطابق ایک انسان اپنے ذہن کے علاوہ کسی اور وجود کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ شاید ایک انتہا پسندانہ سوچ ہو، لیکن یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہمارا اپنا وجود ہی ہمارے ہر تجربے کا محور ہے۔

ہم جو کچھ بھی جانتے ہیں، وہ ہمارے حواس خمسہ کے ذریعے ہمارے دماغ تک پہنچتا ہے۔ ہمارا دماغ ان سگنلز کو رنگ، آواز، اور احساس میں بدلتا ہے۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ہماری حقیقت صرف ایک محدود اور ادھورا ورژن ہو؟ کیونکہ ہمارے حواس بھی تو محدود ہیں؛ ہم الٹرا وائلٹ روشنی نہیں دیکھ سکتے اور کتوں جیسی سننے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔


نیورو سائنس کی نئی روشنی,  ہمارا دماغ ایک تخلیق کار ہے

جدید نیورو سائنس کے مشہور نیورو سائنٹسٹ ڈیوڈ ایگلمین نے اپنی کتاب 'The Brain: The Story of You' میں اس بات کی وضاحت کی کہ ہمارا دماغ ایک ’بند اکائی‘ کی طرح ہے۔ یہ صرف برقی سگنلز کو وصول کرتا ہے۔ یہ سگنلز نہ تو روشنی ہوتے ہیں اور نہ ہی آواز، بلکہ ہمارا دماغ انہیں رنگوں، خوشبوؤں اور جذبات میں ڈھالتا ہے۔ اس لحاظ سے، ہماری پوری زندگی دراصل ایک ’شعوری تخلیق‘ ہے۔ ماہرِ اعصاب انیل سیٹھ کا 'Predictive Processing' کا نظریہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے، جس کے مطابق ہمارا ذہن مسلسل یہ پیش گوئی کرتا ہے کہ اسے باہر سے کیا محسوس ہونے والا ہے۔


تنازعات کی اصل وجہ، اپنی حقیقت کا غرور

یہ صرف ایک علمی یا فلسفیانہ بحث نہیں ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی، ہمارے سماجی جھگڑے، اور یہاں تک کہ بین الاقوامی تنازعات بھی اسی غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ ’’میری حقیقت ہی آخری اور حتمی حقیقت ہے‘‘۔ جب ہم یہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں کہ دوسرے انسان کا نقطہ نظر بھی اس کی اپنی ذہنی ساخت، اس کے ذاتی تجربات اور اس کی اپنی اندرونی دنیا کا نتیجہ ہے، تو بات چیت ختم ہوجاتی ہے اور تصادم شروع ہوجاتا ہے۔

تو پھر اس کا کیا حل ہے؟ حل یہ نہیں کہ ہم اپنی داخلی حقیقت کو چھوڑ دیں، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں۔ اس کا حل تو اس حقیقت کو مان لینے میں پنہاں ہے کہ ’’ہر انسان اپنی اپنی دنیا میں رہ رہا ہے‘‘۔

یہی سوچ ہمیں ایک ایسی تواضع (Humility) عطا کرتی ہے، ایک ایسی انکساری دیتی ہے جس سے ہم دوسروں کے خیالات اور نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے ہم ان سے متفق نہ ہوں۔ یہی وہ بنیاد ہے جو صحت مندانہ تعلقات، مثبت گفتگو اور پرامن بقائے باہمی کو یقینی بناتی ہے۔ ہماری بیرونی دنیا کے مناظر شاید سب کے لیے ایک جیسے ہوں، لیکن ان سے کہیں زیادہ پراسرار اور وسیع سفر ہماری ان اندرونی دنیاؤں کا ہے، جنہیں ہمارا ذہن دیکھتا ہے۔ اس سچائی کو مان لینا ہی دراصل حقیقی دانشمندی کی پہلی سیڑھی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوتے ہیں کہ ہمارا کرتا ہے ہیں کہ ایک ہی اور اس

پڑھیں:

’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک

 دنیا میں عورت کو قدرت نے جس انداز میں تخلیق کیا ہے، وہ محبت، قربانی، احساس اور استقامت کی ایک علامت ہے، مگر جب یہی عورت زندگی کے کسی موڑ پر اکیلے اپنی اولاد کی پرورش کا بیڑا اٹھاتی ہے، تو وہ صرف ایک ماں نہیں رہتی، بلکہ ایک عزم و حوصلے کی داستان بن جاتی ہے۔

تنہا ماں یا ’سنگل مدر‘ ہونا بہ ظاہر ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ ہے، لیکن اگر غور کیا جائے، تو ان مشکلات کے اندر ہی بہت سی برکتیں اور آسانیاں بھی پوشیدہ ہیں۔ وہ خواتین جو حالات، قسمت یا فیصلوں کے باعث تنہا اپنی زندگی اور بچوں کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں، ان کے لیے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ آزمائش کے ساتھ ساتھ رب کی رحمت بھی ہمیشہ شاملِ حال رہتی ہے۔

سنگل مدر کا سب سے پہلا مسئلہ معاشرتی اور سماجی دباؤ ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت کا تنہا زندگی گزارنا یا بچوں کی پرورش کرنا کسی ’اچنبھے‘ سے کم نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کو کچھ عجیب بھی تصور کیا جاتا ہے۔ لوگ سوال اٹھاتے ہیں، چے مگوئیاں کرتے ہیں اور اکثر ہمدردی کے لبادے میں دل دُکھانے والی باتیں بھی کر جاتے ہیں۔

تنہا ماں یا ’ سنگل مدر‘ کو اکثر ’ادھوری عورت‘ کے طعنے بھی سننے پڑتے ہیں، حالاں کہ وہ ایک مکمل کردار ہیں، جو دو افراد کا بوجھ تنہا اٹھا رہی ہوتی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ معاشی تنگی ہے۔ اکثر تنہا ماں کو گھر چلانے کے لیے ملازمت بھی کرنی پڑتی ہے۔ صبح سے شام تک کام، پھر بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم، اور گھریلو ذمہ داریاں، یہ سب کچھ ایک ساتھ سنبھالنا کسی مرد کے لیے بھی آسان نہیں، تو ایک عورت کے لیے یہ جدوجہد دُگنا ہو جاتی ہے۔

اسی طرح ایک اکیلی ماں کو جذباتی دباؤ کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ جب وہ اکیلے زندگی کے اتار چڑھاؤ کا مقابلہ کرتی ہے، تو اسے اپنی کمزوریوں کو چھپانا، غم کو مسکراہٹ میں بدلنا، اور دکھوں کو قوت میں تبدیل کرنا سیکھنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کے سامنے کبھی کمزور نہیں پڑتی، کیوں کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے آنسو ان کے حوصلے توڑ سکتے ہیں۔

اشفاق احمد صاحب نے ایک بار کہا تھا: ’’کوشش کرو جس چیز کے لیے تم خود ترس رہے ہو، کوئی دوسرا آپ کی وجہ سے نہ ترسے، پھر چاہے وہ رشتے ہوں، خوشیاں ہوں یا سکون۔‘‘ یہ قول ’تنہا ماں‘ کی زندگی پر خوب صورتی سے صادق آتا ہے۔ ایسی مائیں، جو اپنی زندگی میں محبت، توجہ یا سکون سے محروم ہو جاتی ہیں، وہ اپنی اولاد کے لیے یہ سب چیزیں بھرپور دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اس کمی کا احساس نہیں ہونے دیتیں، جس کا سامنا وہ خود کرتی ہیں۔ ان کی یہی قربانی ان کی روحانی طاقت بن جاتی ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے، جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے۔‘‘ یہ حدیث ’تنہا ماں‘ کے لیے ایک عملی راہ نمائی دیتی ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کا اصل امتحان باہر کی دنیا نہیں، بلکہ اپنے گھر میں ہے، اپنے بچوں کے ساتھ صبر، محبت، اور حسنِ سلوک سے پیش آنا۔

اگرچہ ’تنہا مائیں‘ بے شمار مشکلات سے گزرتی ہیں، لیکن ان کے حوصلے اور کردار میں ایسی برکتیں ہیں، جو عام حالات میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اکیلی ماں ہر دن اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ وہ اپنے گھر، مالیات اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے خود مختار ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس خودمختاری کو اپنی طاقت بھی بنا سکتی ہے۔ اس کے اور اس کے بچوں کے درمیان ایک خاص تعلق قائم ہوتا ہے۔ جب بچے دیکھتے ہیں کہ ان کی ماں نے مشکلات میں ہمت نہیں ہاری، تو وہ بھی زندگی میں عزم، صبر اور حوصلے کو اپنا شعار بناتے ہیں۔ مشکلات انسان کو تراشتی ہیں۔ ’تنہا ماں‘ ان مشکلات سے گزر کر ایک مضبوط، پُراعتماد اور دانا شخصیت میں ڈھل جاتی ہے۔

جب انسان اکیلا ہوتا ہے، تو اسے اپنی اصل طاقت کا احساس ہوتا ہے۔ ’تنہا ماں‘ کا اللہ سے تعلق بہت گہرا ہوتا ہے۔ وہ اپنی ہر کام یابی کو اپنے رب کی مدد سمجھتی ہیں اور ہر مشکل میں اس کے سہارے کو محسوس کرتی ہیں۔ ان کے اندر پیدا ہونے والی یہ روحانی قربت انہیں ایک نئی روشنی عطا کرتی ہے۔ وہ سمجھ جاتی ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت انھیں اس وقت تک شکست نہیں دے سکتی، جب تک اللہ ان کے ساتھ ہے۔ ان کی دعائیں، ان کے سجدے اور ان کا صبر ان کے بچوں کے لیے ڈھال بن جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ابھی تک ’سنگل مدرز‘ کے ساتھ انصاف نہیں کرتا۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسی خواتین ہمدردی نہیں، بلکہ احترام کی مستحق ہیں۔ انھیں ترس کی نگاہ سے دیکھنے کے بہ جائے ان کے عزم کو سراہنا چاہیے۔ اسکولوں، دفاتر، اور سرکاری اداروں میں ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جانی چاہیئں، تاکہ وہ بہتر طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔ میڈیا اور نصابِ تعلیم میں بھی ’تنہا ماں‘ کو منفی انداز میں پیش نہیں کرنا چاہیے۔ بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ ماں ہر صورت میں اہم اور بلند مرتبہ ہوتی ہے۔

’تنہا ماں‘ کے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ وہ خود کو کمزور یا تنہا نہ سمجھیں۔ ان کے اندر وہ قوت موجود ہے، جو پہاڑوں کو ہلا سکتی ہے۔ وہ صرف اپنی نہیں، بلکہ اپنی نسلوں کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ زندگی کی ہر آزمائش کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت چھپی ہوتی ہے۔ شاید اللہ انھیں اس لیے مضبوط بنانا چاہتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے روشنی کا چراغ بنیں۔

سنگل مدر کی زندگی بلاشبہ ایک جہدِ مسلسل ہے، مگر اسی جدوجہد میں کام یابی، محبت اور قربانی کی حقیقی روح چُھپی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے ماں بھی ہے، باپ بھی، دوست بھی اور راہ نما بھی۔ ان کا تنہا ہونا یقیناً ایک المیہ اور ایک ناخوش گوار واقعے ہی کا نتیجہ ہوتا ہے، اس لیے اس تلخ حقیق کو تسلیم کرتے ہوئے ایسی خواتین کی قربانیوں کو مانا جانا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے قومی رویے خواہشات، تمناؤں کے خواب اور تعبیر
  • ہمارا کوئی اضافی مطالبہ نہیں، ایم کیو ایم کا 27ویں آئینی ترمیم کی مکمل حمایت کا اعلان
  • 27ویں آئینی ترمیم کے بارے میں 7 بڑے پروپیگنڈے اور ان کے برعکس حقائق
  • افسوس ہوتا ہے جو حکومت قربانی دے کر بنائی، وہی ہمارے مقدمات میں جواب جمع نہیں کر رہی: شیر افضل مروت
  • افغان وزیر خارجہ کی متعدد کالز آئیں، انہیں بتا یا کہ ان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو، اسحاق ڈار
  • ہمارا 70 فیصد بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں جا رہا ہے: مصدق ملک
  • ہمارے ایٹمی ہتھیار پوری دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • میر واعظ عمر فاروق ایک بار پھر دنیا کی 500 بااثر ترین مسلم شخصیات کی فہرست میں شامل
  • ایک حقیقت سو افسانے ( آخری حصہ)
  • ’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک