WE News:
2025-09-22@15:42:40 GMT

کینسر، مالی مشکلات اور زندگی کی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT

کینسر، مالی مشکلات اور زندگی کی جنگ

لاہور کے سینئر صحافی رانا شہزاد، جو زندگی کے کئی امتحانات سے گزر چکے ہیں، اب ایک اور کٹھن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ جب انہیں کینسر کی تشخیص ہوئی، تو بیماری اور معاشی مشکلات کے باعث انہیں اپنی صحافتی ملازمت چھوڑنا پڑی۔ علاج کے لیے درکار رقم پوری کرنے کے لیے انہوں نے اپنے ذاتی کپڑے فروخت کیے اور ان ہی پیسوں سے لنڈے کے کپڑے خرید کر لاہور کی ایک معروف سڑک کے کنارے ایک چھوٹا سا اسٹال لگا لیا۔

گزر بسر کا واحد ذریعہ بھی ختم

ابتدا میں وہ کسی نہ کسی طرح بچوں کے اخراجات پورے کر رہے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی صحت مزید بگڑتی گئی اور بیماری نے انہیں زیادہ کام کرنے کے قابل نہ چھوڑا۔ وہ اکثر درد اور کمزوری کے باعث اسٹال پر نہ جا پاتے، جس کے باعث گاہک آنا کم ہوگئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کپڑے بیچ کر گزر بسر کا یہ واحد ذریعہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگیا۔

خصوصی گفتگو میں رانا شہزاد نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا کہ جب کپڑے فروخت ہوتے تو بچوں کے لیے کھانے کا بندوبست ہو جاتا، لیکن جب کچھ نہ بکتا تو انہیں خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا تھا۔ اب جبکہ ان کا اسٹال بھی ختم ہو چکا ہے، تو حالات مزید سنگین ہو چکے ہیں۔

رانا شہزاد کا کہنا ہے کہ اگر ان کا خاندان مالی طور پر مستحکم ہوتا تو آج وہ اس حال میں نہ ہوتے۔ وہ 25 سال سے زائد عرصے تک لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں مختلف اخبارات اور نیوز چینلز سے وابستہ رہے، مگر ان کا ماننا ہے کہ صحافتی تنظیمیں اور پریس کلب صرف دعوے کرتے ہیں، عملی طور پر صحافیوں کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ایک بار ایک رپورٹنگ کے دوران انہیں قبضہ مافیا کے حملے کا سامنا کرنا پڑا، جس میں انہیں 5 گولیاں لگیں۔ ان زخموں کے نشانات آج بھی ان کے جسم پر موجود ہیں۔

زندگی کی مشکلات یہیں ختم نہ ہوئیں۔ ان کے والد اور بھائی پہلے ہی انتقال کر چکے تھے، اور ان کی واحد امید ان کی اہلیہ تھیں۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا—ایک دن جب وہ اسپتال میں زیرِ علاج رانا شہزاد کے لیے کھانا لے کر آ رہی تھیں، تو ایک تیز رفتار گاڑی نے انہیں کچل دیا اور وہ بھی چل بسیں۔

کینسر اور علاج کا بڑھتا بوجھ

کچھ عرصہ بعد جب زندگی کسی حد تک معمول پر آ رہی تھی، تو رانا شہزاد کو صحت کے دیگر مسائل نے گھیر لیا۔ جب انہوں نے ڈاکٹروں کے مشورے پر ٹیسٹ کرائے، تو معلوم ہوا کہ ان کے نازک اعضا میں بننے والے ٹیومرز میں کینسر پھیل چکا ہے۔

اب تک ان کے 11 آپریشن ہو چکے ہیں، جبکہ مزید 2 سرجریاں تجویز کی گئی ہیں۔ پہلے ہی ان کی ساری جمع پونجی مافیا کے حملے کے بعد علاج پر خرچ ہو چکی تھی، اور اب کینسر کے علاج نے انہیں قرض کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔

بچوں کی فکر، اپنی تکلیف پر حاوی

ایک وقت میں سینئر صحافی کہلانے والے رانا شہزاد اب خود کو اپنے بچوں کے لیے زندہ رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ٹیومرز کی وجہ سے ان کے جسم میں مستقل زخم رہتے ہیں، جن کی روزانہ 2 بار ڈریسنگ کرنی پڑتی ہے۔ شدید گرمی اور کمزوری کے باوجود وہ جتنا ہو سکے کام کرنے کی کوشش کرتے رہے، مگر جب صحت نے مزید اجازت نہ دی، تو وہ لنڈے کے کپڑوں کا اسٹال چلانے سے بھی قاصر ہو گئے۔

ہیلتھ انشورنس اسکیم: صحافیوں کے مفت علاج کا دعویٰ، لیکن کیا یہ کافی ہے؟

سینئر صحافی اور صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری کا کہنا ہے کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو صحافیوں کے لیے ہیلتھ انشورنس کارڈز جاری کیے گئے، جس کے ذریعے ملک بھر میں 10 لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت دستیاب ہے۔ یہ کارڈز سرکاری و نجی اسپتالوں میں قابل قبول ہیں اور بڑے آپریشنز، سرجریز اور دیگر پیچیدہ علاج بھی اس میں شامل ہیں۔

اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ شرائط رکھی گئی ہیں، جیسے کہ صحافی کا کسی ادارے یا پریس کلب سے رجسٹرڈ ہونا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ تمام صحافیوں کو یہ کارڈز موصول نہیں ہوئے، تاہم بڑی تعداد میں تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ لاہور سمیت کئی شہروں میں صحافیوں نے یہ کارڈ حاصل کیے ہیں، لیکن اب بھی ایک بڑی تعداد محروم ہے۔

ارشد انصاری کی رائے میں فی الحال تقریباً 30 فیصد صحافی ہی اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، باقی ابھی محروم ہیں۔ یہ ایک جاری عمل ہے اور اب بھی لاہور اور دیگر شہروں میں کارڈز تقسیم ہو رہے ہیں۔ تاہم، انکے اندازے کے مطابق ابھی بھی 60 سے 70 فیصد صحافی ایسے ہیں جنہیں یہ کارڈ نہیں ملے۔

انکا مزید کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ حکومت نے یہ احسن اقدام اٹھایا ہے، لیکن پاکستان میں صحافیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے مگر صرف 27 ہزار رجسٹرڈ صحافیوں کا اندازہ ہے۔ اس لیے کارڈز کی تقسیم کا عمل سست ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس سلسلے میں وفاقی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں، جو پانچ چھ ماہ پہلے گوجرانوالہ میں ہوا، وزیرِ اعظم کے مشیر عطا تارڑ کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا۔ انہوں نے اس وقت اعلان کیا تھا کہ کارڈز کی ایک بڑی تعداد تقسیم کی جا چکی ہے اور بقیہ پر کام جاری ہے۔

ہماری مسلسل یہی درخواست ہے کہ جن صحافیوں کو یہ کارڈز ابھی تک نہیں ملے، انہیں ترجیحی بنیادوں پر فراہم کیا جائے۔ اگرچہ تمام صحافیوں کو ابھی تک یہ کارڈز نہیں ملے، لیکن امید ہے کہ یہ عمل جلد مکمل ہو جائے گا اور باقی تمام اہل صحافی بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دور حکومت میں بھی صوبائی وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بھی  پریس کلب کی نو منتخب باڈی سے ملاقات پنجاب بھر کے 6 ہزار صحافیوں کے لیے ہیلتھ کارڈز جاری کرنے کا اعلان کیا تھا جو ممکن نہ ہوسکا۔

اگرچہ یہ اسکیم ایک خوش آئند قدم ہے، لیکن ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کینسر جیسے مہنگے امراض کے لیے 15 لاکھ کی حد ناکافی ہے۔ رانا شہزاد بتاتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ سال اسلام آباد جا کر اپنی فائل جمع کروائی، مگر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

ہم نے مزید تحقیق کے لئے پاکستان انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر موجود فارم کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ پنجاب کے شہریوں کے لیے جاری صحت سہولت کارڈ بظاہر ایک ریلیف ہے، مگر کینسر جیسے مہنگے اور طویل علاج کے لیے یہ بھی ناکافی ثابت ہو رہا ہے۔

رانا شہزاد بتاتے ہیں کہ انہیں 11 میں سے صرف ایک آپریشن صحت کارڈ پر کروانے کی اجازت ملی، وہ بھی مکمل طور پر نہیں۔ آپریشن پر 75 ہزار روپے اپنی جیب سے دینے پڑے۔ اب کارڈ پر مزید علاج ممکن نہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ انہوں نے کئی سرکاری اسپتالوں میں چکر لگائے، مگر درست تشخیص ایک نجی اسپتال میں ممکن ہوئی۔ اب میری زندگی بچانے کے لیے ایک یا دو بڑے آپریشنز فوری درکار ہیں، مگر مالی وسائل نہیں۔

گزشتہ چند سالوں میں انکے صحافی دوستوں بشمول صدر ایمرا آصف بٹ نے انکی مدد کی ہے جس پر وہ انکے شکر گزار ہیں مگر اب انہیں مزید مدد کی ضرورت ہے۔

خصوصی گفتگو میں رانا شہزاد نے پُر امید لہجے میں کہا کہ اب بس دعا ہے کہ کوئی مسیحا یا معجزہ میرا علاج ممکن بنا دے، تاکہ میں صحت یاب ہو کر اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی کوشش کر سکوں۔

کامران ساقی، لاہور

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

کامران ساقی

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے انہوں نے پریس کلب یہ کارڈز بچوں کے یہ کارڈ چکے ہیں کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

صحافیوں کے تحفظ کیلئے رائج قوانین و کمیشن پر ورکشاپ کا انعقاد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

میرپورخاص (نمائندہ جسارت) میرپورخاص پریس کلب میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے متعلقہ قوانین اور کمیشن کے بارے میں ورکشاپ،کا انعقادکیا گیا جس میں صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تفصیلات کے مطابق میرپورخاص پریس کلب میں انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے لئے متعلقہ قوانین اور سندھ اور وفاقی حکومت کی جانب سے بنائے گئے کمیشنوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے میرپورخاص پریس کلب میں ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ورکشاپ میں تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آفتاب عالم ایڈوکیٹ نے کہا کہ پاکستان میں 2014 تک صحافیوں کے حوالے سے 110 قوانین بنائے گئے لیکن ان کے ذریعے صحافیوں کو تحفظ نہیں دیا جا سکا انہوں نے کہا کہ اس وقت صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک قانون وفاقی حکومت اور دوسرا سندھ حکومت نے نافذ کیا ہے جبکہ باقی تین صوبوں میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی قانون نہیں بنایا گیا انہوں نے کہا کہ سندھ میں نافذ صحافیوں کے تحفظ کا قانون براعظم ایشیا کا پہلا قانون ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی سطح پر بنائے گئے ایک قانون کے تحت کمیشن بنایا گیا ہے جس کے چیئرمین کا تقرر کیا گیا ہے باقی ممبران کا تقرر نہیں کیا گیا ہے جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے بنائے گئے کمیشن کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا ہے اس کے ممبران کی تقرری بھی کر دی گئی ہے اور اب انہیں آفس بھی دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ کمیشن صحافیوں کے تحفظ کے لئے بہت با اختیار ہے جو صحافیوں کو دھمکیاں دینے والے لوگوں اور سرکاری اداروں کو بھی طلب کر سکتا ہے آفتاب عالم نے کہا کہ اگر کوئی صحافی ہراساں کئے جانے کے بارے میں آن لائن شکایت درج کروانا چاہتا ہے تو کمیشن اس کے لئے ایک ویب سائٹ بنائے جو ابھی تک نہیں بنائی گئی اور ساتھ ہی کمیشن کو اس کے اختیارات سے آگاہ کرنے کے لئے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے اس موقع پر پریس کلب کے صدر نذیر احمد پنہور، سینئر صحافیوں سلیم آزاد، سید محمد خالد، شاہد خاصخیلی اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت کمیشن کا قیام احسن اقدام ہے لیکن نچلی سطح پر صحافیوں کو کمیشن کی کوئی اطلاع نہیں ملی جس کی وجہ سے متاثرہ صحافیوں کو کمیشن تک پہنچنا مشکل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صحافیوں کے تحفظ کیلئے رائج قوانین و کمیشن پر ورکشاپ کا انعقاد
  • بچوں کے کینسر کے علاج میں جرمن ادارہ پنجاب سے تعاون کریگا
  • جدہ سے واپس لاہور آنے کے منتظر عمرہ زائرین مشکلات کا شکار
  • پنجاب اور جرمنی کے درمیان بچوں کے کینسر کے جدید علاج کیلیے تعاون پر اتفاق
  • خیبر پختونخوا میں کینسر کے مریضوں کے لئے خوشخبری
  • خیبرپختونخوا میں کینسر کے مریضوں کے لئے خوشخبری
  • بچوں میں کینسر کے علاج حوالے سے حکومت پنجاب اور جرمنی میں معاونت پر اتفاق
  • خیبرپختونخوا میں کینسر کے مریضوں کے لئے خوشخبری 
  • مریم نواز سے جرمن طبی وفد کی ملاقات، بچوں کے کینسر کے علاج میں معاونت پر اتفاق