کینسر، مالی مشکلات اور زندگی کی جنگ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
لاہور کے سینئر صحافی رانا شہزاد، جو زندگی کے کئی امتحانات سے گزر چکے ہیں، اب ایک اور کٹھن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ جب انہیں کینسر کی تشخیص ہوئی، تو بیماری اور معاشی مشکلات کے باعث انہیں اپنی صحافتی ملازمت چھوڑنا پڑی۔ علاج کے لیے درکار رقم پوری کرنے کے لیے انہوں نے اپنے ذاتی کپڑے فروخت کیے اور ان ہی پیسوں سے لنڈے کے کپڑے خرید کر لاہور کی ایک معروف سڑک کے کنارے ایک چھوٹا سا اسٹال لگا لیا۔
گزر بسر کا واحد ذریعہ بھی ختمابتدا میں وہ کسی نہ کسی طرح بچوں کے اخراجات پورے کر رہے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی صحت مزید بگڑتی گئی اور بیماری نے انہیں زیادہ کام کرنے کے قابل نہ چھوڑا۔ وہ اکثر درد اور کمزوری کے باعث اسٹال پر نہ جا پاتے، جس کے باعث گاہک آنا کم ہوگئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کپڑے بیچ کر گزر بسر کا یہ واحد ذریعہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگیا۔
خصوصی گفتگو میں رانا شہزاد نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا کہ جب کپڑے فروخت ہوتے تو بچوں کے لیے کھانے کا بندوبست ہو جاتا، لیکن جب کچھ نہ بکتا تو انہیں خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا تھا۔ اب جبکہ ان کا اسٹال بھی ختم ہو چکا ہے، تو حالات مزید سنگین ہو چکے ہیں۔
رانا شہزاد کا کہنا ہے کہ اگر ان کا خاندان مالی طور پر مستحکم ہوتا تو آج وہ اس حال میں نہ ہوتے۔ وہ 25 سال سے زائد عرصے تک لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں مختلف اخبارات اور نیوز چینلز سے وابستہ رہے، مگر ان کا ماننا ہے کہ صحافتی تنظیمیں اور پریس کلب صرف دعوے کرتے ہیں، عملی طور پر صحافیوں کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ایک بار ایک رپورٹنگ کے دوران انہیں قبضہ مافیا کے حملے کا سامنا کرنا پڑا، جس میں انہیں 5 گولیاں لگیں۔ ان زخموں کے نشانات آج بھی ان کے جسم پر موجود ہیں۔
زندگی کی مشکلات یہیں ختم نہ ہوئیں۔ ان کے والد اور بھائی پہلے ہی انتقال کر چکے تھے، اور ان کی واحد امید ان کی اہلیہ تھیں۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا—ایک دن جب وہ اسپتال میں زیرِ علاج رانا شہزاد کے لیے کھانا لے کر آ رہی تھیں، تو ایک تیز رفتار گاڑی نے انہیں کچل دیا اور وہ بھی چل بسیں۔
کینسر اور علاج کا بڑھتا بوجھکچھ عرصہ بعد جب زندگی کسی حد تک معمول پر آ رہی تھی، تو رانا شہزاد کو صحت کے دیگر مسائل نے گھیر لیا۔ جب انہوں نے ڈاکٹروں کے مشورے پر ٹیسٹ کرائے، تو معلوم ہوا کہ ان کے نازک اعضا میں بننے والے ٹیومرز میں کینسر پھیل چکا ہے۔
اب تک ان کے 11 آپریشن ہو چکے ہیں، جبکہ مزید 2 سرجریاں تجویز کی گئی ہیں۔ پہلے ہی ان کی ساری جمع پونجی مافیا کے حملے کے بعد علاج پر خرچ ہو چکی تھی، اور اب کینسر کے علاج نے انہیں قرض کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔
بچوں کی فکر، اپنی تکلیف پر حاویایک وقت میں سینئر صحافی کہلانے والے رانا شہزاد اب خود کو اپنے بچوں کے لیے زندہ رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ٹیومرز کی وجہ سے ان کے جسم میں مستقل زخم رہتے ہیں، جن کی روزانہ 2 بار ڈریسنگ کرنی پڑتی ہے۔ شدید گرمی اور کمزوری کے باوجود وہ جتنا ہو سکے کام کرنے کی کوشش کرتے رہے، مگر جب صحت نے مزید اجازت نہ دی، تو وہ لنڈے کے کپڑوں کا اسٹال چلانے سے بھی قاصر ہو گئے۔
ہیلتھ انشورنس اسکیم: صحافیوں کے مفت علاج کا دعویٰ، لیکن کیا یہ کافی ہے؟سینئر صحافی اور صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری کا کہنا ہے کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو صحافیوں کے لیے ہیلتھ انشورنس کارڈز جاری کیے گئے، جس کے ذریعے ملک بھر میں 10 لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت دستیاب ہے۔ یہ کارڈز سرکاری و نجی اسپتالوں میں قابل قبول ہیں اور بڑے آپریشنز، سرجریز اور دیگر پیچیدہ علاج بھی اس میں شامل ہیں۔
اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ شرائط رکھی گئی ہیں، جیسے کہ صحافی کا کسی ادارے یا پریس کلب سے رجسٹرڈ ہونا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ تمام صحافیوں کو یہ کارڈز موصول نہیں ہوئے، تاہم بڑی تعداد میں تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ لاہور سمیت کئی شہروں میں صحافیوں نے یہ کارڈ حاصل کیے ہیں، لیکن اب بھی ایک بڑی تعداد محروم ہے۔
ارشد انصاری کی رائے میں فی الحال تقریباً 30 فیصد صحافی ہی اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، باقی ابھی محروم ہیں۔ یہ ایک جاری عمل ہے اور اب بھی لاہور اور دیگر شہروں میں کارڈز تقسیم ہو رہے ہیں۔ تاہم، انکے اندازے کے مطابق ابھی بھی 60 سے 70 فیصد صحافی ایسے ہیں جنہیں یہ کارڈ نہیں ملے۔
انکا مزید کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ حکومت نے یہ احسن اقدام اٹھایا ہے، لیکن پاکستان میں صحافیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے مگر صرف 27 ہزار رجسٹرڈ صحافیوں کا اندازہ ہے۔ اس لیے کارڈز کی تقسیم کا عمل سست ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس سلسلے میں وفاقی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں، جو پانچ چھ ماہ پہلے گوجرانوالہ میں ہوا، وزیرِ اعظم کے مشیر عطا تارڑ کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا۔ انہوں نے اس وقت اعلان کیا تھا کہ کارڈز کی ایک بڑی تعداد تقسیم کی جا چکی ہے اور بقیہ پر کام جاری ہے۔
ہماری مسلسل یہی درخواست ہے کہ جن صحافیوں کو یہ کارڈز ابھی تک نہیں ملے، انہیں ترجیحی بنیادوں پر فراہم کیا جائے۔ اگرچہ تمام صحافیوں کو ابھی تک یہ کارڈز نہیں ملے، لیکن امید ہے کہ یہ عمل جلد مکمل ہو جائے گا اور باقی تمام اہل صحافی بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دور حکومت میں بھی صوبائی وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بھی پریس کلب کی نو منتخب باڈی سے ملاقات پنجاب بھر کے 6 ہزار صحافیوں کے لیے ہیلتھ کارڈز جاری کرنے کا اعلان کیا تھا جو ممکن نہ ہوسکا۔
اگرچہ یہ اسکیم ایک خوش آئند قدم ہے، لیکن ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کینسر جیسے مہنگے امراض کے لیے 15 لاکھ کی حد ناکافی ہے۔ رانا شہزاد بتاتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ سال اسلام آباد جا کر اپنی فائل جمع کروائی، مگر تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ہم نے مزید تحقیق کے لئے پاکستان انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر موجود فارم کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ پنجاب کے شہریوں کے لیے جاری صحت سہولت کارڈ بظاہر ایک ریلیف ہے، مگر کینسر جیسے مہنگے اور طویل علاج کے لیے یہ بھی ناکافی ثابت ہو رہا ہے۔
رانا شہزاد بتاتے ہیں کہ انہیں 11 میں سے صرف ایک آپریشن صحت کارڈ پر کروانے کی اجازت ملی، وہ بھی مکمل طور پر نہیں۔ آپریشن پر 75 ہزار روپے اپنی جیب سے دینے پڑے۔ اب کارڈ پر مزید علاج ممکن نہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ انہوں نے کئی سرکاری اسپتالوں میں چکر لگائے، مگر درست تشخیص ایک نجی اسپتال میں ممکن ہوئی۔ اب میری زندگی بچانے کے لیے ایک یا دو بڑے آپریشنز فوری درکار ہیں، مگر مالی وسائل نہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں انکے صحافی دوستوں بشمول صدر ایمرا آصف بٹ نے انکی مدد کی ہے جس پر وہ انکے شکر گزار ہیں مگر اب انہیں مزید مدد کی ضرورت ہے۔
خصوصی گفتگو میں رانا شہزاد نے پُر امید لہجے میں کہا کہ اب بس دعا ہے کہ کوئی مسیحا یا معجزہ میرا علاج ممکن بنا دے، تاکہ میں صحت یاب ہو کر اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی کوشش کر سکوں۔
کامران ساقی، لاہور
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ صحافیوں کے انہوں نے پریس کلب یہ کارڈز بچوں کے یہ کارڈ چکے ہیں کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
27ویں آئینی ترمیم: صوبوں کے اختیارات میں کتنا اضافہ اور کتنی کمی ہو سکتی ہے؟
وفاقی حکومت کی جانب سے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم نے ملک میں وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے ایک نئی سیاسی اور آئینی بحث کو جنم دے دیا ہے۔
ترمیم کے مسودے کے مطابق تعلیم، آبادیاتی منصوبہ بندی اور مالی وسائل کی تقسیم جیسے اہم شعبے، جو 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کے دائرہ اختیار میں آ گئے تھے۔ دوبارہ وفاق کے کنٹرول میں لانے کی تجویز دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
اس حوالے سے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم اگر منظور ہو گئی تو صوبائی خودمختاری میں واضح کمی واقع ہو سکتی ہے، جبکہ وفاق کے اختیارات میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ دوسری جانب حکومت کا مؤقف ہے کہ ترمیم کا مقصد قومی سطح پر پالیسی سازی میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور ریاستی نظام کو مؤثر بنانا ہے، تاکہ اہم معاملات پر یکساں فیصلے ممکن ہو سکیں۔
صوبوں کی مالی خودمختاری وفاق کے ماتحت آ جائےگی، نصرت جاویداس حوالے سے کالم نگار اور سینیئر سیاسی تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہاکہ 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری صوبوں کے اختیارات میں نمایاں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موجودہ نظام میں قومی خزانے کا قریباً 60 فیصد حصہ صوبوں کو منتقل ہوتا ہے، لیکن اگر وفاق کے اختیارات میں اضافہ ہوا تو صوبوں کی مالی خودمختاری وفاق کے ماتحت آ جائے گی
نصرت جاوید کے مطابق اس صورت میں مرکز مزید مضبوط ہو جائے گا اور صوبائی حکومتیں اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لیے وفاق پر منحصر ہو جائیں گی، کیونکہ مالی وسائل کا کنٹرول وفاق کے ہاتھ میں ہوگا۔
ان کے خیال میں یہ ترمیم اگر منظور ہو جاتی ہے تو ملک کے سیاسی اور مالی ڈھانچے میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں اور سرمائے کا بڑا حصہ وفاق کی جانب منتقل ہو جائےگا۔
صوبوں کو دیے گئے مالی وسائل کا ازسر نو جائزہ لیا جائےگا، انصار عباسیسینیئر تجریہ کار انصار عباسی کا کہنا تھا کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ابھی تفصیلات واضح نہیں ہو سکیں، تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق ترمیم میں صوبوں کے اختیارات، مجسٹریسی نظام کی بحالی اور وسائل کی تقسیم کے حوالے سے اہم تبدیلیاں متوقع ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ترمیم کے تحت ضلعی سطح پر مجسٹریسی نظام کی بحالی پر غور کیا جا رہا ہے، جس سے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو دوبارہ عدالتی نوعیت کے اختیارات حاصل ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں ان عہدوں پر فائز افسران کو موقع پر سزائیں دینے اور کئی سالوں کی قید تک کے احکامات جاری کرنے کے اختیارات حاصل تھے۔
’اس نظام کی بحالی سے صوبائی حکومتوں کا کنٹرول ضلعی سطح پر مزید مضبوط ہونے کا امکان ہے کیونکہ مجسٹریٹس براہِ راست صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہوتے ہیں۔‘
انصار عباسی کے مطابق اگر صوبوں کو مزید اختیارات دیے جاتے ہیں تو ان کی گورننس کپیسٹی میں اضافہ ناگزیر ہوگا۔ ’جب تک صوبے اپنی مالی اور انتظامی صلاحیت نہیں بڑھاتے، وفاق سے منتقل ہونے والے وسائل مؤثر انداز میں استعمال نہیں ہو سکیں گے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ترمیم کے تناظر میں یہ بھی تجویز زیرِ غور ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو دیے گئے مالی وسائل اور وفاق کے درمیان وسائل کی تقسیم کے فارمولے کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے۔
’وفاقی حکومت کے بہت سے پروگرامز سے صوبوں کے شہری مستفید ہوتے ہیں‘ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے ذمے اب بھی متعدد ایسے پروگرامز ہیں جن سے براہِ راست صوبوں کے شہری مستفید ہوتے ہیں، جیسے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام وغیرہ، اگر صوبے اپنے حصے میں کمی قبول نہیں کرتے تو انہیں ان سماجی فلاحی پروگرامز میں مالی شرکت کرنی چاہیے۔
’اسی طرح زرعی سبسڈیز اور دیگر عوامی فلاحی اسکیمیں بھی جن سے صوبوں کے شہری براہِ راست فائدہ اٹھاتے ہیں، مستقبل میں صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں منتقل کیے جانے کا امکان ہے۔‘
انہوں نے مزید کہاکہ ابتدائی تخمینوں کے مطابق اگر وفاق ان پروگرامز سے بتدریج دستبردار ہو جائے تو ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کی بچت ممکن ہے۔
انصار عباسی کے مطابق کچھ شعبے ایسے ہیں جنہیں مرکزی سطح پر برقرار رکھا جانا چاہیے ان میں تعلیم کا شعبہ نمایاں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر تعلیم وفاق کے ماتحت ہو تو ایک قومی نصاب، یکساں نظریہ اور ہم آہنگ قومی شناخت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
’اٹھارویں آئینی ترمیم کوئی آسمانی صحیفہ نہیں، اس میں وقت اور حالات کے مطابق تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں، بشرطِیکہ وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہوں۔‘
18ویں ترمیم جب منظور ہوئی تو اس وقت بھی کئی اعتراضات کیے گئے تھے، احمد ولیدسیاسی تجزیہ کار احمد ولید نے کہاکہ وفاقی حکومت ایک بار پھر قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے تحت فنڈز کی تقسیم کے طریقہ کار پر نظرثانی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ان کے مطابق وفاق کو طویل عرصے سے شکایت ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد زیادہ تر مالی وسائل صوبوں کو منتقل ہو گئے، جس کی وجہ سے وفاق کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے رقم کی شدید کمی رہ جاتی ہے۔
احمد ولید نے مزید بتایا کہ جب 18ویں ترمیم منظور کی گئی تھی تو اس وقت بھی وفاق میں اس پر کئی اعتراضات اٹھائے تھے۔ ان کے مطابق عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران کئی تقاریر میں واضح طور پر کہا تھا کہ سارا پیسہ صوبوں کو دے دیا گیا ہے، اور وفاق کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔
’وسائل کی کمی کی وجہ سے وفاق کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘انہوں نے کہاکہ وفاق کو پاک افواج، پینشن یافتہ سرکاری ملازمین اور مختلف قومی ذمہ داریوں کا مالی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، جو کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اب جو منصوبہ بندی سامنے آ رہی ہے، اس کے مطابق این ایف سی کے تحت صوبوں کو ملنے والے فنڈز کا ایک بڑا حصہ واپس وفاق کے کنٹرول میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔
’حکومت خود اس حقیقت کو تسلیم کررہی ہے کہ وفاق کے پاس پیسے نہیں بچتے، اور جب کسی بھی قومی ضرورت کے لیے فنڈز درکار ہوتے ہیں تو وفاق کے پاس وہ رقم موجود نہیں ہوتی۔‘
احمد ولید کے مطابق اس فیصلے کا سب سے بڑا اثر صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں پر پڑے گا، اگر صوبوں کی فنڈنگ میں کمی ہوئی تو وہ اپنے جاری منصوبے بروقت مکمل نہیں کر سکیں گے۔
مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی جائےگی، کسی کے لیے گھبرانے کی بات نہیں، رانا ثنااللہ
’جب وسائل کم ہوں گے تو صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے سست روی کا شکار ہو جائیں گے، جس کا براہِ راست نقصان عوام کو پہنچے گا، کیونکہ کچھ منصوبے ایسے بھی ہوتے ہیں جو وفاق سے آنے والی فنڈنگ پر ہی چل رہے ہوتے ہیں، تو اب اگر فنڈنگ نہیں آئے گی تو وہ تمام منصوبے متاثر ہوں، ان سارے معاملات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آئینی ماہرین اٹھارویں ترمیم حکومت پاکستان ستائیسویں آئینی ترمیم صوبوں کے اختیارات وفاق فنڈز وی نیوز