گوجرانوالا میں جیل میں جو بیت رہی ہے ایک انتہائی دلخراش داستان ہے
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
گوجرانوالہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 ستمبر2025ء) پی ٹی آئی کارکن کی میت ہتھکڑیاں لگا کر اہل خانہ کے حوالے کیے جانے کا انکشاف، سلمان اکرم راجہ کے مطابق گوجرانوالا میں جیل میں جو بیت رہی ہے ایک انتہائی دلخراش داستان ہے، جیل میں بہت سوں کی طبیعت خراب ہو چکی۔ تفصیلات کے مطابق گوجرانوالہ جیل میں دوران قید انتقال کر جانے والے تحریک انصاف کے نوجوان کارکن کے حوالے سے افسوسناک انکشاف سامنے آیا ہے۔
اس حوالے سے تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے پیر کے روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ 9 مئی واقعات کے الزام میں دوران قید جاں بحق ہو جانے والے پی ٹی آئی کارکن کی میت بھی ہتھکڑی لگا کر اہل خانہ کے حوالے کی گئی، مرحوم قاسم کھوکھر کی 3 دن پہلے جیل میں وفات ہوئی، ورثاء نے بتایا کہ لاش ہتھکڑیوں میں حوالے کی گئی۔(جاری ہے)
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مارچ 2024 میں گوجرانولہ سے 51 لوگوں کو سزا ہوئی، اکثریت کسی ایف آئی آر میں نامزد نہ تھی، آج دن تک اُنکے خلاف کوئی چالان پیش نہیں ہوا۔
آج اُنکی فیملیز فریاد لیکر گوجرانولہ سے لاہور آئی ہیں۔ گوجرانولہ جیل میں اُن کے ساتھ جو بیت رہی ہے، وہ دلخراش داستان اور ہمارے عدالتی و قانونی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ مرحوم قاسم کھوکھر کی لاش ہتھکڑیوں میں ورثا کے حوالے کی گئی۔ یہ سب انصاف کے نظام سے فریاد کررہے ہیں کہ آج تک سزاؤں کیخلاف اپیلیں کیوں نہیں سنی گئیں؟ میرا پوری قوم سے سوال ہے کہ آخر یہ ملک کس جانب بڑھ رہا ہے؟۔ واضح رہے کہ ہفتے کے روز گوجرانوالہ کی سینٹرل جیل میں قیدی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا تھا۔ بعد ازاں انکشاف ہوا کہ جیل میں دوران قید جو قیدی انتقال کر گیا، وہ تحریک انصاف کا نوجوان کارکن تھا جسے 9 مئی واقعات کے الزام میں جیل کی سزا سنائی گئی۔ جیل حکام کے مطابق قیدی قاسم کھوکھر 9 مئی کے مقدمے میں سینٹرل جیل میں قید تھا۔ جیل حکام کا بتانا ہے کہ اے ٹی سی نے قاسم کو 5 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی اجازت کا تحریری فیصلہ بھی جاری کر دیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری انٹرا کورٹ اپیلوں کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آئینی بینچ نے 7 مئی کو انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی تھیں۔ سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل کا پانچ ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے 68 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جس میں جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا جس سے جسٹس امین، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال نے اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ جسٹس جمال مندوخیل جسٹس نعیم افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل میں ملٹری ٹرائل کی اجازت دیدی تھی۔ تحریری فیصلے میں عدالت نے ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کا حکم دیا جبکہ حکومت سے 45 دن میں اپیل کے حق سے متعلق قانون سازی کا حکم بھی دیا۔ تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ مناسب آئینی ردعمل کا مقصد آرمی ایکٹ کی دفعات کو یکسر کالعدم کرنا نہیں، آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود ہے مگر عام شہریوں کیلئے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے، فوجی عدالتوں سے سزایافتہ شہریوں کیلئے ہائیکورٹس میں آزادانہ اپیل کیلئے قانون سازی کو پورا کیا جانا چاہیے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی بار حق اپیل پر حکومتی ہدایات کیلئے وقت لیا، پانچ مئی کو آخری سماعت پر بھی اٹارنی جنرل نے ایسا ہی کہا، اٹارنی جنرل نے کہا عدالت ہدایت دے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو سکتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی حکم کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ آزاد حق اپیل کی عدم موجودگی میں آرمی ایکٹ میں موجود ضابطہ کار عام شہریوں کیلئے آئینی طور پر مکمل نہیں، حق اپیل کی کمی کو پورا کرنے کیلئے قانون سازی کی مداخلت کی ضرورت ہے، آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائلز آئینی طور پر بنیادی حقوق کے نظام سے باہر رکھے گئے ہیں، ملٹری ٹرائل میں بھی آرٹیکل 10 اے میں وضع معیار کی پاس داری ہونی چاہیے، فوجی عدالتوں میں ٹرائل اختیارات کی تقسیم کے اصول سے متصادم نہیں، آرٹیکل 175(3) فوجی عدالتوں کے وجودکی نفی نہیں کرتا، پانچ رکنی بنچ نے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی کی تھی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل فیصلے میں آرمی ایکٹ کے حوالے حوالے کی جیل میں
پڑھیں:
کیا ہائی کورٹ کادائرہ اختیارواپس لیا جاسکتا ہے ؟جسٹس جمال مندوخیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251106-08-15
اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کے سینئر رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سوال پوچھنا پڑتا ہے چاہے احمقانہ ہویانہ ہو۔ کیا ہائی کورٹ کادائرہ اختیارواپس لیا جاسکتا ہے۔ جبکہ جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت قانون، ذیلی قانون سازی اور رولز کے نفاذ کے حوالہ سے ہائی کورٹ کوخصوصی دائرہ اختیارحاصل ہے۔ سروسز ٹربیونل کاکام بیٹھ کرقانون کے قانونی یاغیرقانونی ہونے کودیکھنا نہیں، آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ کووسیع دائرہ اختیارحاصل ہے، آئینی عدالت کااختیار قانون کودیکھنا ہے ، ٹربیونل کایہ اختیارنہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس عقیل احمد عباسی، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس عامرفاروق پر مشتمل 5رکنی آئینی بینچ نے بدھ کے روز سروس اورپی ایس ایس اور ایکس پی سی ایس افسران کی کیڈر کی تبدیلی کے معاملہ سندھ حکومت کی جانب سے 2018میں نافذ کئے جانے والے قانون کوسند ھ ہائی کورٹ کی جانب سے کالعدم قراردینے کے خلاف سندھ حکومت، رضا محمد شر، غلام مرتضیٰ، شفیق احمد، بابر صالح، عبدالرائوف، غلام علی المعروف طارق احمد اوردیگر کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف دائر 11متفرق درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے سلمان اکرم راجہ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ، افنان کریم کنڈی، سرمد ہانی بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ مدعاعلیہان کی جانب سے سعد ممتاز ہاشمی، سینیٹر حامد خان ایڈووکیٹ، ذووالفقار خالد ملوکا، اجمل غفار طور اوردیگر بطور وکیل پیش ہوئے۔ سندھ حکومت کے وکیل سرمد ہانی کاکہنا تھا کہ دائرہ اختیارکامعاملہ تھا، آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ معاملہ دیکھ سکتی ہے کہ نہیں، قانون کے مطابق سروسز ٹربیونل معاملہ دیکھ سکتا تھا،مقدمہ کی سماعت کے پہلے اوردوسرے رائونڈ میں ہائی کورٹ نے معاملہ کو غلط انداز میں سمجھا ۔