پاکستان کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک کا خیرمقدم
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے مغربی ممالک کے فیصلوں کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال اور دیگر ممالک کے اس تاریخی اقدام کا خیرمقدم کرتا ہے۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ یہ تسلیمات خطے میں منصفانہ، جامع اور دیرپا امن کے حصول کی جانب ایک اہم قدم ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ اقدام فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی بین الاقوامی سطح پر توثیق ہے۔
اسحاق ڈار نے فخر کے ساتھ یاد دلایا کہ پاکستان کو 1988 میں فلسطین کی آزادی کے اعلان کے بعد اسے تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی حمایت کی ہے اور آج بھی اس موقف پر قائم ہے۔
وزیر خارجہ نے ان تمام ممالک سے جنہوں نے ابھی تک فلسطین کی ریاستی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا، اپیل کی کہ وہ بین الاقوامی قانون کے ساتھ اپنی وابستگی کے مطابق اسی طرح کے اقدامات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کی مشترکہ کوششیں ہی خطے میں پائیدار امن کو یقینی بنا سکتی ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں فلسطین کی ریاستی حیثیت کے حوالے سے ایک نئی تحریک شروع ہوئی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کا یہ موقف نہ صرف اس کے مستقل خارجہ پالیسی اصولوں کے عکاس ہے، بلکہ یہ خطے میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کے عزم کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: بین الاقوامی
پڑھیں:
جموں و کشمیر میں ریاست کا درجہ بحال کرنے کیلئے حالات کو معمول پر لانا ہوگا، عارف محمد خان
بہار کے گورنر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ملک میں وزیراعظم سمیت ہر کوئی ریاستی حیثیت کی بحالی کی خواہش رکھتا ہے، تاہم ہمیں ایسا ہونے کیلئے معمول کی صورتحال پیدا کرنی چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ ریاست بہار کے گورنر عارف محمد خان نے کہا کہ جموں و کشمیر میں ریاست کا درجہ بحال کرنا ملک اور وزیراعظم نریندر مودی کی "متفقہ" خواہش ہے، لیکن اس بات پر زور دیا کہ حالات کو معمول پر لانا ضروری ہے، وہ ڈل جھیل کے کنارے ایس کے آئی سی سی (SKICC) میں "جموں و کشمیر میں امن، عوام اور امکانات" کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کے لئے سرینگر میں ہیں۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ملک میں وزیراعظم سمیت ہر کوئی ریاستی حیثیت کی بحالی کی خواہش رکھتا ہے، تاہم ہمیں ایسا ہونے کے لئے معمول کی صورتحال پیدا کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ قانون کی عام حکمرانی اسی طرح لاگو ہو جس طرح کہیں اور ہو۔ عارف محمد خان نے کہا کہ کورونا وائرس کی ابتدا ایک مخصوص جگہ سے ہوئی لیکن اس نے پوری دنیا کو تباہ کر دیا۔ اسی طرح فسادیوں سے لاحق خطرہ صرف کشمیر کے لئے تشویش کا باعث نہیں ہے، یہ سب کے لئے تشویش کا سبب ہے۔
جموں و کشمیر کو ملک کا تاج قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کشمیر کو ایسی تکلیف دہ صورتحال سے گزرنا پڑا۔ گورنر نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے تقسیم کی قیمت چکائی، لیکن کشمیر نے سب سے زیادہ قیمت ادا کی۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں مجھے بتایا گیا کہ معصوم لوگ اکثر مصیبت کا شکار ہوتے ہیں، یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب فتنہ (بدامنی) پھیلتا ہے تو بے گناہوں کو بھی لامحالہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ انہون نے کہا کہ اس سے میرا دل ٹوٹتا ہے، لیکن صرف فسادیوں کو نشانہ بنانے کا کوئی نظام نہیں ہے۔ بہار انتخابات کے بارے میں عارف خان نے کہا کہ 6 نومبر کو پہلے مرحلے کے لئے تیاریاں مکمل ہیں۔ انہوں نے انتخابات کو جمہوریت کا جشن قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت بہت مضبوط ہو چکی ہے۔ صدر دروپدی مرمو اور وزیر اعظم مودی کی مثالیں دیتے ہوئے خان نے کہا کہ خاندانی پس منظر اب کسی شخص کو حکمرانی کا حق نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ آج حکومت بنانے والوں کو بیلٹ کے ذریعے عارضی مینڈیٹ دیا جاتا ہے، وہ خودمختار نہیں ہیں، بلکہ عوام ہیں، یہ نظام ہمارے نوجوانوں کو امید کا ایک طاقتور پیغام دیتا ہے۔ اڈیشہ کی ایک خاتون، جسے زمین کے معاملے پر ایس ڈی ایم کے دفتر جانا پڑا، اب ہندوستان کی صدر ہیں۔ احمد آباد کے ایک سادہ گھر میں پیدا ہونے والا شخص یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کے وزیراعظم کی حد ہے۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ جموں و کشمیر میں امن پچھلے پانچ سالوں میں دی گئی قربانیوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اس تبدیلی کا سہرا وزیراعظم مودی کو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بندوق کی آواز کی جگہ بچوں کی ہنسی اور تعلیم نے لے لی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ معاشرہ قانون کی حکمرانی پر عمل نہ کرے اور امن ترقی اور پیشرفت کی شرط ہے۔