مغربی افریقی ملک گنی میں برسوں بعد ریفرنڈم منعقد ہوا ہے، جس میں عوام نئے آئین پر ووٹ دے رہے ہیں۔ اس ریفرنڈم کو ملک کو فوجی حکومت سے سول حکومت کی طرف منتقل کرنے کا ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

نئے آئین کے مطابق صدارتی مدت 5 سے بڑھا کر 7 سال کر دی جائے گی اور صدر کو ایک تہائی سینیٹرز نامزد کرنے کا اختیار ہوگا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ریفرنڈم فوجی سربراہ مامادی ڈمبویا کو آئندہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا راستہ فراہم کر سکتا ہے۔

ملک بھر میں تقریباً 67 لاکھ ووٹرز ووٹ ڈال رہے ہیں جبکہ 40 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کیے گئے ہیں۔ دارالحکومت کوناکری میں پولنگ کے دوران سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کے دو بڑے رہنما، سیلو ڈیلین ڈائیلو اور معزول صدر الفا کونڈے، ریفرنڈم کا بائیکاٹ کر چکے ہیں اور ان کی جماعتوں کی رجسٹریشن بھی فی الحال معطل ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت پر سیاسی مخالفین کو دبانے کا الزام لگایا ہے، تاہم حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

ریفرنڈم کے نتائج 2 سے 3 دن میں سامنے آنے کی توقع ہے، اور اگر آئین منظور ہو گیا تو دسمبر میں طے شدہ صدارتی انتخاب کے لیے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

آئین کو اکثر موم کی ناک بنادیا جاتا ہے،فضل الرحمن

کراچی : جمعیت علماءاسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ میں سیاسی جماعتوں سے کہتا ہوں ہمیں سوچنا چاہیے کہ طویل جدوجہد کے نتیجے میں آمریت مضبوط ہوئی ہے یا جمہوریت؟۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آئین کو اکثر موم کی ناک بنا کر اس کی شکل تبدیل کی جاتی ہے، مارشل لا آئے تو پورے آئین کو لپیٹ کر اس کی وقعت کو ختم کردیا جاتا ہے، تشویش ہے پاکستان معاشی طورپر مزید کمزور ہورہا ہے، افغانستان کی معیشت بھی پاکستان سے بہتر ہے، ملک میں اگر امن نہیں ہوگا تو معیشت نہیں سنبھلے گی، اس کے لیے ہم سب کو مل کر چلنا ہوگا، ملک کو درپیش سیاسی اور معاشی بحرانوں کا حل قومی سطح پر باہمی اعتماد اور اداروں کی جانب سے عوامی فیصلوں کے احترام میں ہے، اگر صلح کی تجویز آئے تو خدا کا حکم ہے کہ صلح کرو۔

مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ پورا خطہ ترقی کی جانب گامزن ہے لیکن پاکستان مسلسل معاشی زوال کی طرف بڑھ رہا ہے، جو انتہائی تشویش ناک ہے، چاروں صوبوں میں میثاق پاکستان کا ایک ہی آئین ہے لیکن یہاں جب چاہا جاتا ہے اس آئین کی شکل تبدیل کر دی جاتی ہے، ہم ضیاءالحق کے مارشل لا کے دور سے جمہوریت کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں اور آج بھی وہی جدوجہد جاری ہے، اگر سیاست دان استقامت کا مظاہرہ کریں اور ادارے عوامی فیصلوں کو قبول کریں تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام اور ادارہ جاتی مداخلت نے نظام کو کمزور کر دیا ہے جسے درست کرنے کی اشد ضرورت ہے، اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن ملکی سلامتی کے معاملے پر تمام قوتوں کو ایک صفحے پر آنا ہوگا، اگر ملک میں امن قائم نہیں ہوتا تو معاشی بہتری ممکن نہیں اس لیے تمام ریاستی و سیاسی اداروں کو قومی مفاد میں متحد ہونا ہوگا، ایک اسلامی بلاک ہونا چاہیے، او آئی سی علامتی بلاک ہے، پاکستان اور سعودی عرب میں مسلم امہ کی قیادت کی صلاحیت موجود ہے، پاک سعودی عرب معاہدے کو خوش آمدید کہنا چاہیے، مسلم دنیا میں جہاں خرابیاں ہیں انہیں ٹھیک کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • صوبے میں فوجی کارروائیاں آئین کے تحت ان کا حق ہے،ہمارا اختیار نہیں کہ ہم انہیں روک سکیں. علی امین گنڈاپور
  • افریقی ملک گنی میں انتخابی قانون سے متعلق ریفرنڈم‘ اپوزیشن کا بائیکاٹ
  • حماس کی ٹرمپ کو خط کے ذریعے جنگ بندی کی بڑی پیشکش، خطے میں امن کی نئی امید
  • اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ عقل کُل ہیں، شرجیل میمن
  • اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ عقل کل ہیں،وفاق ایسے فیصلے کرے جن سے عوام کے حالات میں بہتری آئے.شرجیل میمن
  • اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ عقل کل ہیں: شرجیل میمن
  • بلوچستان میں ڈرپ اریگیشن کا کامیاب آغاز، خشک سالی میں نئی امید
  • نیپال کی بغاوت اور جمہوریت کا سوال
  • آئین کو اکثر موم کی ناک بنادیا جاتا ہے،فضل الرحمن