اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے مترادف، عالمی کمیشن کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: اقوام متحدہ کی آزاد بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری برائے مقبوضہ فلسطین اور اسرائیل نے اپنی نئی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ کرنے اور مقبوضہ مغربی کنارے سمیت اسرائیل کے اندر یہودی اکثریت کو یقینی بنانے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیاکہ اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیلی پالیسیوں میں ایک واضح اور مسلسل رجحان سامنے آیا ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کرنا، یہودی آبادیوں کو وسعت دینا اور بالآخر مغربی کنارے کا مکمل الحاق کرنا ہے تاکہ فلسطینی ریاست کے قیام کو ہمیشہ کے لیے روکا جا سکے۔
کمیشن کی سربراہ نوی پیلائی نے کہا کہ انہیں اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل سموتریچ کے اس اعلان پر شدید تشویش ہے جس میں انہوں نے مغربی کنارے کے 82 فیصد حصے کے الحاق کا منصوبہ پیش کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے اس بیان کے بعد کہ “یہ اقدامات فلسطینی ریاست کو روکنے کے لیے ہیں”، اب اسرائیلی قیادت کھلے عام اپنے ارادوں کا اعتراف کر رہی ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ جنین، طولکرم اور نور شمس کے مہاجر کیمپوں میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں مکانات تباہ کیے گئے، رہائشی بے گھر ہوئے اور یہ سب اجتماعی سزا کے مترادف تھا۔ اسی طرح غزہ میں اسرائیل نے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچہ تباہ کیا اور بفر زون کے نام پر علاقے پر 75 فیصد کنٹرول حاصل کرلیا، جس سے فلسطینیوں کی بقا اور خود ارادیت بری طرح متاثر ہوئی۔
کمیشن نے یہ بھی واضح کیا کہ اسرائیلی اقدامات، جن میں زمین پر قبضہ اور وسائل کی ضبطی شامل ہے، نہ صرف فلسطینیوں کی زندگی اجیرن بنا رہے ہیں بلکہ ان پر نسل کشی جیسے حالات مسلط کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں وزیر اعظم نیتن یاہو، موجودہ و سابق وزرائے دفاع، وزیر خزانہ اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ان جرائم کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ 28 اکتوبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اسرائیل کے اندر فلسطینی شہریوں کو محدود رکھنے اور ان کے انضمام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے مسلسل قوانین اور پالیسیاں نافذ کی جا رہی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل تمام زیر قبضہ علاقوں میں یہودی اکثریت قائم رکھنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے کمیشن نے اپنی ایک اور رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی چار میں سے پانچ کارروائیاں انجام دی ہیں جنہیں اقوام متحدہ کے 1948 کے کنونشن میں نسل کشی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
واضح ر ہے کہ غزہ میں امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں جبکہ عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہ اسرائیل رپورٹ میں کے لیے
پڑھیں:
مسلہ فلسطین :فرانس اور سعودی عرب آج نیو یارک میں درجنوں عالمی راہنماﺅں کی میزبانی کریں گے
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 ستمبر ۔2025 )فرانس اور سعودی عرب آج نیو یارک میں درجنوں عالمی راہنماﺅں کو مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے اکٹھا کریں گے، جن میں سے کئی ممالک ایک باقاعدہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے کی توقع ہے، یہ ایک ایسا قدم ہے جو اسرائیل اور امریکا کے سخت ردعمل کو دعوت دے سکتا ہے.(جاری ہے)
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اسرائیل اور امریکا اس سربراہی اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے، اسرائیل کے اقوام متحدہ کے سفیر ڈینی ڈینون نے اجلاس کو ”تماشا“ قرار دیا ہے انہوں نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ہمیں نہیں لگتا کہ یہ مددگار ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دراصل دہشت گردی کو انعام دینے کے مترادف ہے اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل اس کے جواب میں، مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصے کو ضم کرنے اور پیرس کے خلاف مخصوص دو طرفہ اقدامات پر غور کر رہا ہے. امریکی حکومت نے فرانس سمیت ان ملکوں کے لیے ممکنہ نتائج کی وارننگ دی ہے، جو اسرائیل کے خلاف اقدامات کریں گے، فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نیو یارک اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں یہ اجلاس اس ہفتے کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلے ہو رہا ہے، اسرائیل کے غزہ شہر پر طویل عرصے سے زیر غور زمینی حملے کے آغاز کے بعد بلایا گیا ہے، اور اس وقت ہو رہا ہے جب جنگ بندی کے امکانات بہت کم ہیں. اسرائیل کے غزہ پر شدید حملے اور مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد کے دوران، یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اب فوری اقدام کیا جائے ورنہ دو ریاستی حل کا تصور ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے جنرل اسمبلی نے اس ماہ 7 صفحات پر مشتمل ایک اعلامیہ منظور کیا ہے، جس میں دو ریاستی حل کی جانب ٹھوس، وقت کے پابند اور ناقابل واپسی اقدامات بیان کیے گئے ہیں ساتھ ہی حماس کی مذمت اور اس سے ہتھیار ڈالنے اور غیر مسلح ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے ان کوششوں پر اسرائیل اور امریکا نے فوری ردعمل دیا، انہیں نقصان دہ اور تشہیری حربہ قرار دیا. فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نوئل بَرو نے جمعرات کو صحافیوں سے کہا تھاکہ نیو یارک اعلامیہ دور مستقبل کا مبہم وعدہ نہیں ہے بلکہ ایک روڈ میپ ہے جو اولین ترجیحات یعنی جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی سے شروع ہوتا ہے جب ایک بار جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی حاصل ہو جائے، تو اگلا مرحلہ ’اگلے دن‘ کا منصوبہ ہوگا، جو پیر کی بات چیت کے ایجنڈے پر ہوگا فرانس کو امید ہے کہ جولائی میں میکرون کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان سے اس تحریک کو زیادہ تقویت ملے گی جو اب تک چھوٹے ممالک کی قیادت میں تھی جو عموماً اسرائیل پر زیادہ تنقید کرتے ہیں. برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال نے اتوار کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا جبکہ فرانس اور مزید 5 ریاستوں سے توقع ہے کہ وہ آج باقاعدہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گی کچھ ممالک نے کہا ہے کہ اس میں شرائط ہوں گی اور دوسروں نے کہا کہ سفارتی تعلقات کا معمول پر آنا بتدریج ہوگا اور یہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کے اپنے وعدوں پر کس حد تک عمل کرتی ہے.