غزہ، مزید 59 فلسطینی شہید، یورپی ممالک کا طبی راہداری کھولنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
غزہ، مزید 59 فلسطینی شہید، یورپی ممالک کا طبی راہداری کھولنے کا مطالبہ WhatsAppFacebookTwitter 0 24 September, 2025 سب نیوز
یروشلم(سب نیوز )اسرائیلی بمباری میں جنگ سے تباہ حال غزہ میں مزید 59 سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے ہیں، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ فوج غزہ شہر کی فلسطینی آبادی پر دہشت مسلط کر رہی ہے اور دسیوں ہزار افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر رہی ہے۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق صبح کے اوقات میں غزہ میں کم از کم 51 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں سے 36 غزہ شہر میں مارے گئے ہیں۔
ایمرجنسی سروس کے ذرائع نے بتایا کہ جنوبی غزہ کے علاقے رفح کے قریب ایک امدادی تقسیم کے مرکز پر حملوں میں کھانے کے انتظار میں کھڑے 8 بے بس افراد بھی شہید ہوئے ہیں۔صبح کے ابتدائی اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کی شہادتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جن میں سب سے زیادہ تباہی محصور غزہ شہر میں دیکھی گئی، کیونکہ بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بننے والا یہ فوجی آپریشن مرکزی شہری مرکز پر قبضے کے لیے جاری ہے۔اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ میں کم از کم 65 ہزار 382 افراد شہید اور ایک لاکھ 66 ہزار 985 زخمی ہوچکے ہیں،
مزید ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔7 اکتوبر 2023 کے حملوں میں اسرائیل میں مجموعی طور پر ایک ہزار 139 افراد مارے گئے تھے اور تقریبا 200 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔الجزیرہ نے آسٹریلوی ڈاکٹر ندا ابو العرب سے بات کی جو غزہ شہر کے الشفا ہسپتال میں رضاکارانہ خدمات انجام دے رہی ہیں، تاکہ وہاں کی صورتحال جانی جا سکے۔ندا ابو العرب نے اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے پورے پورے خاندانوں کے دل دہلا دینے والے حالات بیان کیے، جو ہسپتال میں ٹکڑوں کی صورت میں پہنچتے ہیں۔
انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ آپ یہ تک نہیں جان پاتے کہ یہ ہاتھ کس کا ہے اور یہ ٹانگ کس کی ہے، یہ بالکل کسی خوف ناک فلم جیسا لگتا ہے، ہسپتال کو انہوں نے ذبح خانہ اور قبرستان قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ بمباری مسلسل جاری ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ان لوگوں پر ہر طرح کے ہتھیار آزما رہے ہوں گے، یہ ہر سمت سے قتل ہے، جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ندا ابو العرب کے مطابق نفسیاتی طور پر، جذباتی طور پر، جسمانی طور پر بچوں کی جو حالت میں دیکھتی ہوں، وہ چیتھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں، یہ ناقابلِ قبول ہے۔
ابو العرب نے کہا کہ یہ ناقابلِ فہم ہے کہ یہ سب کچھ کیسے جاری رہنے دیا جا رہا ہے؟انہوں نے مزید کہا کہ آپ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ کسی میں یہ ہمت یا ہمدردی کیوں نہیں کہ وہ اس کو روک سکے، ہمیں اسے روکنا ہوگا، ہر لمحہ قیمتی ہے جس میں آپ پورے خاندانوں کو زمین سے مٹنے سے بچا سکتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف اس لیے کہ کوئی بھی اسرائیلی حکومت کو اجتماعی قتلِ عام روکنے کا نہیں کہہ رہا، یہاں کوئی محفوظ نہیں، ہر کوئی بس اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔25 یورپی ممالک اور کینیڈا کے اتحاد نے اسرائیل سے اپیل کی ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے، بشمول مشرقی یروشلم تک راستہ بحال کرے، تاکہ غزہ سے طبی انخلا دوبارہ شروع کیا جا سکے۔
اس اتحاد کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ غزہ کے مریضوں کے علاج میں اضافے کی فوری ضرورت ہے، کیونکہ انسانی بحران بدستور بڑھ رہا ہے۔ان ممالک نے کہا کہ وہ مالی معاونت، طبی عملے کی فراہمی یا درکار سامان دینے کے لیے تیار ہیں تاکہ ہزاروں زخمیوں کا علاج مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں کیا جا سکے۔ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ فورا ادویات اور طبی سامان کی ترسیل پر پابندیاں ختم کرے، اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے کام کو مکمل طور پر ممکن بنائے، اور یہ یقینی بنائے کہ طبی عملے کو بین الاقوامی قانون کے مطابق تحفظ حاصل ہو۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان کی روس یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے کوششوں کی بھرپور حمایت پاکستان کی روس یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے کوششوں کی بھرپور حمایت پیرا فورس خواب کی تعبیر، قبضہ کیسز کا فیصلہ 90 روز میں ہوگا: مریم نواز جدہ :کازا دیورا ہوٹلز میں سعودی عرب کے 95ویں یومِ وطنی کی شاندار تقریب خلیج تعاون کونسل کا بڑا فیصلہ: اب ایک ویزے پر 6 خلیجی ممالک کا سفر کریں غزہ جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی ڈرون حملے، ویڈیوز سامنے آگئیں اسلام آباد ہائی کورٹ کا سی ڈی اے کو پلاٹ قبضے کے لیے آخری انتباہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: فلسطینی شہید
پڑھیں:
فلسطینی ریاست کے کھوکھلے نعرے، ستم کی رات ختم نہیں کر سکتے
اسلام ٹائمز: الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت روکنا، صیہونی حکومت کے ساتھ سیاسی، تجارتی اور سیکورٹی تعلقات ختم کرنے جیسے اقدامات کو فلسطینی ریاست کے حامی ممالک کی میں فہرست میں سب سے اوپر ہونا چاہیے۔ یونیورسٹی کے فلسطینی پروفیسر نے کہا کہ ان ممالک کو چاہیے کہ وہ تمام صہیونی آباد کاروں کو بھی ویزے جاری کرنا بند کریں، نہ کہ صرف تشدد کرنے والوں کو، اور صہیونی رہنماؤں کے بارے میں بین الاقوامی عدالتوں کے جاری کردہ احکامات کی پابندی کریں، جن میں ان کے وارنٹ گرفتاری بھی شامل ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے جاری طویل عمل کے باوجود اس حوالے سے تمام اقدامات علامتی سطح پر رہے اور عمل درآمد اور نفاذ کے مرحلے تک نہیں پہنچے اور اس بار بھی ہمیں اس سلسلے میں شروع ہونے والی ایک نئی سیاسی سونامی کے نتیجے کا انتظار کرنا چاہیے۔ سسکتے، کٹتے مرتے اور بھوکے پیاسے دم توڑتے فلسطینیوں کے درد درماں نظر نہیں آتا۔
پس منظر:
فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنا ایک طویل تاریخی اور سیاسی عمل رہا ہے، جس کا آغاز 1964 میں فلسطینی عوام کی نمائندگی کرنے والے ادارے کے طور پر فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے قیام سے ہوا تھا۔ اس کئی اہم سنگ میل تھے، جس میں 1967 کی جنگ اور صیہونی حکومت کے فلسطینی علاقوں پر قبضے میں توسیع اور پھر عرب اور اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاسوں میں فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا جانا شامل ہے۔ 1988 میں فلسطینی قومی کونسل نے باضابطہ طور پر ریاست فلسطین کے قیام کا اعلان کیا اور اس کے بعد دنیا بھر کے براعظموں کے مختلف ممالک نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا اور بین الاقوامی سطح پر فلسطینی کاز کی پوزیشن مضبوط ہوئی۔ اس عمل کو بین الاقوامی اقدامات سے منسلک کیا گیا ہے، جس میں نام نہاد دو ریاستی حل بھی شامل ہے، جس میں مشرقی یروشلم کے ساتھ 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے فلسطینی صیہونی تنازعہ کو حل کیا جائے گا۔
اہم سنگ میل:
1964 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کا قیام قاہرہ میں ہونے والی پہلی عرب سربراہ کانفرنس کے ذریعے فلسطینی عوام کی نمائندگی کرنے والے ادارے کے طور پر کام کرنے کی قرارداد کے بعدعمل میں آیا۔
1967 میں اسرائیل کی مصر، شام، اردن اور عراق سمیت عرب ممالک کے ساتھ ہونے والی جنگ کا اختتام صیہونی حکومت کے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضے کے ساتھ ہوا، جس نے 1948 میں مقبوضہ علاقوں کا رقبہ تقریباً تین گنا بڑھا دیا۔
1974 میں مراکش میں ہونے والے عرب سربراہی اجلاس میں ایک قرارداد جاری کی گئی جس میں لبریشن آرگنائزیشن کو فلسطینی عوام کا واحد جائز نمائندہ تسلیم کیا گیا اور اس کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت اور آزادی کو تسلیم کیا اور فلسطین کو یونائیٹڈ لبریشن آرگنائزیشن کا درجہ دیا۔
15 نومبر 1988 کو فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے مرحوم سربراہ یاسر عرفات نے الجزائر میں فلسطین نیشنل کونسل کے اجلاس کے دوران فلسطین کی ریاست کے قیام کا اعلان کیا، جس کا دارالحکومت یروشلم ہوگا، اور اس اعلان کے چند منٹ بعد الجزائر پہلا ملک تھا، جس نے سرکاری طور پر آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا۔ نومبر 1988 میں، ریاست فلسطین کے اعلان کے ایک ہفتہ بعد، 40 ممالک بشمول چین، ہندوستان، ترکی، اور بیشتر عرب ممالک نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا، اور تمام افریقی ممالک اور سوویت یونین کی جمہوریہ نے اس کی پیروی کی۔ تاکہ سال کے آخر تک دنیا کے 78 ممالک فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر چکے ہوں۔
1993 میں میڈرڈ پیس کانفرنس کے نام سے مشہور کانفرنس کے بعد یاسر عرفات کی سربراہی میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اور وزیر اعظم اضحاک رابن کی سربراہی میں صیہونی حکومت نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں خفیہ مذاکرات شروع کیے، جس کے نتیجے میں اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔ ان معاہدوں میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری تصادم اور تنازعات کے خاتمے کا حوالہ دیا گیا تھا اور ان میں فلسطینی اتھارٹی کے ڈھانچے اور ساخت اور ایک عبوری خود مختاراکائی کے قیام سے متعلق کئی شقیں شامل تھیں، لیکن ان معاہدوں کی شقوں پر آج تک عمل نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ 1966ء میں فلسطین میں پہلے عام انتخابات ہوئے جس کے دوران یاسر عرفات فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ منتخب ہوئے۔
2002 میں، سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی قیادت میں عرب امن اقدام کے نام سے ایک منصوبہ منظور کیا گیا تھا، جس میں 4 جون 1967 کی سرحدوں پر متعین مقبوضہ علاقوں سے حکومت کے انخلاء کے بدلے میں عرب ممالک اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور قدس شریف کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔تاہم اس منصوبے پر بھی عمل نہیں ہوا اور عرب ممالک مذکورہ شرط پر عمل درآمد کیے بغیر صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف بڑھ گئے۔
2008 میں، لبنان نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا، اس کے بعد 2011 میں شام نے، اور پھر وسطی اور لاطینی امریکی ممالک نے اس کی پیروی کی۔
2012 میں، فلسطینی اتھارٹی نے ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کی سطح پر ایک سفارتی مہم شروع کی۔ اسی سال نومبر میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 19/67 منظور کی، جس میں فلسطین کو اقوام متحدہ میں غیر رکن مبصر کا درجہ دیا گیا۔ قرارداد کی حمایت 138 ممالک نے کی، 9 نے مخالفت میں ووٹ دیا اور 41 نے ووٹ نہیں دیا۔ اسی سال، فلسطین کو اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم یونیسکو (UNESCO) کا رکن بن گیا، جس کے بعد امریکہ نے اقوام متحدہ کے یونیسکو کی مالی امداد معطل کر دی، جو کہ اس کے بجٹ کا تقریباً 22 فیصد تھا۔ برطانیہ، فرانس، سپین، اٹلی اور آئرلینڈ کی پارلیمانوں نے بھی اپنی حکومتوں سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔
2014 میں، جمہوریہ چیک، ہنگری، پولینڈ، بلغاریہ، رومانیہ اور قبرص کے بعد سویڈن نے پہلی بار یورپی یونین کے رکن ہونیکی حیثیت سے سرکاری طور پر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا۔
2015 میں، ریاست فلسطین نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شمولیت اختیار کی اور اسے فلسطینی علاقوں میں کی جانے والی فوجی کارروائیوں کی تحقیقات کرنے کی اجازت دی گئی، اور ویٹیکن نے اسی سال فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا۔
2016 میں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 2334 منظور کی، جس میں غاصب صیہونی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آباد کاری کی تمام سرگرمیاں فوری اور مکمل طور پر بند کردے۔ قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا کہ 4 جون 1967 کی سرحدوں میں کسی تبدیلی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، بشمول یروشلم کے حوالے سے، سوائے ان کے جن پر فریقین کے درمیان بات چیت کے ذریعے اتفاق کیا گیا تھا۔
2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یروشلم کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کو امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کی توثیق کرتے ہوئے ایک قرارداد جاری کی تھی اور اس قرارداد کی 176 ممالک نے حمایت کی تھی لیکن امریکہ اور صیہونی حکومت سمیت پانچ ممالک نے اس کی مخالفت کی تھی۔
2020 میں، ٹرمپ نے فلسطینی ریاست کے قیام کے امکان کا اشارہ دیا، بشرطیکہ فلسطینی اس کے منصوبے کی شرائط پر عمل کریں، جسے "صدی کی ڈیل" کہا جاتا ہے۔
مئی 2024 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تنظیم میں مکمل رکنیت کے لیے فلسطین کی درخواست کے حق میں 143 ووٹوں سے قرارداد منظور کی۔اس وقت، ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا، اور سلووینیا نے اگلے مہینے ان میں شمولیت اختیار کی، جس سے ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد اقوام متحدہ کے 193 ارکان میں سے 148 ہو گئی۔
جولائی 2024 میں، بین الاقوامی عدالت انصاف نے فیصلہ دیا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی غیر قانونی ہے اور یہ کہ حکومت جلد از جلد اپنا قبضہ ختم کرے، آبادکاری کی سرگرمیاں روکے، فلسطینی زمینوں سے آباد کاروں کو واپس لے، اور معاوضہ ادا کرے۔ستمبر 2024 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ 12 ماہ کے اندر فلسطینی علاقوں سے اپنا قبضہ ختم کرے۔
2025 میں، فرانس نے باضابطہ طور پر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے عزم کا اعلان کیا، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ یہ ایک سیاسی ضرورت ہے۔اس سال 21 ستمبر کو، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال نے نام نہاد دو ریاستی حل پر سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ صدارت میں ہونے والی کانفرنس سے قبل فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔
عملی اقدامات کے بغیر فلسطین کی ریاست منظوری، سیاسی ڈرامہ:
فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اس طویل عمل کا جائزہ لینے سے ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عمل سے اب تک کیا فائدہ ہوا ہے اور عملی طور پر یہ ریاست فلسطین کی تشکیل کا باعث کیوں نہیں بن سکا؟ عرب امریکن یونیورسٹی میں ڈپلومیسی کے پروفیسر دلال عریقات نے اس حوالے سے کہا ہے کہ جب تک کہ غزہ میں فلسطینیوں کو اسرائیل کے نسل کشی کے جرائم سے بچانے اور مغربی کنارے کو اس حکومت کے مکمل طور پر نگل لینےسے روکنے کے لیے سنجیدہ اور فوری اقدامات نہ کیے جائیں، فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے بین الاقوامی موقف میں اس تبدیلی کو حقیقی معنوں میں کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت روکنا،صیہونی حکومت کے ساتھ سیاسی، تجارتی اور سیکورٹی تعلقات ختم کرنے جیسے اقدامات کو فلسطینی ریاست کے حامی ممالک کی میں فہرست میں سب سے اوپر ہونا چاہیے۔ یونیورسٹی کے فلسطینی پروفیسر نے کہا کہ ان ممالک کو چاہیے کہ وہ تمام صہیونی آباد کاروں کو بھی ویزے جاری کرنا بند کریں، نہ کہ صرف تشدد کرنے والوں کو، اور صہیونی رہنماؤں کے بارے میں بین الاقوامی عدالتوں کے جاری کردہ احکامات کی پابندی کریں، جن میں ان کے وارنٹ گرفتاری بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنا بھی فرانس پر بڑی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرے جو کہ ایک فطری حق ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فلسطین کے لیے یہ سفارتی سونامی ایک ایسے وقت میں رونما ہوا ہے جب اس سرزمین کے لوگ غزہ اور مغربی کنارے میں وحشیانہ اسرائیلی جارحیت کا شکار ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ایسی ریاست کے قیام کے لیے عملی اقدامات کیے بغیر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنا بے معنی اور فضول ہوگا۔
برطانوی پارلیمنٹ کے رکن اور لیبر پارٹی کے سابق رہنما جیرمی کوربن کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ریاست فلسطین کو تسلیم کرنا فلسطینی جدوجہد کی تاریخ کا ایک اہم قدم ہے تاہم غزہ اور مغربی کنارے کے واقعات کے حوالے سے امریکا پر اپنا موقف تبدیل کرنے کے لیے مزید دباؤ ڈالنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے بعد فرانس اور برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی اور انٹیلی جنس خدمات کی فراہمی کو روکیں تاکہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے حوالے سے انہوں نے جو موقف اختیار کیا ہے، اس کی قدر و قیمت ختم نہ ہو۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ جن لوگوں نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ فلسطینیوں کے تحفظ، انہیں خوراک اور ادویات فراہم کرنے اور فلسطین کی حمایت میں عالمی احتجاج اور تحریکوں کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ، اسرائیل، ہنگری، جرمنی اور دیگر ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے مزید کوششیں کریں جو تاریخ کے غلط رخ پر ہیں۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان تمام باتوں کے باوجود ہم ٹرمپ سے مستقبل قریب میں اپنا موقف تبدیل کرنے اور عالمی رائے عامہ کے دباؤ پر فلسطین کی حمایت میں اچانک پوزیشن لینے کی توقع نہیں رکھ سکتے، کیونکہ وہ غزہ پر بمباری اور اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کی تباہی دیکھنے کے باوجود اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔