وزیراعظم کے دورہ امریکہ اور سعودی عرب سے پاکستان کا وقار بلند ہوا،ڈپٹی چیئرمین سینیٹ
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 ستمبر2025ء) ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان نے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے حالیہ دورہ امریکہ اور سعودی عرب کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے پاکستان کے وقار اور عالمی تشخص کے لیے نہایت اہم اور کامیاب قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے امریکہ کے دورے میں پاکستان کا مؤقف مؤثر انداز میں اجاگر کیا اور ہر پاکستانی کی آواز کو عالمی سطح پر پہنچایا۔
سیدال خان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی امریکی صدر سے متوقع ملاقات پاکستان کی خارجہ پالیسی، دفاعی تعاون اور سفارتی اعتماد کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگی۔ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ وزیراعظم نے پاک بھارت ممکنہ جنگ رکوانے پر امریکی صدر کا شکریہ بھی ادا کیا۔ ان کے بقول، بھارت کے بے بنیاد پروپیگنڈے نے دونوں ایٹمی ممالک کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا تھا، لیکن امریکہ کی مثبت سفارت کاری نے خطے کو بڑے ایٹمی بحران سے محفوظ بنایا۔(جاری ہے)
سیدال خان نے مزید کہا کہ وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب بھی کامیاب اور نتیجہ خیز رہا، جہاں حالیہ دفاعی معاہدات نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاہدے خطے کی سلامتی، دہشت گردی کے خاتمے، معیشت، سرمایہ کاری اور تجارت میں نئے دور کا آغاز ثابت ہوں گے، جن کے دور رس اثرات دونوں ممالک کی معیشت اور عوامی سطح پر اعتماد کو مستحکم کریں گے۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ حرمین شریفین اور مقدس مقامات کا تحفظ کرنا پاکستان کے لیے نہ صرف اعزاز ہے بلکہ یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ادھر اسلام آباد میں جمعیت علمائ اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے عشائیے میں بھی سیدال خان نے شرکت کی۔ عشائیے میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید احمد المالکی، جے یو آئی (ف) کے سینیٹرز اور دیگر اہم رہنما شریک ہوئے۔ ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال، پارلیمانی تعاون اور قومی اتفاقِ رائے کے فروغ پر گفتگو ہوئی جبکہ سعودی سفیر کی موجودگی نے دونوں برادر ملکوں کے تعلقات پر بامعنی تبادلہ خیال کا موقع فراہم کیا۔اپنے بیان کے اختتام پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حالیہ عالمی دورے پاکستان کے روشن مستقبل، علاقائی استحکام اور ترقی کے نئے دور کا پیش خیمہ ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کہا کہ وزیراعظم سیدال خان نے کہا کہ
پڑھیں:
پاک سعودی معاہدہ، کامیابی، امکانات اور خطرات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں نسبتاً کمزور ممالک کے لیے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں اور مواقع بھی، پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو کمزور نہیں تو طاقتور بھی نہیں، بلکہ پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود نہایت کمزور معاشی صورتحال سے دوچار ہے، ایسے میں مئی 2025 میں بھارت سے پانچ روزہ جھڑپ نے بالکل نئی صورتحال پیدا کردی، معاشی اور فوجی اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں کمزور ملک پاکستان کی افواج نے پیشہ ورانہ مہارت اور جرأت کی تاریخ رقم کردی اور بھارت کو بدترین شکست سے دوچار کردیا، اور یہاں سے پاکستان کے لیے مواقع کھلنا شروع ہوگئے، پہلے بھارت خلجان میں مبتلا ہوا، شرمندگی کے مارے سر نہیں اٹھا سکتا، اس کے بعد یورپ خصوصاً فرانس نے آنکھیں پھیریں اور ساتھ ہی امریکی صدر ٹرمپ کے اقدامات نے بھارت کو شدید پریشانی سے دوچار کردیا، پھر پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا کی گئیں اور اب پاکستانی فوجی برتری یا دھاک نے قضیہ فلسطین اور اسرائیلی چیرہ دستیوں کے حوالے سے نئے امکانات پیدا کردیے اور اس سلسلے کا پہلا بڑا اقدام پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ ہے اس سے خلیج کی سلامتی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے جس کا مرکز سعودی عرب و پاکستان کے درمیان اسٹرٹیجک شراکت داری ہے، اس معاہدے کے تحت کسی بھی ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ سعودی عرب اور ایٹمی طاقت پاکستان کے درمیان ریاض میں جامع دفاعی معاہدہ ہوا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف نے پاک سعودی ’’اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدے‘‘ (SMDA) معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کی آٹھ عشروں پر محیط تاریخی شراکت داری ہے، دونوں ممالک میں مشترکہ اسٹرٹیجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے تناظر میں یہ معاہدہ ہوا جو دونوں ممالک کی سلامتی کو بڑھانے کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، معاہدہ خطے اور دنیا میں امن کے حصول کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ دونوں برادر ممالک کے درمیان اسٹرٹیجک شراکت داری کی گہرائی اور دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔ موجودہ اور متوقع خطرات سے نمٹا اور دفاعی تعاون کے مختلف پہلوئوں کو فروغ دیا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے معاہدے کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا، معاہدے کے نتیجے میں پاکستان اب حرمین شریفین کے تحفظ میں سعودی عرب کا پارٹنر بن گیا۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ دونوں ممالک کسی بھی خطرے سے مشترکہ طور پر نمٹیں گے اور اپنے دفاع کے لیے ایک ملک کی طاقت دوسرے ملک کے دفاع کے لیے موجود ہوگی۔ پاکستان مقدس مقامات کے دفاع میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا اور دونوں ممالک بھرپور طاقت کے ساتھ جواب دیں گے۔
اس معاہدے سے بیک وقت کئی تبدیلیاں آسکتی ہیں، حالیہ دنوں میں اسرائیل کی جانب سے ایران، لبنان اور اب قطر پر حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ کے ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی خصوصاً سعودی عرب میں جس نے اپنا پورا دفاع امریکا کے حوالے کررکھا ہے اور حال ہی میں امریکی حلیف قطر پر اسرائیلی حملہ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ امریکا اسرائیل کے مقابلے میں اپنے کسی حلیف کا ساتھ نہیں دے گا، چنانچہ پاکستان کے مئی 2025 کے آپریشن بنیان مرصوص کے بعد عرب دنیا کی نظریں پاکستان کی طرف ہوگئی تھیں، یقینا اس صورتحال دے پاکستان کو بڑے فوائد ملے ہیں، لیکن مستقبل میں دور رس نتائج والے کام یعنی سعودی سرمایہ کاری، پاکستانی افرادی قوت کے لیے ملازمت کے مواقع ویزوں میں آسانی وغیرہ کو یقینی بنانا پاکستانی قیادت کا کام ہے، ایسا نہ ہو کہ کچھ تیل مفت، کچھ لمبے ادھار پر اور قرضہ ری شیڈول کرواکے خوش ہوجائیں۔ اگر پاکستانی قیادت اپنے ملک کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع یقینی بنادے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔
ایک طرف جہاں یہ کامیابی اور موقع ہے وہیں پاکستان کے لیے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں، خطرات یوں کہ اسرائیل، بھارت اور امریکا اس معاہدے کو ہضم نہیں کرسکیں گے اور کچھ نہ کچھ سازشیں ہوتی رہیں گی اور یہیں سے پاکستانی قیادت کا امتحان بھی شروع ہوگا کریڈٹ لینے اور دینے والے اب ذمے داری بھی لیں تاکہ معاہدے کے ثمرات پاکستانی قوم کو مل سکیں۔ یہ جو بار بار تکرار کی جارہی ہے کہ پاکستان مقدس مقامات کے تحفظ میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا، اگر معاہدے میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کا لفظ ڈال دیا جاتا تو القدس کا تحفظ بھی اس میں شامل ہوجاتا اور یہ معاہدہ امت مسلمہ کا حقیقی ترجمان بن جاتا، ساتھ ہی صمود فلوٹیلا کے تحفظ کا مطالبہ بھی اس معاہدے کو چارچاند لگا دیتا۔