غزہ میں جارحیت سے اسرائیل دنیا میں تنہا رہ جائے گا؛ یونانی وزیراعظم نے خبردار کردیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
یونان کے وزیر اعظم کیریاکوس مِتسوتاکِس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو شدید خطرات میں ڈال رہی ہے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل عالمی تنہائی سے دوچار ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسلح جنگیں ہو رہی ہیں اور ایسے حالات میں عالمی برادری پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فوری اقدامات کرے۔
غزہ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے مِتسوتاکِس نے زور دیا کہ عام شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی بھی فوجی ہدف، چاہے وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، ہزاروں بچوں کی شہادتیں، دس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی جبری بے دخلی اور انسانی المیے کو جواز فراہم نہیں کر سکتا۔
یونانی وزیر اعظم نے واضح کیا کہ ان کا ملک اسرائیل کے تحفظ کے حق کی حمایت کرتا ہے، مگر ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر غزہ میں جارحانہ پالیسی جاری رہی تو یہ اسرائیل کے اپنے مفاد کے خلاف ہوگا اور دنیا بھر میں اس کے حامیوں کی حمایت بتدریج کمزور پڑ جائے گی۔
انھوں نے دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے جنگ بندی اور غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فوری فراہمی کا مطالبہ کیا تاکہ مزید تباہی اور انسانی جانوں کا نقصان روکا جا سکے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ہم ہجرت نہیں کر رہے، ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہوں کی طرح بھاگ رہے ہیں
اسلام ٹائمز: وہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے اختتام کرتا ہے کہ ہر نوآبادیاتی منصوبہ جو قتل و غارت اور جھوٹ پر بنایا گیا تھا منہدم ہو گیا، اور وہ گر کر رہیگا، دنیا اس لمحے کو یاد رکھے گی، جب ایک ایٹمی طاقت نے اپنی انسانیت کھو دی اور اپنا سب کچھ ہی کھو دیا۔ اسلام ٹائمز۔ عبرانی زبان کے اخبار اہرنوت نے اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار لیور بین شاول کے لکھے ہوئے ایک مضمون میں اسرائیلی صیہونی حکومت کے مستقبل کی تاریک اور خوفناک تصویر پیش کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اگلے دو سالوں میں مکمل طور پر تباہی کے راستے طے کر لے گا۔ ان کے بقول، آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض سیکورٹی یا سیاسی بحران نہیں ہے، بلکہ ایک صیہونی ریاست کی بقا کے لئے حقیقی خطرہ ہے، جو صہیونی منصوبے کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے۔ بین شاول اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت، نہ صرف فوجی میدان میں، بلکہ نفسیاتی اور سیاسی سطحوں پر بھی، "ناقابل تسخیر ریاست" کے افسانے کو جھٹلانے اور دنیا کے سامنے "اسرائیل" کو کمزور ریاست ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
خاموش فرار: تباہی کی علامت
تجزیہ کار مقبوضہ علاقوں کے اندر روزمرہ کے مناظر کو ظاہر کرتا ہے: کہ
- یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے ٹکٹ تیزی سے فروخت ہو رہے ہیں۔
- سفارتخانے امیگریشن کی درخواستوں سے بھر گئے ہیں۔
- خاندان خاموشی سے اپنے اثاثے بیچ رہے ہیں۔
- اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیج رہے ہیں۔
- فلسطینی مزاحمت، نہ صرف فوجی میدان میں، بلکہ نفسیاتی اور سیاسی سطحوں پر بھی، "ناقابل تسخیر ریاست" کے افسانے کو جھٹلانے اور دنیا کے سامنے "اسرائیل" کو کمزور ریاست ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ جانے والوں کا واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
- ہم ہجرت نہیں کر رہے… ہم ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہوں کی طرح بھاگ رہے ہیں۔
- وہ تلخ لہجے میں کہتا ہے کہ یہاں ایک بے اختیار فوج اور حیران و سرگرداں حکومت ہے۔
بین شاول پوچھتا ہے کہ ایسا کون سا ملک ہے جس کے دارالحکومت اور قصبے روزانہ بمباری کی زد میں ہیں اور ہم کوئی مناسب جواب نہیں دے سکتے؟، ایسی کون سی فوج ہے جو ہزاروں فضائی حملوں سے غزہ کو اپنے گھٹنوں کے بل نہیں لا سکتی؟۔ ان کی رائے میں صیہونی حکومت بے بس اور بے مقصد ہے اور وزراء کچھ حاصل کیے بغیر شور مچانے اور دھمکیاں دینے پر خوش ہیں۔
حماس نے ہمارے وہم کے بت توڑ دیئے ہیں:
تجزیہ کار کے خیال میں حماس اسرائیل کے سیاسی اور عسکری ڈھانچے کی کمزوری اور خوف کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مغربی کنارے اور مقبوضہ علاقوں کے اندر غم و غصے کے شعلے بھڑکا رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج ہمارے پاس بغیر کسی منصوبے کے، بغیر کسی سمت کے، اور بغیر کسی اخلاقی جواز کے حکومت چل رہی ہے، ایک ایسی حکومت جو بچوں کو گرفتار کرتی ہے، شہریوں کو مارتی ہے، اور ساتھ ہی دنیا سے ان کاموں کی تعریف ہر وہ حکومت جو جبر پر کھڑی تھی، زوال پذیر ہو گئی، گھڑی چل پڑی ہے اور جب 'اسرائیل' گرے گا۔ کرنے کی توقع بھی رکھتی ہے۔
محاصرہ شدہ مورچہ بند آبادیاں: ایک تاریک مستقبل کی نشانی
بین شاول کے مطابق اگلے دو سالوں میں اسرائیل کو دو میں سے ایک منظرنامے کا سامنا کرنا پڑے گا: یا ایک بند جزیرہ اور ایک مسلح یہودی قلعہ بننا جس کی بقا کا انحصار صرف اور صرف امریکی حمایت پر ہے۔ یا دوسروں کی زمینوں پر صیہونی قبضے کا مکمل خاتمہ اور یہ زمینیں ان کے اصل مالکان کو واپس کرنا۔
وہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے اختتام کرتا ہے کہ ہر نوآبادیاتی منصوبہ جو قتل و غارت اور جھوٹ پر بنایا گیا تھا منہدم ہو گیا، ہر وہ حکومت جو جبر پر کھڑی تھی، زوال پذیر ہو گئی، گھڑی چل پڑی ہے اور جب 'اسرائیل' گرے گا، اور وہ گر کر رہیگا، دنیا اس لمحے کو یاد رکھے گی، جب ایک ایٹمی طاقت نے اپنی انسانیت کھو دی اور اپنا سب کچھ ہی کھو دیا۔
یہ مضمون صہیونی معاشرے میں گہری نفسیاتی اور سیاسی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ایسی تقسیم جو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کی جانب سے ہم آہنگی ظاہر کرنے کی کوششوں کے باوجود، حکومت کا مین اسٹریم میڈیا بھی اب صہیونی منصوبوں کے زوال کے قریب آنے کے بارے میں کھل کر بات کر رہا ہے۔