ہالی وڈ کے سنہری عہد کی یاد آتے ہی ذہن میں ایک ایسی شخصیت ابھرتی ہے جس نے فلم کو خواب کی لطافت اور فن کی گہرائی بخشی۔ روشنیوں اور شہرت کے اس دائرے کے پیچھے ایک ایسا فنکار تھا جو روایت شکن سوچ رکھتا تھا، کہانی کو محض تفریح نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری سمجھتا تھا، فطرت اور انسانی آزادی کا وکیل تھا، اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا معمار جس نے سینما کو ایک تحریک کا روپ دیا جی ہاں! یہ لیجنڈری شخصیت رابرٹ ریڈ فورڈ ہیں۔
جن کا نام آتے ہی ذہن میں ہالی وڈ کے سنہری عہد کی وہ روشن تصویر ابھرتی ہے، جس میں ایک طرف فلم ایک خواب تو دوسری طرف خالص فن تھی۔ غیر روایتی سوچ رکھنے والے اس عظیم انسان نے امریکی سینما کو ایک باقاعدہ تحریک میں بدل دیا۔ 1936ء میں کیلی فورنیا (امریکا) کے شہر سانتا مونیکا میں جنم لینے والا یہ فنکار محض باکس آفس سٹار نہیں تھا بلکہ اس نے آنے والی نسلوں کے لیے ایسی راہیں ہموار کیں جن پر چل کر سینما کے نئے مسافر اپنی آواز دنیا تک پہنچا سکیں۔
ریڈفورڈ نے بیچلر ڈگری کے لیے یونیورسٹی آف کولوراڈو کا انتخاب کیا، پھر یورپ میں آرٹ کی تعلیم اور بالآخر نیویارک کی امریکن اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس میں تربیت حاصل کی اور یہ سب اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ وہ محض اداکاری نہیں سیکھ رہا تھا بلکہ وہ اپنے دیکھنے، سمجھنے اور بیان کرنے کے زاویے بنا رہا تھا۔
بروڈوے پر معروف امریکی لکھاری نیل سائمن کے کھیل ’’بیئر فوٹ اِن دی پارک‘‘ میں کامیابی نے اس نوجوان کو ایسی شناخت دی، جس نے ہالی وڈ کے در تک پہنچا دیا۔ فلمی دنیا میں قدم رکھتے ہی اس نے جلد ثابت کر دیا کہ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ گہرائی میں اترنے والا اداکار ہے۔1969ء میں پال نیومن کے ساتھ ’’بچ کیسیڈی اینڈ دی سنڈینس کِڈ‘‘ نے اسے سپر سٹار بنا دیا اور یہی وہ کردار تھا جس کے نام پر بعد میں ایک پورا ادارہ، ایک فلمی تہوار، اور ایک تخلیقی فلسفہ (سنڈینس فلم فیسٹیول) تشکیل پایا۔
1970ء کی دہائی ریڈفورڈ کے لیے ’’شہرت اور سنجیدگی‘‘ دونوں کی دہائی تھی۔ دی سٹِنگ (1973ء)، دی وے وی ور (1973)، دی کینڈڈیٹ (1972ء)،جیریمیہ جانسن (1972ء)، ،تھری ڈیز آف دی کونڈور (1975ء) اورآل دی پریذیڈنٹس مین (1976ء)، دی نیچرل (1984ء)، سنی کرز (1992ء)، اِن ڈیسنٹ پروپوزل (1993ء)، سپائے گیم(2001ء)، آل اِز لاسٹ(2013ء) اور کیپٹن امریکہ: دی ونٹر سولجر (2014) نے پوری دنیا میں ان کے فن کی دھاک بٹھا دی۔
1980ء میں ریڈفورڈ نے ایک نئی سمت اختیار کی یعنی وہ کمیرے کے سامنے کے بجائے بطور ہدایت کار پیچھے پہنچ گئے۔ فلم ’’آرڈنری پیپل‘‘ ان کا بطور ہدایت کار پہلا تجربہ تھا جس نے نہ صرف ناظرین کو چونکایا بلکہ اکیڈمی ایوارڈ برائے بہترین ہدایت کار بھی ان کے نام کیا۔ یہ فلم ایک متمول مگر جذباتی طور پر بکھرے گھر کی کہانی ہے، جس میں تراش خراش اور خاموشیوں کے بیچ درد اور امید ساتھ چلتے ہیں۔ ریڈفورڈ کی ہدایت کاری میں اخلاقیات، سادگی اور مضبوط کہانی جیسی نمایاں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
تاہم اگر کوئی ایک کام ریڈفورڈ کے کریئر کو سب سے زیادہ ممتاز بناتا ہے تو وہ سنڈینس ہے۔ 1969ء میں یوٹا(امریکا) کی وادیوں میں زمین خرید کر انہوں نے ایک چھوٹا سا ریزورٹ بنایا، جسے وہ ‘‘سنڈینس’’ کہنے لگے۔ وہاں سے شروع ہونے والا یہ خواب 1981ء میں ایک باقاعدہ ادارے یعنی سنڈینس انسٹی ٹیوٹ کی صورت اختیار کر گیا، جس کا مقصد واضح تھا یعنی انڈی فلم میکرز کے لیے محض نمائش نہیں، تربیت، رہنمائی اور مکالمہ۔ سکرین رائٹنگ لیبز، ڈائریکٹنگ ورکشاپس، اور پھر فلم فیسٹیول، یہ سب مل کر ایک ایسا ماحولیاتی نظام بن گئے جس نے امریکی آزادانہ سینما کی شکل ہی بدل دی۔
کوئنٹن ٹیرینٹینو کی ریزروائر ڈاگز، سٹیون سوڈربرگ کی سیکس، لائز اینڈ ویڈیو ٹیپ، کوئن برادرز کی بلڈ سمپل، ڈیرن ایرونوفسکی کی ریکوئیم فار اے ڈریم، ڈیمیئن شیزیل کی وِپلَیش اور گیٹ آؤٹ جیسی بے شمار فلمیں سنڈینس کی چھت تلے بنائی گئیں۔ ریڈفورڈ کی بصیرت صرف فلم سازی تک محدود نہیں رہی۔ وہ طویل عرصہ تک ماحولیاتی تحریک کے سرگرم کارکن رہے۔
یوٹا کے پہاڑوں اور کھلی فضاؤں سے ان کی محبت نے انہیں قدرتی وسائل کے تحفظ، موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات اور مقامی آبادی کے حقوق کی آواز بنائے رکھا۔ اپنے خاندان کے ساتھ انہوں نے ’’دی ریڈفورڈ سینٹر‘‘ کے ذریعے ایسی دستاویزی فلموں اور پروجیکٹس کی سرپرستی کی، جو ماحول اور سماج کے متعلق آگاہی بڑھائیں، پالیسی سازی پر اثر ڈالیں اور عام آدمی تک پیچیدہ موضوعات کو دلکش طریقے سے پہنچائیں۔
یہ سرگرمیاں بتاتی ہیں کہ ریڈفورڈ کے لیے فن صرف ذوق کی تربیت نہیں بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری تھی۔ لیجنڈری فن کار و ہدایت کار کے ایوارڈز کی فہرست بھی چھوٹی نہیں،بہترین ہدایت کار کا آسکر، 2002ء کا اعزازی اکیڈمی ایوارڈ، 2005 کے کینیڈی سنٹر آنرز اور 2016ء میں صدر باراک اوباما کے ہاتھوں ملنے والا ’’پریزیڈینشل میڈل آف فریڈم‘‘ یہ سب ریڈفورڈ کی اس اجتماعی خدمات کا اعتراف ہیں جو انہوں نے امریکی ثقافت، آزادیِ اظہار اور ادارہ سازی کے لیے انجام دیں۔
رابرٹ ریڈفورڈ کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز نے ان کی کردار سازی میں نہایت اہم کردار ادا کیا، جوانی میں ماں کے انتقال کا صدمہ، ابتدائی دور میں کم سن بیٹے کی موت اور پھر زندگی کے اواخر میں بیٹے جیمز ریڈفورڈ کے بچھڑ جانے کا دکھ، ان سب واقعات نے ان کے فن میں ایک غیر مرئی سنجیدگی پیدا کی۔
وہ اکثر اپنی زندگی کے بارے میں کم بولتے ہیں، مگر ان کی فلموں کی خاموشیاں، کرداروں کی نگاہیں اور ان کے اداروں کی خدمات یہ کہہ دیتی ہیں کہ انسان اپنے ذاتی دکھوں سے اوپر اٹھ کر بھی دوسروں کے لیے امید کی روشنی بن سکتا ہے۔
9 اگست 1958ء کو لاس ویگاس میں ریڈفورڈ نے امریکن تاریخ دان اور سماجی رہنما لولا وین ویگنن سے شادی کی، یہ رشتہ ایک خاندان میں ڈھلا اور چار بچوں کی صورت میں ثمر آور ہوا (اسکاٹ اینتھنی، شاؤنا جین، ڈیوڈ جیمز اور ایمی ہارٹ) مگر خوشیوں کے اس سفر میں دکھ کا پہلو بھی شامل رہا، اسکاٹ محض ڈھائی ماہ کی عمر میں اچانک موت کا شکار ہوگیا۔ شاؤنا مصوری کے میدان میں اپنی پہچان رکھتی ہیں اور مشہور صحافی ایرک شلوسر کی شریکِ حیات ہیں۔ ڈیوڈ جیمز نے بطور مصنف اور پروڈیوسر شہرت حاصل کی، مگر 2020ء میں کینسر کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے۔
ایمی ہارٹ نے اداکارہ، ہدایت کارہ اور پروڈیوسر کے طور پر ایک منفرد مقام بنایا۔ اس خاندان کی خوشبو سات نواسوں اور نواسیوں کی صورت میں مزید پھیلی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈفورڈ اور لولا نے کبھی اپنی علیحدگی یا طلاق کا باضابطہ اعلان نہیں کیا تاہم 1982ء میں کالم نگار شرلی ایڈر نے لکھا کہ دونوں کئی برسوں سے ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ 1984ء میں جب ریڈفورڈ فلم ’’آوٹ آف افریقہ‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھے، اسی دوران وہ طلاق کے معاملات طے کر رہے تھے۔
کئی برس بعد، 11 جولائی 2009ء کو ریڈفورڈ نے اپنی دیرینہ رفیقہ سبائل زاگارز سے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں شادی کی۔ سبائل 1996ء میں سنڈینس، یوٹاہ کے ان کے گھر میں منتقل ہوچکی تھیں اور برسوں تک ان کے ساتھ رہیں۔ ریڈفورڈ کی اصل رہائش سنڈینس ریزورٹ، یوٹاہ ہی رہی، لیکن ان کا ایک خوبصورت مکان ٹبیرون، کیلیفورنیا میں بھی تھا، جو 2024ء میں فروخت کردیا گیا۔ اس کے علاوہ وہ سانتا فی، نیو میکسیکو میں بھی ایک جائیداد کے مالک تھے۔
2018ء میں ہالی وڈ کے لیجنڈ نے بطور اداکار ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا لیکن ریٹائرمنٹ کا مطلب ان کے ہاں تھک جانا نہیں بلکہ سمت بدل لینا ہے۔ وہ مرتے دم تک سنڈینس انسٹی ٹیوٹ اور مختلف فلاحی منصوبوں کے ذریعے نوجوان فلمسازوں کی پیٹھ تھپتھپاتے رہے۔ ریڈفورڈ نے دکھایا کہ اگر ایک سٹار اپنی شہرت کو ادارہ سازی کے لیے وقف کر دے تو ایک نئی دنیا جنم لے سکتی ہے۔ سنڈینس کا ماڈل…جس میں تربیت، رہنمائی، اور آزادانہ بیانیے کو محفوظ جگہ میسر آتی ہے، کسی بھی فلمی دنیا کے لیے مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔ ریڈفورڈ کی شخصیت میں ایک خوبصورت تضاد بھی ہے، ایک طرف وہ کلاسیکی سٹار سسٹم کی نمائندگی کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ اسی نظام کے باہر کھڑے آزاد بیانیے کے سب سے بڑے مددگار ہیں۔ یہی تضاد انہیں منفرد بناتا ہے۔
عمر کی آخری منزل پر جہاں اکثر سٹارز اپنی ماضی کی چمک کو بیچتے دکھائی دیتے ہیں، ریڈفورڈ نے اپنے ماضی کو مستقبل کے لیے وقف کردیا۔ ان کے انسٹی ٹیوٹ کی لیبز میں آج بھی سپنوں کی آنکھوں والے نوجوان اسکرپٹس لے کر آتے ہیں، اور وہاں انہیں استادوں کے ساتھ ’’بات‘‘ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
لہذا رابرٹ ریڈفورڈ کا ورثہ صرف ایوارڈز، ہٹ فلموں یا عالمی اعزازات کا نام نہیں۔ یہ ورثہ ایک اخلاقی پوزیشن ہے کہ فن میں بھی ذمہ داری ہے، شہرت کا بہترین مصرف اس سے آگے کے لیے راستہ کھولنا ہے، ادارہ سازی سٹارڈم سے بڑی چیز ہے اور یہ کہ اچھی کہانی دنیا بدلتی ہے، بشرطیکہ اسے کہنے والوں کو راستہ، تربیت اور حوصلہ میسر آئے۔ آج شوبز کی دنیا کا عظیم رہنما دنیائے فانی سے جا چکا لیکن ان کا نام آنے والے برسوں میں بھی صرف ’’یاد‘‘ نہیں بلکہ ’’استعمال‘‘ بھی کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہدایت کار نہیں بلکہ میں ایک کے ساتھ میں بھی کے لیے
پڑھیں:
وہ چند ہزار
یہ دنیا جس میں آپ رہتے ہیں بلاشبہ اس کے عقائد، سرحدوں اور معیشتوں کے ارتقاء میں لاکھوں بے نام و نشان لوگوں کا ہاتھ ہے مگر اس ارتقاء کی ابتداء متحد، پرعزم اور جذبے سے بھرپور محض چند ہزار لوگوں کی دین ہے۔
ان چند ہزار نے جب جولیئس سیزر کے ساتھ روبیکن دریا عبور کیا تو ان کے قدموں کے عزم نے رومی سلطنت جیسی عظیم تاریخ رقم کی۔ وہ چند ہزار جب رحمتِ کائنات ﷺ کے ہمراہ مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے تو ہر پتھر، ہر ذرہ ان کے قدموں کے نور سے جگمگا اٹھا۔ وہ چند ہزار جب جنگ یرموک میں خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں بازنطینیوں سے ٹکرائے تو تلواروں کی ٹکر اور دھول کے بادلوں میں یہ سبق چھپا ہوا تھا کہ فتح ہتھیار میں نہیں بلکہ دل میں موج زن جذبے میں چھپی ہوتی ہے۔
وہ چند ہزار ہی تھے جنہوں نے صلاح الدین ایوبی کے ساتھ حطین کے میدان میں یروشلم آزاد کرایا اور تاریخ میں امر ہو گئے۔ ایسے ہی چند ہزار محمد فاتح کے ساتھ مل کر قسطنطنیہ فتح کرنے والوں میں شامل ہوئے جنہوں نے بازنطینی سلطنت کا جنازہ نکال چھوڑا اور آنے والے چار سو سالوں تک خلافت عثمانی کا پرچم بلند کیے رکھا۔
وہ چند ہزار جب مارٹن لوتھر کے ساتھ کھڑے ہوئے تو کیتھولک کی مذہبی اجارہ داری زمین بوس کردی۔ وہی چند ہزار جب ہینری فورڈ اور تھامس ایڈیسن کے ساتھ متحد ہوئے تو صنعتی انقلاب کی گونج نے دنیا کو حیران کردیا۔ ایسے ہی چند ہزار جب چارلس ڈو، ایڈورڈ ڈی اور چارلس ایم کے ساتھ وال اسٹریٹ پر جمع ہوئے تو دنیا کی معیشت کی نبض اپنے ہاتھ میں لے لی۔ ان چند ہزار جاپانیوں نے میجی بحالی کے تحت ایک غریب جزیرے کو اشیا کی عظیم طاقت میں بدل کر رکھ دیا اور ہر گلی، ہر کارخانے اور ہر ہاتھ کو محنت اور ہنر کی چمک سے بھر دیا۔
ایسے ہی چند ہزار لوگوں نے امید اور عزم کے چراغ روشن کرتے ہوئے مسلم لیگ اور قائداعظم کے ساتھ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ وہ چند ہزار جب ڈینگ شیاؤ پھنگ کے ساتھ متحد ہوئے تو دنیا نے چین کا معجزہ دیکھا جہاں ہر شہر، ہر کارخانہ، ہر سڑک ایک خواب کی حقیقت بن گئی۔ چند ہزار لوگوں نے رین زینگ کے ساتھ مل کر ایک عام سی کمپنی ہواوے کو عالمی عروج تک پہنچا دیا اور جدید ٹیکنالوجی نے ہر ذہن، ہر ہاتھ اور ہر آنکھ کو حیرت میں مبتلا کردیا۔
سوچیے کتنی طاقت ہے ان چند ہزار میں۔ اگر یہ چند ہزار پاکیزہ مقصد کے لیے اکٹھے ہوں تو قومیں تعمیر کر سکتے ہیں، دنیا بدل سکتے ہیں اور تاریخ کے دھارے کو موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر بدقسمتی سے چند ہزار اگر برے ارادوں کے ساتھ جمع ہوجائیں تو تاریکی پھیلا سکتے ہیں تباہی مچا سکتے ہیں اور یہ کوئی مبالغہ نہیں، بلکہ ایک خوفناک حقیقت ہے جو ہر روز ہمارے اپنے ملک کی گلیوں، بازاروں، دفاتر اور نیوز ہیڈ لائنز میں اپنی تلخی کے ساتھ جھلکتی ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے گھروں، دفاتر، بازاروں اور دوستوں کی بیٹھکوں میں ایک خوفناک سوال گونجتا ہے۔ کیا پاکستان میں مذہبی جنونیت اتنی گہری ہوچکی ہے کہ واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا؟ اکثر احباب کہتے ہیں کہ شدت پسندی نے خطرناک حدیں پار کرلی ہیں اور یہ زہر پورے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے اور جب ہر روز خبروں میں مذہب کے نام پر قتل، علمائے کرام پر مقدمات اور ریاست کے خلاف نام نہاد جہاد کے اعلانات نظر آتے ہیں تو یہ خوف محض خیالی نہیں بلکہ حقیقت کا ننگا چہرہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ خوف ناک حقیقت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کریں اور ہر نظریہ احتیاط سے پیش کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ بات کسی کے عقیدے یا سیاسی نظریے سے ٹکراؤ کا باعث بن جائے۔
اس تمام صورت حال کے باوجود میرے خیال میں آج بھی معاشرے میں امید کی یہ کرن زندہ ہے کہ ہم پوائنٹ آف نو ریٹرن سے کوسوں دور ہیں اور ابھی وقت ہمارے ہاتھ سے پوری طرح نہیں نکلا۔ عوامی سطح پر نظر ڈالیں تو یہ معاشرہ مجموعی طور پر انتہاپسندی سے آزاد ہے۔ سڑک پر نکلیں، مختلف لوگ جن میں غریب و امیر، مرد و عورت، پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب شامل ہوں اور آپ ان سے بات کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اکثریت مذہبی شدت پسندی کے خلاف ہے۔ لوگ اپنے دین سے محبت کرتے ہیں مگر وہ جنونی نہیں ہیں۔ یقیناً کچھ سخت نظریات رکھنے والے ملیں گے مگر وہ اقلیت میں ہیں جن کا شمار آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔
اب ریاستی زاویے سے دیکھیں۔ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں غیر مذہبی شناخت رکھتی ہیں اور عوام نے ہمیشہ مذہب کے بجائے اپنے مسائل، قیادت اور روزگار کی بنیاد پر ووٹ دیا۔ فوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور میڈیا میں بھی مذہبی شدت پسندی نے جڑ نہیں پکڑی۔ ہاں انفرادی سطح پر ان اداروں میں کچھ لوگ موجود ہوسکتے ہیں مگر مجموعی طور پر اکثریت توازن پسند اور حقیقت پرست ہے۔
معاشرتی رویے بھی یہی بتاتے ہیں کہ ہماری اکثریت اپنی روزمرہ زندگی میں انتہاپسندی سے دور ہے۔ ہمارا معاشرہ نہ مغرب جیسا مکمل آزاد ہے نہ ہی افغانستان جتنا سخت اور تنگ نظر۔ ہم اپنے دین سے محبت کرتے ہیں، نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں، عمرہ و حج ادا کرتے ہیں مگر زندگی کی خوشیوں سے لطف اٹھانے میں کوئی کمی نہیں دکھاتے ہیں۔ خواہشات رکھتے ہیں اور ایک نارمل زندگی جینا چاہتے ہیں اور یہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر شدت پسندی بڑھ کیوں رہی ہے؟ وجہ دراصل بہت سادہ ہے۔ برسوں سے مذہبی گروہوں کو مختلف مصلحتوں کے تحت کھلی چھوٹ دی گئی اور اسی کھلی چھوٹ نے ان مذہبی گروہوں میں طاقت کی بھوک میں مبتلا کچھ افراد کو اثرورسوخ کی ہوس میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے فرقوں کے درمیان موجود صدیوں پرانے اختلافات کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور اسے عوام کے جذبات کو بھڑکانے کا موقع بنالیا۔
فرقہ پرستی ہمارے معاشرے کا کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ برصغیر میں یہ صدیوں پرانا مسئلہ ہے جو آج بھی خطے کے لوگوں کو نسلوں سے تقسیم کر کے رکھے ہوئے ہے۔ کچھ دنیا پرستوں کو چھوڑ کر عام لوگ آج بھی اس تقسیم کے باوجود محض اللّہ اور اس کے نبی ﷺ کی محبت میں ایک دوسرے کے لیے حد میں رہتے ہوئے نرمی یا فاصلے محسوس کرتے ہیں لیکن مطالعاتی کمی اور تحقیق کے رجحان سے عدم دل چسپی نے کچھ شرپسند افراد کے لیے اس تقسیم کو ایک نادر موقع میں تبدیل کردیا۔
یہ لوگ اپنی شعلہ بیانی کے ذریعے اسلام کے تشخص، حدیث اور تاریخی واقعات میں من گھڑت کہانیاں گھڑ کر عام لوگوں کے جذبات کو مہمیز دیتے ہیں اور عام سادہ لو لوگوں کی اسلام سے محبت کو غلط سمت میں استعمال کرتے ہیں یوں حقیقت کا رخ بدل کر عام لوگوں کے عقائد اور جذبات کو اشتعال انگیز بنایا جاتا ہے اور شدت پسندی کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور اپنے ان اعمال کے دفاع کو مذہب کی حرمت سے جوڑ کر اپنے دنیاوی اہداف کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے۔
لیکن یہ مسئلہ صرف ہمارا نہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر خطے نے اپنے دور میں مذہب یا نسل کے نام پر جنونیت کا زہر چکھا ہے۔ امریکہ میں کو کلس کلان جیسی خفیہ تنظیم نے سفید فام برتری کے نام پر سیاہ فاموں پر ظلم ڈھائے۔ یورپ میں ’’نیو نازی ازم‘‘ نے نسل پرستی کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی۔ سربیا میں ارباز ملیشیا، جنوبی یورپ میں ابھرنے والی بے شمار انتہاپسند تنظیمیں، جاپان میں نیشنل سوشلسٹ جاپانیز ورکرز پارٹی اور بھارت میں آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی، سب نے مذہب یا نسل کے نام پر نفرت کا کاروبار کیا۔
فرق صرف یہ ہے کہ بھارت کو چھوڑ کر ان ممالک نے آخرکار ان گروہوں کو ریاستی طاقت سے قابو کیا۔ وہاں ریاست نے کوئی مصلحت نہیں دکھائی بلکہ قانون حرکت میں آیا۔ انتہا پسند قتل و غارت میں ملوث تھے تو انہیں پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں، کئی کو عمر قید ہوئی اور ان کی تنظیموں پر مکمل پابندیاں عائد کی گئیں۔ پارلیمان نے ایسی ملیشیاؤں کے خلاف واضح قانون سازی کی اور ان کے جلسے جلوس اور نفرت انگیز تقاریر سب جرم قرار پائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں ریاست نے مذہب، رنگ و نسل کے نام پر گندی سیاست کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لا کر معاشرے کو دوبارہ سانس لینے کا موقع دیا۔ وہاں نفرت کو رائے نہیں، جرم سمجھا گیا اور یہی وجہ تھی ہے کہ وہاں ریاست جیت گئی۔
پاکستان میں ریاست کی مصلحت آمیز خاموشی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی کہ جہاں محض وقتی سیاسی فوائد کے لیے بعض جماعتوں کی سرگرمیوں پر آنکھیں بند کرنا انہیں وہ موقع فراہم کرگیا جس کا فائدہ انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اٹھایا۔ آج جب اُن کی کارروائیاں حد سے بڑھ گئیں تو قابو پانا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ جماعتیں پارلیمنٹ تک پہنچ گئیں، ان کے راہ نما بغاوت کے فتوے جاری کرتے رہے اور ریاست اکثر خاموش تماشائی بنی رہی۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان میں احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے مگر اس حق کو استعمال کرنے کے لیے آئین پاکستان کچھ فرائض پر بھی توجہ دلواتا ہے مگر جب اسی جماعت کے بیانات اور کارروائیوں سے براہِ راست یا بلاواسطہ جڑے حادثات گننے شروع کیے جائیں تو حقیقت کچھ اور ہی نکلتی ہے۔
پچھلے دس سالوں میں ایسی انتہاپسند جماعتوں میں سے ایک کے کارکنوں کے ریکارڈ میں وینڈلزم، موب جسٹس، لنچنگ، گلیوں میں گھسیٹنا، لاشوں کی بے حرمتی کے واقعات درج ہیں اور اس دوران براہِ راست یا بالواسطہ طور پر قومی خزانے کو تقریباً پینتیس ارب روپے کا خسارہ بھی پہنچا۔ سیالکوٹ فیکٹری کا واقعہ ہو یا اقلیتوں خاص طور پر عیسائی آبادی کو نذرِ آتش کیا جانا ہو یا اُن کے خلاف منظم تشدد ہو تو سوال اٹھتا ہے کیا انہیں ایک جمہوری سیاسی جماعت سمجھنا درست ہے یا انہیں ایک مسلح جتھے کی فہرست میں رکھنا چاہیے؟
جس آئین پاکستان کو یہ لوگ اپنے احتجاج کے حق میں بطور دلیل استعمال کرتے ہیں اسی آئین کے آرٹیکل دو سو چھپن میں صاف لکھا ہے کہ کوئی بھی نجی تنظیم جو فوجی تنظیم کی شکل میں کام کرے گی اسے بنانے کی اجازت نہیں ہو گی اور ایسی تنظیم غیرقانونی سمجھی جائے گی۔ دنیا بھر میں جب کوئی تنظیم عوام کی جان و مال چھیننے لگتی ہے، قتل و غارت کرتی ہے اور ریاست کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے تو ریاست کا فرض مؤثر اور بروقت اقدامات کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہی ہے کہ ہم نے کیونکر اتنی دیر کر دی کہ اب قدم اٹھانا دشوار سا محسوس ہو رہا ہے؟
اس انتہاپسندی کا ایک سبب وہ لوگ بھی ہیں جو خود کو ترقی پسند کہلوانا پسند کرتے ہیں مگر ایسے گروہوں کے حق میں احتجاج کے نام پر دلیلیں دیتے نہیں تھکتے۔ ان خواتین و حضرات سے گزارش ہے کہ کبھی اُن گھروں تک جائیں جہاں ان کے اس جمہوری حق احتجاج کے نتیجے میں لاشیں جلیں، بچوں کے باپ مارے گئے یا ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں۔ وہاں جا کر انہیں بتائیں کہ قاتل دراصل دینی یا سیاسی کارکن تھے جو صرف احتجاج کر رہے تھے۔ شاید تب انہیں اندازہ ہو کہ فلسفے اور فریب کے درمیان لکیر کتنی باریک ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہبی شدت پسند کسی بحث یا منطق کے اہل ہی نہیں۔ وہ دلیل کو نہیں صرف آواز کو طاقت سے دباتے ہیں۔ وہ سوال کرنے والے کو واجب القتل قرار دیتے ہیں اور جب بحث ختم ہوجائے تو نعرہ لگتا ہے، تشدد بولتا ہے اور لاشیں گرتی ہے۔ ایسے لوگوں کو سمجھانے کی نہیں روکنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ خود اسی آزادی کو ختم کرنے اٹھتے ہیں جس کے سائے میں ان کو بولنے کی اجازت ملتی ہے۔ جو شخص ان کے حقوق کی بات کرتا ہے وہ دراصل مذہب نہیں بلکہ بدنظمی کا حامی ہے۔ ان کے سیاسی حقوق وہی ہیں جو ٹی ٹی پی، طالبان یا بوکو حرام جیسے گروہوں کے ہو سکتے ہیں یعنی صرف انصاف کا کٹہرا۔
ریاست اگر چاہے تو ان کا زور چند سالوں میں ٹوٹ سکتا ہے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا ریاست واقعی ایسا چاہتی بھی ہے؟ اصل زخم قیادت کا ہے وہ ڈرتی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں جرأت کی جگہ مصلحت نے لے لی ہے۔ کسی کو ووٹ کا خوف ہے، کسی کو فتوے کا اور یوں ریاست، ایک زندہ وجود ہونے کے بجائے کاغذی اعلانات، وقتی پابندیوں اور سیاسی بیانوں کے خول میں جیسے پھنس کر رہ گئی ہے۔ کسی گروہ پر پابندی لگا دینا بہت آسان ہے مگر نظریہ پابندی سے خاطرخواہ متاثر نہیں ہوتا بلکہ وہ زمین کے نیچے بھی سانس لیتا رہتا ہے۔ لہذا اصل جنگ فہم کی ہے، شعور کی ہے اور یہی وہ جنگ ہے جس سے ہم کتراتے ہیں۔
اب ہمیں ایک متحد، واضح اور بے خوف بیانیہ اپنانا ہوگا۔ ایسا بیانیہ جو سیاست داں کے نفع نقصان سے نہیں، ریاست کے ضمیر سے نکلے۔ یہ لڑائی نعرے سے نہیں جیتی جا سکتی بلکہ اس کے لیے ٹھوس، مسلسل اور بے لاگ حکمتِ عملی چاہیے۔ ایسی حکمتِ عملی جو چار سمتوں میں پھیلی ہو۔ جو معاشی انصاف پر مبنی ہو تاکہ غربت کسی مذہبی یا سیاسی رہنما کے ہاتھوں جذباتی غلامی میں نہ بدلے، جس کی بنیاد شفاف سیاست پر ہو تاکہ جھوٹا سیاسی و مذہبی لبادہ ووٹ کے لیے استعمال نہ ہو۔ جہاں قانون کی بالادستی ہو تاکہ نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کے مرتکب افراد کسی سیاسی آشیرباد سے بچ نہ سکیں اور جہاں معاشرتی اصلاح کی طرف سفر کی سمت طے ہو سکے تاکہ جہالت کا وہ ایندھن ختم ہو جو انتہاپسندی کو زندہ رکھتا ہے۔
ساتھ ہی ہمیں منبر و محراب پر بیٹھے معتدل آوازوں کو آگے لانا ہوگا تاکہ وہ شدت پسندی کے شور میں ہوش کی بات کر سکیں۔ نوجوانوں کے ہاتھ میں صرف سوشل میڈیا کا مائیک نہیں بلکہ علم، شعور، روزگار اور سمت دینے کا انتظام بھی کرنا پڑے گا ورنہ وہی ہاتھ جو آج نعرے لگاتے ہیں کل پتھر بھی اٹھا سکتے ہیں۔
یہ لڑائی آسان نہیں۔ اصل جنگ فہم کی ہے، شعور کی ہے اور یہی وہ میدان ہے جس میں ہم ہمیشہ ہارے ہیں۔ یہاں ماضی کے منافع خور موجود ہیں، وہی چہرے، وہی مفادات۔ مگر اب فیصلہ جرأت کا ہے۔ ریاست اگر چاہے تو آج بھی وہی کرسکتی ہے جو کل اس نے سنی اور شیعہ کے درمیان فاصلوں کو کم کر کے کیا تھا۔ شرط صرف عزم ہے، وہ عزم جو ووٹ کی لالچ میں نہیں بلکہ ضمیر کی آواز سے جنم لیتا ہے۔
یہ معرکہ سیاسی نہیں وجودی ہے۔ یہ ہمارے بچوں، ہمارے مذہب ہمارے معاشرے اور ہمارے خوابوں کا سوال ہے۔