Express News:
2025-10-04@16:50:06 GMT

رابرٹ ریڈ فورڈ

اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT

ہالی وڈ کے سنہری عہد کی یاد آتے ہی ذہن میں ایک ایسی شخصیت ابھرتی ہے جس نے فلم کو خواب کی لطافت اور فن کی گہرائی بخشی۔ روشنیوں اور شہرت کے اس دائرے کے پیچھے ایک ایسا فنکار تھا جو روایت شکن سوچ رکھتا تھا، کہانی کو محض تفریح نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری سمجھتا تھا، فطرت اور انسانی آزادی کا وکیل تھا، اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا معمار جس نے سینما کو ایک تحریک کا روپ دیا جی ہاں! یہ لیجنڈری شخصیت رابرٹ ریڈ فورڈ ہیں۔

 جن کا نام آتے ہی ذہن میں ہالی وڈ کے سنہری عہد کی وہ روشن تصویر ابھرتی ہے، جس میں ایک طرف فلم ایک خواب تو دوسری طرف خالص فن تھی۔ غیر روایتی سوچ رکھنے والے اس عظیم انسان نے امریکی سینما کو ایک باقاعدہ تحریک میں بدل دیا۔ 1936ء میں کیلی فورنیا (امریکا) کے شہر سانتا مونیکا میں جنم لینے والا یہ فنکار محض باکس آفس سٹار نہیں تھا بلکہ اس نے آنے والی نسلوں کے لیے ایسی راہیں ہموار کیں جن پر چل کر سینما کے نئے مسافر اپنی آواز دنیا تک پہنچا سکیں۔

ریڈفورڈ نے بیچلر ڈگری کے لیے یونیورسٹی آف کولوراڈو کا انتخاب کیا، پھر یورپ میں آرٹ کی تعلیم اور بالآخر نیویارک کی امریکن اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹس میں تربیت حاصل کی اور یہ سب اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ وہ محض اداکاری نہیں سیکھ رہا تھا بلکہ وہ اپنے دیکھنے، سمجھنے اور بیان کرنے کے زاویے بنا رہا تھا۔

بروڈوے پر معروف امریکی لکھاری نیل سائمن کے کھیل ’’بیئر فوٹ اِن دی پارک‘‘ میں کامیابی نے اس نوجوان کو ایسی شناخت دی، جس نے ہالی وڈ کے در تک پہنچا دیا۔ فلمی دنیا میں قدم رکھتے ہی اس نے جلد ثابت کر دیا کہ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ گہرائی میں اترنے والا اداکار ہے۔1969ء میں پال نیومن کے ساتھ ’’بچ کیسیڈی اینڈ دی سنڈینس کِڈ‘‘ نے اسے سپر سٹار بنا دیا اور یہی وہ کردار تھا جس کے نام پر بعد میں ایک پورا ادارہ، ایک فلمی تہوار، اور ایک تخلیقی فلسفہ (سنڈینس فلم فیسٹیول) تشکیل پایا۔

1970ء کی دہائی ریڈفورڈ کے لیے ’’شہرت اور سنجیدگی‘‘ دونوں کی دہائی تھی۔ دی سٹِنگ (1973ء)، دی وے وی ور (1973)، دی کینڈڈیٹ (1972ء)،جیریمیہ جانسن (1972ء)، ،تھری ڈیز آف دی کونڈور (1975ء) اورآل دی پریذیڈنٹس مین (1976ء)، دی نیچرل (1984ء)، سنی کرز (1992ء)، اِن ڈیسنٹ پروپوزل (1993ء)، سپائے گیم(2001ء)، آل اِز لاسٹ(2013ء) اور کیپٹن امریکہ: دی ونٹر سولجر (2014) نے پوری دنیا میں ان کے فن کی دھاک بٹھا دی۔

1980ء میں ریڈفورڈ نے ایک نئی سمت اختیار کی یعنی وہ کمیرے کے سامنے کے بجائے بطور ہدایت کار پیچھے پہنچ گئے۔ فلم ’’آرڈنری پیپل‘‘ ان کا بطور ہدایت کار پہلا تجربہ تھا جس نے نہ صرف ناظرین کو چونکایا بلکہ اکیڈمی ایوارڈ برائے بہترین ہدایت کار بھی ان کے نام کیا۔ یہ فلم ایک متمول مگر جذباتی طور پر بکھرے گھر کی کہانی ہے، جس میں تراش خراش اور خاموشیوں کے بیچ درد اور امید ساتھ چلتے ہیں۔ ریڈفورڈ کی ہدایت کاری میں اخلاقیات، سادگی اور مضبوط کہانی جیسی نمایاں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

تاہم اگر کوئی ایک کام ریڈفورڈ کے کریئر کو سب سے زیادہ ممتاز بناتا ہے تو وہ سنڈینس ہے۔ 1969ء میں یوٹا(امریکا) کی وادیوں میں زمین خرید کر انہوں نے ایک چھوٹا سا ریزورٹ بنایا، جسے وہ ‘‘سنڈینس’’ کہنے لگے۔ وہاں سے شروع ہونے والا یہ خواب 1981ء میں ایک باقاعدہ ادارے یعنی سنڈینس انسٹی ٹیوٹ کی صورت اختیار کر گیا، جس کا مقصد واضح تھا یعنی انڈی فلم میکرز کے لیے محض نمائش نہیں، تربیت، رہنمائی اور مکالمہ۔ سکرین رائٹنگ لیبز، ڈائریکٹنگ ورکشاپس، اور پھر فلم فیسٹیول، یہ سب مل کر ایک ایسا ماحولیاتی نظام بن گئے جس نے امریکی آزادانہ سینما کی شکل ہی بدل دی۔

کوئنٹن ٹیرینٹینو کی ریزروائر ڈاگز، سٹیون سوڈربرگ کی سیکس، لائز اینڈ ویڈیو ٹیپ، کوئن برادرز کی بلڈ سمپل، ڈیرن ایرونوفسکی کی ریکوئیم فار اے ڈریم، ڈیمیئن شیزیل کی وِپلَیش اور گیٹ آؤٹ جیسی بے شمار فلمیں سنڈینس کی چھت تلے بنائی گئیں۔ ریڈفورڈ کی بصیرت صرف فلم سازی تک محدود نہیں رہی۔ وہ طویل عرصہ تک ماحولیاتی تحریک کے سرگرم کارکن رہے۔

یوٹا کے پہاڑوں اور کھلی فضاؤں سے ان کی محبت نے انہیں قدرتی وسائل کے تحفظ، موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات اور مقامی آبادی کے حقوق کی آواز بنائے رکھا۔ اپنے خاندان کے ساتھ انہوں نے ’’دی ریڈفورڈ سینٹر‘‘ کے ذریعے ایسی دستاویزی فلموں اور پروجیکٹس کی سرپرستی کی، جو ماحول اور سماج کے متعلق آگاہی بڑھائیں، پالیسی سازی پر اثر ڈالیں اور عام آدمی تک پیچیدہ موضوعات کو دلکش طریقے سے پہنچائیں۔

یہ سرگرمیاں بتاتی ہیں کہ ریڈفورڈ کے لیے فن صرف ذوق کی تربیت نہیں بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری تھی۔ لیجنڈری فن کار و ہدایت کار کے ایوارڈز کی فہرست بھی چھوٹی نہیں،بہترین ہدایت کار کا آسکر، 2002ء کا اعزازی اکیڈمی ایوارڈ، 2005 کے کینیڈی سنٹر آنرز اور 2016ء میں صدر باراک اوباما کے ہاتھوں ملنے والا ’’پریزیڈینشل میڈل آف فریڈم‘‘ یہ سب ریڈفورڈ کی اس اجتماعی خدمات کا اعتراف ہیں جو انہوں نے امریکی ثقافت، آزادیِ اظہار اور ادارہ سازی کے لیے انجام دیں۔

رابرٹ ریڈفورڈ کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز نے ان کی کردار سازی میں نہایت اہم کردار ادا کیا، جوانی میں ماں کے انتقال کا صدمہ، ابتدائی دور میں کم سن بیٹے کی موت اور پھر زندگی کے اواخر میں بیٹے جیمز ریڈفورڈ کے بچھڑ جانے کا دکھ، ان سب واقعات نے ان کے فن میں ایک غیر مرئی سنجیدگی پیدا کی۔

وہ اکثر اپنی زندگی کے بارے میں کم بولتے ہیں، مگر ان کی فلموں کی خاموشیاں، کرداروں کی نگاہیں اور ان کے اداروں کی خدمات یہ کہہ دیتی ہیں کہ انسان اپنے ذاتی دکھوں سے اوپر اٹھ کر بھی دوسروں کے لیے امید کی روشنی بن سکتا ہے۔

9 اگست 1958ء کو لاس ویگاس میں ریڈفورڈ نے امریکن تاریخ دان اور سماجی رہنما لولا وین ویگنن سے شادی کی، یہ رشتہ ایک خاندان میں ڈھلا اور چار بچوں کی صورت میں ثمر آور ہوا (اسکاٹ اینتھنی، شاؤنا جین، ڈیوڈ جیمز اور ایمی ہارٹ) مگر خوشیوں کے اس سفر میں دکھ کا پہلو بھی شامل رہا، اسکاٹ محض ڈھائی ماہ کی عمر میں اچانک موت کا شکار ہوگیا۔ شاؤنا مصوری کے میدان میں اپنی پہچان رکھتی ہیں اور مشہور صحافی ایرک شلوسر کی شریکِ حیات ہیں۔ ڈیوڈ جیمز نے بطور مصنف اور پروڈیوسر شہرت حاصل کی، مگر 2020ء میں کینسر کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے۔

ایمی ہارٹ نے اداکارہ، ہدایت کارہ اور پروڈیوسر کے طور پر ایک منفرد مقام بنایا۔ اس خاندان کی خوشبو سات نواسوں اور نواسیوں کی صورت میں مزید پھیلی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈفورڈ اور لولا نے کبھی اپنی علیحدگی یا طلاق کا باضابطہ اعلان نہیں کیا تاہم 1982ء میں کالم نگار شرلی ایڈر نے لکھا کہ دونوں کئی برسوں سے ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ 1984ء میں جب ریڈفورڈ فلم ’’آوٹ آف افریقہ‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھے، اسی دوران وہ طلاق کے معاملات طے کر رہے تھے۔

کئی برس بعد، 11 جولائی 2009ء کو ریڈفورڈ نے اپنی دیرینہ رفیقہ سبائل زاگارز سے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں شادی کی۔ سبائل 1996ء میں سنڈینس، یوٹاہ کے ان کے گھر میں منتقل ہوچکی تھیں اور برسوں تک ان کے ساتھ رہیں۔ ریڈفورڈ کی اصل رہائش سنڈینس ریزورٹ، یوٹاہ ہی رہی، لیکن ان کا ایک خوبصورت مکان ٹبیرون، کیلیفورنیا میں بھی تھا، جو 2024ء میں فروخت کردیا گیا۔ اس کے علاوہ وہ سانتا فی، نیو میکسیکو میں بھی ایک جائیداد کے مالک تھے۔

 2018ء میں ہالی وڈ کے لیجنڈ نے بطور اداکار ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا لیکن ریٹائرمنٹ کا مطلب ان کے ہاں تھک جانا نہیں بلکہ سمت بدل لینا ہے۔ وہ مرتے دم تک سنڈینس انسٹی ٹیوٹ اور مختلف فلاحی منصوبوں کے ذریعے نوجوان فلمسازوں کی پیٹھ تھپتھپاتے رہے۔ ریڈفورڈ نے دکھایا کہ اگر ایک سٹار اپنی شہرت کو ادارہ سازی کے لیے وقف کر دے تو ایک نئی دنیا جنم لے سکتی ہے۔ سنڈینس کا ماڈل…جس میں تربیت، رہنمائی، اور آزادانہ بیانیے کو محفوظ جگہ میسر آتی ہے، کسی بھی فلمی دنیا کے لیے مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔ ریڈفورڈ کی شخصیت میں ایک خوبصورت تضاد بھی ہے، ایک طرف وہ کلاسیکی سٹار سسٹم کی نمائندگی کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ اسی نظام کے باہر کھڑے آزاد بیانیے کے سب سے بڑے مددگار ہیں۔ یہی تضاد انہیں منفرد بناتا ہے۔

عمر کی آخری منزل پر جہاں اکثر سٹارز اپنی ماضی کی چمک کو بیچتے دکھائی دیتے ہیں، ریڈفورڈ نے اپنے ماضی کو مستقبل کے لیے وقف کردیا۔ ان کے انسٹی ٹیوٹ کی لیبز میں آج بھی سپنوں کی آنکھوں والے نوجوان اسکرپٹس لے کر آتے ہیں، اور وہاں انہیں استادوں کے ساتھ ’’بات‘‘ کرنے کا موقع ملتا ہے۔

لہذا رابرٹ ریڈفورڈ کا ورثہ صرف ایوارڈز، ہٹ فلموں یا عالمی اعزازات کا نام نہیں۔ یہ ورثہ ایک اخلاقی پوزیشن ہے کہ فن میں بھی ذمہ داری ہے، شہرت کا بہترین مصرف اس سے آگے کے لیے راستہ کھولنا ہے، ادارہ سازی سٹارڈم سے بڑی چیز ہے اور یہ کہ اچھی کہانی دنیا بدلتی ہے، بشرطیکہ اسے کہنے والوں کو راستہ، تربیت اور حوصلہ میسر آئے۔ آج شوبز کی دنیا کا عظیم رہنما دنیائے فانی سے جا چکا لیکن ان کا نام آنے والے برسوں میں بھی صرف ’’یاد‘‘ نہیں بلکہ ’’استعمال‘‘ بھی کیا جائے گا۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہدایت کار نہیں بلکہ میں ایک کے ساتھ میں بھی کے لیے

پڑھیں:

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

سلطانہ کی عمر ستر سال ہے، شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، اپنی بیٹی کے ہاں مقیم ہیں، یہ ایک ایسی خاتون ہیں جو ہر کسی کے کام آتی تھیں، کہیں کسی کے بارے میں سنا کہ وہ بیمار ہے، یہ فوراً وہاں پہنچ جاتی تھیں۔

نہ پیسے کی لالچ نہ کسی اور چیز کی، میرا جب چار سال پہلے ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو اسپتال میں یہی میرے ساتھ تھیں، پھر دو سال پہلے میرا پتّے کا آپریشن ہوا تو بھی میرے ساتھ تھیں، اور انھوں نے میری بڑی خدمت کی، مجھے بستر سے نہیں اٹھنے دیا۔

اسی طرح ان کا دال دلیہ چلتا رہتا تھا، شوہر جب ملازمت کرتے تھے تو ایک آدمی کے کمانے سے پورا نہیں پڑتا تھا، یہ بھی اپنے شوہر کا ساتھ دینے کے لیے گھر سے نکل پڑیں۔

پڑھی لکھی زیادہ تھیں نہیں، اس لیے کوئی اچھی ملازمت تو نہ کر سکیں، البتہ بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کھانا پکانے کی نوکری کر لی۔

طارق روڈ پر ایک گھر میں انھوں نے ملازمت کر لی۔ ہاتھ میں ذائقہ ہے، تعلق دہلی سے ہے، اس لیے جو ان کے ہاتھ کا کھانا کھاتا ہے وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ طارق روڈ پر ہی تین گھروں میں یہ کھانا پکاتی تھیں۔

اچھی خاصی گزر بسر ہو رہی تھی، اسی نوکری میں انھوں نے بیٹیوں کی شادیاں کیں، خود غریب تھیں اس لیے بیٹیاں بھی غربت میں بیاہی گئیں۔ پھر شوہر کو شوگر ہو گئی اور زیادہ سگریٹ نوشی سے ان کے پھیپھڑے متاثر ہو گئے تو انھوں نے نوکری چھوڑ دی۔

اب سلطانہ پر زیادہ ذمے داری آن پڑی، غیرت مند تھیں اس لیے کسی سے کچھ کہتی نہ تھیں، البتہ خوشی اور غم دونوں میں یہ شریک ہو جاتی تھیں، شوہر کو غصہ بھی بہت آتا تھا، سلطانہ غریب گھر کی غریب بیٹی تھیں، اس لیے دکھ سہنے کا تجربہ تھا۔

شوہر گھر میں رہنے کی وجہ سے چڑچڑے ہو گئے تھے، انھیں صبح صبح ناشتہ درکار ہوتا تھا، یہ فجر کے بعد اٹھ کر شوہر کو ناشتہ بنا کر دیتی تھیں، پھر اپنے کام پر چلی جاتی تھیں، شوہر بھی پنج وقتہ نمازی تھے، چونکہ بیوی نوکری کر رہی تھی، اس سے ان کی ایکو ہرٹ ہوتی تھی لہٰذا اکثر و بیشتر غصہ کیا کرتے تھے۔

ایک بیٹی قریب ہی رہتی تھی لہٰذا دوپہر کا کھانا وہ باپ کو نکال کر دے دیتی تھی۔ سلطانہ فجر کے بعد کھانا پکا کر جاتی تھیں اور شام کو آ کر شوہر کی ٹانگوں کی مالش کرتیں، انھیں چائے بنا کر دیتیں اور پھر رات کا کھانا تیار کرتیں، میاں بیوی دونوں نمازی تھے، سلطانہ تو تہجد گزار بھی تھیں، میں انھیں طویل عرصے سے جانتی ہوں۔

انھوں نے کچھ عرصہ میرے گھر بھی کھانا پکایا ہے، میرے شوہر تو ان کے ہاتھ کے کھانوں کے شیدائی تھے۔ انھوں نے کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں، اس لیے مجھے بھی ان کے ان حالات کا علم نہ ہو سکا جس کی شکار یہ شوہر کے انتقال کے بعد ہوئیں۔

میں ان کے شوہر کے انتقال پر ان کے گھر بھی گئی، انھوں نے عدت کے دن گھر پر گزارے جب کہ ان کی جو عمر تھی اس میں مولوی صاحب نے بتایا کہ ان پر عدت لازم نہیں ہے لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا کہ عدت واجب تو نہیں ہے لیکن کر لیں تو شوہر کی روح کو ثواب ملے گا سو انھوں نے پوری مدت کی عدت کی اور گھر بیٹھی رہیں۔

جو جمع پونجی تھی وہ ختم ہو گئی، ان کی ملازمت ختم ہو گئی، کون اتنے لمبے عرصے کی غیر حاضری برداشت کرتا، مجھ سے جو کچھ ہو سکتا تھا وہ میں کر دیتی تھی۔ چند دن پہلے ان کی بیٹی میرے پاس گھر آئی اور مجھے ساتھ لے کر سلطانہ کے پاس پہنچ گئی۔

یہ وہ سلطانہ نہیں لگ رہی تھیں جن سے میں واقف تھی، پتا چلا کہ شوہر کے انتقال کے بعد ایک صاحب حیثیت رشتے دار نے انھیں دس ہزار روپے دینا شروع کیا، لیکن کچھ عرصہ قبل ان کا بھی انتقال ہو گیا اور یہ مدد سے محروم ہو گئیں۔

یہ بہت بیمار رہنے لگی ہیں، دل کی تکلیف ہے، بڑی باہمت خاتون ہیں، یہ جناح اسپتال جاتی تھیں اور اپنی دوائیں لے کر آتی تھیں۔ اسپتال جانے کے لیے یہ رکشہ کرتی تھیں اور رات کو ہی وہاں جا کر دری بچھا کر لیٹ جاتی تھیں۔

پھر صبح فجر کے وقت ٹوکن ملتے تھے اور پھر صبح نو دس بجے ڈاکٹروں کے پاس جانا ہوتا تھا۔ یہ ہفتے بھر کی دوائیں لے آتی تھیں، پھر یوں ہوا کہ دو بار یہ سیڑھیوں سے گر گئیں، ان کے کولہے میں چوٹ لگی۔

اب علاج کرائیں تو کیسے؟ ان کی بیٹی بھی غریب ہے وہ بھی جاب کرتی ہے، اس کے حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ وہ ماں کا علاج کرا سکے۔ مجھے یہ سب دیکھ کر بہت افسوس ہوا، لاچاری اور بے چارگی کی تصویر بنی سلطانہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

گزشتہ ایک سال سے ان کی دوائیں بند ہیں، ایک ہفتے کی دوائیں پانچ ہزار کی آتی ہیں، چوٹ لگ جانے کی وجہ سے اب اسپتال نہیں جا سکتیں، پھر اسی پر اکتفا نہیں بلکہ دایاں ہاتھ ان کا کام نہیں کرتا۔ بیٹی نے کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے فزیو تھراپی کا مشورہ دیا۔

اب پیسے تو ہیں نہیں فزیو تھراپسٹ کوئی بھی گھر آنے کے ایک دن کے دو ہزار سے کم نہیں لیتے۔ فی زمانہ لوگوں میں ہمدردی کا جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے، پھر بھی میں نے ایک اسپتال میں بات کی تو ایک صاحبہ پندرہ سو پہ راضی ہو گئیں، لیکن روزانہ کے پندرہ سو آئیں کہاں سے؟ آج ہر انسان ضرورت مند ہے، مہنگائی نے ناطقہ بند کیا ہوا ہے، مجھے بہت افسوس ہوا یہ سب دیکھ کر۔

ایک بے سہارا، لاچار اور مجبور عورت جسے بڑھاپے اور مہنگائی نے مار دیا ہے۔ میں نے جب بھی کسی ضرورت مند کے لیے کالم لکھا ہے تو قارئین نے بھرپور ساتھ دیا ہے، اس بار بھی آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ زکوٰۃ، خیرات یا کسی بھی مد میں جو بھی رقم آپ نکالیں وہ سلطانہ کو دے دیں۔

کیونکہ ایک ماہ کی فزیوتھراپی کے لیے جو رقم جائے گی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ پھر ہارٹ کی دوائیوں کے اخراجات الگ ہیں۔ میں نے انھیں دیکھا تو ان کی حالت پہ رونا آگیا، دل کی تکلیف کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت آگئی ہے۔

ان سے بولا نہیں جاتا، مجھے دیکھ کر انھوں نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ ان کی کسمپرسی پر میرا دل رو اٹھا، تب میں نے سوچا کہ ان کے لیے قارئین سے اپیل کروں، یہاں مخیر لوگوں کی کمی نہیں ہے، دو سال پہلے جب میں نے ’’سیما کی کہانی‘‘ والا کالم لکھا تھا تو لندن، کینیڈا اور پنجاب کے شہروں سے اتنی مدد آگئی تھی کہ سیما نے اپنے بیٹے کو یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دیا تھا، لندن کی شاہدہ صدیقی مسلسل دس ہزار روپے ماہانہ بھیجتی رہیں۔

اب وہ بیمار ہیں لیکن ہم سب ان کی صحت کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔ سلطانہ کی مدد کے لیے میں نے ان کے نواسے کا بینک اکاؤنٹ لکھوا دیا ہے۔ نواسے کا نام شہباز ہے، اس کا موبائل نمبر 0317-1092481 ہے، بینک اکاؤنٹ نمبر IBAN-PK37MEZN 0001520113080624 ہے۔ حالی نے کہا ہے:

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

سب کچھ یہیں رہ جائے گا، ساتھ جائے گا تو صرف اعمال نامہ جس میں سب سے زیادہ اہمیت ہوگی حقوق العباد کی۔ سلطانہ کی مدد کیجیے، میں چاہتی ہوں کہ جب تک سلطانہ زندہ ہیں ان کا دایاں ہاتھ کام کرنے لگے اور ان کی ہارٹ کی دوائیاں انھیں مل جائیں۔

سلطانہ پر بہت برا وقت پڑا ہے، بیٹی کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں، پھر بھی اس نے ماں کو رکھا ہوا ہے۔ سلطانہ کو ابھی میں نے کچھ نہیں بتایا ہے، اگر کہیں سے کوئی مدد آئی تو انھیں بتا دیں گے۔ انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ کبھی ایسی بھی افتاد ان پر پڑے گی، وہ کہتی ہیں کہ ان کا ہاتھ ٹھیک ہو جائے تو وہ طارق روڈ پر دوبارہ کھانا پکانے کا کام شروع کر دیں گی۔

لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا کہ اب وہ دوبارہ نوکری کر سکیں گی۔ ان کے حالات اور صحت بالکل اچھے نہیں ہیں، بس آپ لوگ رحم کیجیے، ایک بار پھر آپ کی شکر گزار ہوں گی۔

متعلقہ مضامین

  • جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی
  • کردار اور امید!
  • لال اور عبداللہ جان
  • نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین
  • گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
  • ٹشو پیپرز
  • غزہ: موت کے سائے میں صحافت
  • سیلاب سے معاشی نقصان