جی ایچ کیو حملہ کیس: عمران خان کو ویڈیو لنک ٹرائل پر بڑا ریلیف نہ ملا
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
جی ایچ کیو حملہ کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے ٹرائل کے خلاف درخواست پر عمران خان کو راولپنڈی ہائی کورٹ سے کوئی بڑا ریلیف حاصل نہیں ہو سکا۔ جسٹس صداقت علی خان اور جسٹس وحید خان پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سماعت کی، جس میں عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور فیصل ملک پیش ہوئے۔ عدالت نے ویڈیو لنک ٹرائل کو روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب کو نوٹس جاری کر دیے۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ ویڈیو لنک کا استعمال عمران خان کو ہدف بنانے کے لیے کیا گیا ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ جواب آنے دیں، پھر معاملہ دیکھیں گے۔ عدالت نے کہا کہ ویڈیو لنک کے ذریعے ٹرائل کا قانون موجود ہے، اس لیے اسے روکنا ممکن نہیں۔ چیف سیکرٹری کو 6 اکتوبر تک جواب جمع کروانے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ عدالتی اعتراضات کے بعد عمران خان نے ویڈیو لنک ٹرائل کے نوٹیفکیشن کو 24 ستمبر کو دوبارہ چیلنج کیا تھا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ویڈیو لنک
پڑھیں:
سپریم کورٹ: ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا، جسٹس ہاشم کاکڑ کے ذومعنی ریمارکس
فیصل آباد کی ایک ٹرائل کورٹ کی جانب سے پولیس افسر کے خلاف دی گئی آبزرویشنز کے معاملے کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران کمرۂ عدالت ہلکے پھلکے مکالموں سے گونج اٹھا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ اور ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈکوارٹر ملک جمیل ظفر کے درمیان دلچسپ تبادلۂ خیال پر عدالت میں قہقہے لگے۔
سماعت کے دوران ڈی آئی جی اسلام آباد ہیڈکوارٹر کے ہمراہ موجود وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ فیصل آباد کی ٹرائل کورٹ میں ایک فوجداری مقدمہ زیرِ سماعت تھا، جہاں عدالت نے گواہوں کی حاضری یقینی بنانے کا حکم جاری کیا۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کو وراثت سے محروم کرنا اسلام کے خلاف ہے، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
ان کے مطابق اُس وقت درخواست گزار ایس پی کے عہدے پر تعینات تھے اور ٹرائل کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان کے خلاف آبزرویشنز دی تھیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ صرف لوگوں کو جیل میں ڈالنا کافی نہیں، عدالتوں میں گواہوں کو پیش بھی کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرائل کورٹ کے جج خود جا کر گواہ نہیں لا سکتے۔
اسی دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے مسکراتے ہوئے شاہ خاور سے دریافت کیا کہ یہ جو آپ کے ساتھ پولیس آفیسر کھڑے ہیں، کیا یہی ڈی آئی جی ہیں۔
مزید پڑھیں:
جواب میں شاہ خاور نے بتایا کہ جی مائی لارڈ، یہی ہیں۔
جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ یہ دیکھیں یہ یہاں کھڑے ہمیں ڈرا رہے ہیں۔
انہوں نے ڈی آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ارے بھائی ہمارے پاس تو ویسے بھی اب کھونے کو کچھ نہیں بچا۔
ان ریمارکس پر کمرۂ عدالت میں ایک بار پھر قہقہے گونج اٹھے۔
مزید پڑھیں:جسٹس منصور شاہ جج نہیں رہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
بعد ازاں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ٹرائل کورٹ کی آبزرویشنز کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے چیمبر میں فیصلہ سناتے ہوئے ان آبزرویشنز کو برقرار رکھا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اپیل بحال کردی۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ہائیکورٹ نے انہیں سنے بغیر فیصلہ دیا۔
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ لاہور ہائیکورٹ معاملے کو میرٹس پر 2 ماہ کے اندر سن کر فیصلہ کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام اباد پولیس ٹرائل کورٹ جسٹس ہاشم کاکڑ ڈی آئی جی سپریم کورٹ لاہور ہائیکورٹ