ٹوٹے ہوئے عالمی نظام کو جوڑنے کی کوشش: ایک منصفانہ عالمی نظام کے لیے چینی صدر کا وژن
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
ٹوٹے ہوئے عالمی نظام کو جوڑنے کی کوشش: ایک منصفانہ عالمی نظام کے لیے چینی صدر کا وژن WhatsAppFacebookTwitter 0 29 September, 2025 سب نیوز
چائنا میڈیا گروپ اور انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کے اشتراک سے “گلوبل گورننس انیشی ایٹو” کے موضوع پر اہم سیمینار کا انعقاد
چائنا میڈیا گروپ (CMG) اور انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد (ISSI) کے باہمی اشتراک سے ایک اہم سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع تھا:”گلوبل گورننس انیشی ایٹو ، ایک منصفانہ عالمی نظام کے لیے چین کا وژن”
اس سیمینار میں چین کے صدرِ مملکت شی جن پھنگ کی جانب سے حال ہی میں پیش کیے گئے گلوبل گورننس انیشی ایٹو (GGI) پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
سیمینار کے مہمانِ خصوصی، ترجمان صدرِ پاکستان مرتضیٰ سولنگی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین کا گلوبل گورننس انیشی ایٹو وقت کی اہم ضرورت ہے، جو دنیا بھر میں ایک منصفانہ، ہمہ گیر اور اصولی نظامِ حکمرانی کے قیام کا وژن پیش کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر شی جن پھنگ کا گلوبل گورننس انیشی ایٹو ٹوٹے ہوئے عالمی نظام کو جوڑنے کی ایک کوشش ہے، جس میں انصاف اور برابری کی بنیاد پر اقوامِ عالم کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں، جہاں مساویانہ حقوق اور باہمی احترام کی پاسداری ہو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا وژن ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا (خصوصاً سی پیک کے دوسرے مرحلے کے ذریعے)، اور عوامی فلاح پر مبنی پالیسی سازی ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے سی ایم جی اور آئی ایس ایس آئی کو ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنے پر سراہا، جس پر مختلف نقطہ نظر کا تبادلہ ممکن ہوا۔
اس موقع پر چینی سفارتخانے کے سیاسی و ابلاغی امور کے سربراہ، وانگ شینگ جئے نے گلوبل گورننس انیشی ایٹو کو مستقبل کے لیے ایک مضبوط نظریاتی اور عملی فریم ورک قرار دیا جو عالمی حکمرانی کے لیے مساوات، شفافیت اور قانون کی حکمرانی جیسے اصولوں کو فروغ دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، مصنوعی ذہانت، اور عالمی معیشت کے بحران جیسے مسائل کے حل کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ اعلیٰ سطحی مذاکرات کو ج گلوبل گورننس انیشی ایٹو کے وژن کا عملی عکس قرار دیا، اور کہا کہ یہ اقدامات قومی مفادات سے بڑھ کر انسانیت کے اجتماعی مفاد کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
چین میں پاکستان کے سفیر خلیل ہاشمی نے آن لائن خطاب کے ذریعے کہا کہ گلوبل گورننس انیشی ایٹو موجودہ عالمی نظام کے اندر ادارہ جاتی اصلاحات کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو یکطرفہ فیصلوں کے بجائے اجتماعی سوچ کو فروغ دینا ہوگا، اور گلوبل گورننس انیشی ایٹو اس سمت میں ایک مثبت پیش رفت ہے۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے مہمان مقرر ، چیئرمین ایف ایس ڈی ایس، میجر جنرل ریٹائرڈ فضلِ الٰہی اکبر نے زور دیا کہ گلوبل گورننس کو محض طاقت کے اصولوں پر استوار نہیں ہونا چاہیے بلکہ قانون، اخلاقیات اور باہمی احترام کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
انہوں نے گلوبل گورننس انیشی ایٹو کو جنوبی ایشیا کے لیے ایک امید افزا ماڈل قرار دیا، جو باہمی تعاون اور پائیدار ترقی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
سابق سیکرٹری خارجہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس ایس آئی، سہیل محمود نے کہا کہ گلوبل گورننس انیشی ایٹو جیسے اقدامات عالمی برادری کو انفرادی مفادات کے بجائے اجتماعی عمل کی طرف مائل کرتے ہیں۔
انہوں نے پاکستان اور چین کی شراکت داری کو مثالی اشتراک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اشتراک نظریاتی ہم آہنگی اور عملی اقدامات دونوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
معروف تجزیہ کار اور اے آئی آر ای ڈی کے سی ای او شکیل احمد رامے کا اس موقع پر کہنا تھا کہ عالمی نظام کا تجزیہ صرف مغربی یا امریکی فریم ورک تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ چین کے بین الاقوامی تعلقات کے فلسفے کو سمجھے بغیر گلوبل گورننس انیشی ایٹو کی اصل روح کو سمجھنا ممکن نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ گلوبل گورننس انیشی ایٹو ایک نیا بیانیہ ہے جو طاقت کے بجائے باہمی احترام اور ترقی پر مبنی ہے۔
چین میں پاکستان کے سابق سفیر معین الحق نے ہم نصیب معاشرے کی تشکیل میں چینی صدر کے گلوبل گورننس انیشی ایٹو کو عصرِ حاضر کی اہم ضرورت قرار دیا، انہوں نے شی جن پھنگ کے دیگر اہم انیشی ایٹو ز کی طرح گلوبل گورننس انیشی ایٹو کو بھی عالمی امن ، رواداری اور مساویانہ حقوق کی فراہمی کیلئے کلیدی اقدام قرار دیا۔
اس موقع پر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، ڈاکٹر اکبر ناصر خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اچھی حکمرانی کا مطلب صرف پالیسی سازی نہیں بلکہ متاثرین کے حقوق، انصاف اور شمولیت کو یقینی بنانا بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ناانصافی پر خاموشی برتنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔
گلوبل گورننس انیشی ایٹو ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو عملی، فوری اور مربوط ردعمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
شنگھائی انسٹیٹیوٹس فار انٹرنیشنل سٹڈیز کے ریسرچ فیلو، پروفیسر ڈاکٹر شُوئے لے نے آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خودمختاری کا احترام عالمی گورننس کے کسی بھی نئے فریم ورک کا بنیادی ستون ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ گلوبل گورننس انیشی ایٹو عالمی طاقتوں کے درمیان توازن پیدا کرنے اور تعاون پر مبنی ترقی کے لیے ایک مؤثر نظریہ فراہم کرتا ہے۔
تقریب کے اختتام پر سینئر سفارت کار خالد محمود نے کہا کہ امن، خوشحالی اور استحکام تمام اقوام کا مشترکہ ہدف ہے، اور گلوبل گورننس انیشی ایٹو جیسے اقدامات ان اہداف کے حصول کے لیے ایک ٹھوس عملی قدم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گلوبل گورننس کے میدان میں ایسے اقدامات کو سراہنا اور آگے بڑھانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
یہ سیمینار نہ صرف چینی صدر شی جن پھنگ کے گلوبل گورننس وژن کو اجاگر کرنے میں کامیاب رہا بلکہ پاکستان اور دیگر ممالک کے ماہرین نے بھی نئے عالمی نظام کی تشکیل میں شمولیت، انصاف اور شراکت داری پر زور دیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراماراتی صدر شیخ محمد بن زاید کا دورہ قاہرہ، مصری صدر السیسی سے ملاقات عمران خان اور بشری بی بی کو اڈیالہ جیل سے خصوصی جیل منتقل کیے جانیکا امکان امریکی صدر کے 20 نکاتی امن منصوبے سے غزہ میں جنگ بندی ممکن ہوگی، وزیراعظم سندھ حکومت کا ترقیاتی اسکیموں پر کام روکنے کا معاملہ، ایم کیو ایم وزیراعظم کے سامنے معاملہ اٹھائے گی ہر چیز کا علاج بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نہیں، اپنے مشورے اپنے پاس رکھیں، مریم نواز پاکستان میں غیر قانونی سگریٹ انڈسٹری کا بڑا اسکینڈل بے نقاب ملکہ کوہسار مری میں ہر قسم کی تعمیرات اور سڑکیں بنانے پر پابندیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ عالمی نظام کے ایک منصفانہ ہے انہوں نے ہوئے کہا کہ کے لیے ایک شی جن پھنگ قرار دیا چینی صدر کرتا ہے کا وژن
پڑھیں:
توانائی کے شعبے کی تنظیمِ نو، سرکاری اداروں کی نجکاری، گورننس میں بہتری پر توجہ ہے، وزیر خزانہ
وفاقی وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت مسابقتی ٹیرف نظام، توانائی کے شعبے کی پائیداری اور نجی شعبے کی زیادہ شمولیت کے لیے پرعزم ہے، ٹیکسیشن، توانائی کے شعبے کی تنظیمِ نو، سرکاری اداروں کی نجکاری، گورننس میں بہتری اور وفاقی اخراجات کومعقول بنانے پرتوجہ دی جاری ہے۔
وزیرخزانہ نے ان خیالات کا اظہار پیٹر تھیل اور آورِن ہافمین کی قائم کردہ عالمی لیڈر شپ پلیٹ فارم ڈائیلاگ کے اعلیٰ سطح کے وفد سے تفصیلی ملاقات میں کیا۔
وفد کی قیادت سفیر علی جہانگیر صدیقی نے کی ،وفد میں بین الاقوامی سطح کی ممتاز شخصیات شامل تھیں جن میں برطانوی دارلامرا کے رکن سائمن اسٹیونز ، آسٹرین پارلیمان کے رکن وائٹ ویلَنٹین ڈینگلر، جیگ سا گوگل کی سی ای او یاسمین گرین ،ایکس باکس مائیکروسافٹ کی وائس پریزیڈنٹ فا طمہ کاردار ،ملٹی فیتھ الائنس کے سی ای اوشیڈی مارٹینی، ایجوکیشنل سپرہائی وے کے سی ای اوایوان مارویل اورناروے کے رکن پارلیمان ہیمانشوگلاٹی شامل تھے۔
وزیر خزانہ نے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ کی مسلسل شمولیت خصوصاً 2024 کے پہلے ڈائیلاگ پاکستان وینٹر کے بعد سے جاری تعاون کو سراہا اورکہاکہ اس سے پاکستان کے اقتصادی منظرنامے اور سرمایہ کاری کی صلاحیت سے متعلق عالمی سطح پر سمجھ کو بہتر بنانے میں مددملی ہے۔
سفیر علی جہانگیر صدیقی نے وفد کا تعارف کروایا، جس کے بعد وزیر خزانہ نے وفد کو جامع بریفنگ دی۔
وزیر خزانہ نے گزشتہ 18 ماہ کے دوران پاکستان میں کلی معیشت کے استحکام پرروشنی ڈالی اورکہا کہ اہم معاشی اشاریوں میں بہتری کی وجہ سے کریڈٹ ریٹنگ کی تین بین الاقوامی ایجنسیوں فچ ، ایس اینڈ پی اورموڈیز نے پاکستان کی درجہ بندی میں اضافہ کیا،
معاشی استحکام کی وجہ سے پاکستان اوربین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے تحت دوسرا جائزہ کامیابی سے مکمل ہواہے اورسٹاک سطح کامعاہدہ ہوچکا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے پروگرام میں بھی پیش رفت ہوئی ہے، اس سے ملکی معیشت پربین الاقوامی اعتماد کی عکاسی ہورہی ہے۔
وزیرخزانہ نے بہتر ہوتے ہوئے جیوپولیٹیکل حالات، امریکا ، چین اور سعودی عرب کے ساتھ مضبوط ہوتے تعلقات، اور سی پیک فیز 2.0 کے آغاز پر روشنی ڈالی اورکہاکہ یہ بزنس ٹو بزنس سرمایہ کاری، برآمدات پر مبنی صنعتی زونز اور مشترکہ منصوبوں پر مرکوز ہے۔
وزیرخزانہ نے کہاکہ مختلف شعبوں میں ڈھانچہ جاتی پروگرام پرعمل درآمدجاری ہے، ٹیکسیشن، توانائی کے شعبے کی تنظیمِ نو، سرکاری اداروں کی نجکاری، گورننس میں بہتری اور وفاقی اخراجات کومعقول بنانے پرتوجہ دی جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع اور گہرا کرنے، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت پرمبنی نگرانی کے کے نفاذ، کم ضابطے والے شعبوں جیسے رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ہول سیل؍ریٹیل کو ٹیکس نیٹ میں لانے، اور ٹیکس کی تعمیل میں بہتری کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے پنشن اصلاحات میں پاکستان کی پیش رفت، نئے ملازمین کے لیے کنٹریبیوٹری اسکیمز کی جانب منتقلی، اور طویل مدتی مالی ذمہ داریوں کے حل کے لیے آئندہ اقدامات پر بھی روشنی ڈالی۔
توانائی کے شعبے میں اصلاحات کاذکرکرتے ہوئے وزیرخزانہ نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں گورننس میں بہتری، نقصانات میں کمی کی کوششوں، بورڈز میں نجی شعبے کی نمائندگی، اور نجکاری کے ازسرنو فعال کیے گئے منصوبوں کا ذکر کیا۔
انہوں نے مسابقتی ٹیرف نظام، توانائی کے شعبے کی پائیداری اور نجی شعبے کی زیادہ شمولیت کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔
سوال و جواب کے سیشن کے دوران وزیر خزانہ نے پاکستان کی امریکا کے ساتھ ٹیرف مذاکرات ، قرضوں کے رحجان ، بینکاری کے ضابطوں،سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچہ میںسرمایہ کاری اور طویل مدتی ترقی کے باہمی تعلق سے متعلق سوالات کے تفصیلی جوابات دیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان آئندہ برس بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹس میں دوبارہ داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں پانڈا بانڈز کے ممکنہ اجرا اور مقامی مالیاتی منڈیوں کو وسعت دینے کے لیے مختلف اقدامات شامل ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کافائدہ اور ساتھ ہی کان کنی، زراعت، آئی ٹی، مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، دواسازی اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں جاری اصلاحات، ملک کو طویل مدتی، نجی شعبے کی قیادت میں ترقی کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کررہی ہے ۔
انہوں نے ڈائیلاگ کے عالمی لیڈر شپ نیٹ ورک کے ساتھ مسلسل رابطے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ بین الاقوامی شراکت داریوں کو مضبوط بنانے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول، اور پاکستان میں اصلاحات کے ایجنڈے کو عالمی سطح پر بااثر حلقوں تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔