کچھ حیا ہوتی کوئی شرم ہوتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وزیر ِ اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورے کا چرچا اپنی جگہ مگر ساری محفل کا اصل موضوع شمع بن گئیں۔ سوالات اٹھے ان کو پیچھے کس نے بٹھایا؟ طیارے میں کس نے سوار کروایا، تقریر کس نے لکھوائی؟ اور اب ہر شخص اپنی اپنی صفائیاں پیش کرنے میں مصروف ہے۔ خواجہ آصف کی وضاحت نہایت بھونڈی اور ناقابل ِ قبول ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ کس نے انہیں پیچھے بٹھایا، حالانکہ درجنوں تصاویر میں وہ محترمہ کے ساتھ خوشگوار موڈ میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ ایسا مؤقف کون مانے؟ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ نشستوں کی ترتیب ہمیشہ وزارتِ خارجہ یا سفارت خانہ طے کرتا ہے۔ یاد رہے کہ علی امین گنڈاپور نے صرف عمران خان کے پیچھے بیٹھنے کی ضد میں اْس وقت کی ملیحہ لودھی کو مغلظات سنائی تھیں۔ اگر پورا دورہ وزارتِ خارجہ کے کنٹرول میں تھا تو بیرونی مداخلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ اگر اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہو تو بیٹھانے کیا کسی کو بھی وزارتِ عظمیٰ تک پہنچا سکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے یو این جی اے کے موقع پر وزارتِ خارجہ پاکستانی مشن اور سفارت خانوں کو ان کے فرائض ادا کرنے ہی نہیں دیتی۔ ان سے بس مزدوری کا کام لیا جاتا ہے۔ نیویارک مشن عام طور پر بارہ مہینے صحافیوں سے رابطے میں رہتا اور بروقت معلومات فراہم کرتا ہے، مگر یو این جی اے کے دوران اختیارات واپس لے کر صحافیوں کو دانستہ محدود کر دیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شمع جونیجو جیسی مشکوک شخصیت پر بھی کوئی سوال نہ اٹھے، یا یہ نہ پوچھا جائے کہ سیلاب سے متاثرہ ملک کا نمائندے وفد اس موقع پر کتنا خرچ کر رہا ہے۔ وفد کے اراکین کی تعداد کے بارے میں بھی شکوک ہیں۔ شنید ہے کہ یہ تعداد چالیس سے زائد تھی۔ سینئر صحافی عظیم میاں نے سوال اٹھایا تو نہ تصدیق کی گئی نہ تردید۔ کون شریک تھا اور کون نہیں، اس کا کسی کو علم ہی نہ ہو سکا۔
اقوامِ متحدہ کے فورم پر ہمارے پاکستانی صحافی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ ملک کا باوقار تاثر پیش ہو، مگر وزارتِ خارجہ اس خوف میں رہتی ہے کہ کہیں کوئی سخت یا ناپسندیدہ سوال نہ پوچھ لے جو تحقیق و تنقید پر مبنی سوال کرتے ہیں ان کی راہیں بند کر دی جاتی ہیں۔ کئی صحافی اپنی جیب سے خرچ کر کے یہاں آئے، دن رات محنت کی، مگر انہیں بھی موقع نہ دیا گیا۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو بیچارے اپنے اداروں کے لیے مفت میں کام کرتے ہیں، لیکن بڑی خبریں ان تک بھی نہیں پہنچتیں۔ ایسے صحافی بھی ہیں جو برسوں سے اقوامِ متحدہ کی کوریج کر رہے ہیں، ان کی رسائی بھی محدود یا ختم کر دی گئی۔ ماضی میں صحافیوں نے مستقل مزاجی سے محنت کر کے رسائی حاصل کی، مگر اب باضابطہ پابندی لگا کر راستے روکے جا رہے ہیں۔ بڑے اخرجات کر کے پی ٹی وی کی بڑی بڑی میڈیا ٹیمیں ساتھ لائی جاتی ہیں، مگر نہ بروقت فوٹیج ملتی ہے نہ اعلامیے۔ سب کچھ اسلام آباد سے کنٹرول ہوتا ہے۔ اگر صرف سرکاری ریکارڈ کے لیے ریکارڈنگ مقصود تھی تو نیویارک میں مقیم پاکستانی یہ کام کئی گنا کم خرچ میں کر سکتے تھے۔ مگر یہ حساب وہی لگا سکتا ہے جسے ملک کی فکر ہو۔ مجھے یاد ہے کہ جب کچھ آزادی باقی تھی تو جیو کا چیتا عظیم خان پی ٹی وی کی ٹیم کو ناکوں چنے چبوا دیتا تھا۔ پی ٹی وی والے ہاتھ جوڑ کر کہتے: بھائی ہماری نوکری کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟ اور جب تک وہ فوٹیج پاکستان بھیجتے، پاکستان میں پہلے ہی نشر کر چکے ہوتے۔ جمہوریت کے دعویدار — جو خود احتساب کے علمبردار بنتے ہیں۔ اکثر سخت سوالات سے گھبراتے ہیں۔ اس معاملے میں تو ڈکٹیٹر پرویز مشرف بہتر تھے جو صحافیوں کے سامنے کھڑے ہو کر تلخ سوالات کے جواب دیتے تھے۔
اس دورے میں ایک بھی پریس کانفرنس یا بریفینگ نہ رکھی گئی۔ نہ کوئی وزیر ہتھے لگا۔ اگر کسی وزیر نے انٹرویو دیا تو ایسے جیسے احسان کر رہے ہوں، صحافی بھی مجبور تھے کہ اپنے اداروں کو کچھ نہ کچھ دیں، ورنہ دل یہی چاہ رہا تھا کہ ان سے بات تک نہ کی جائے۔ خاص طور پر خواجہ آصف مسلسل صحافیوں سے بچتے رہے۔ ایک سوال کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔ چہرے پر ایسا تاثر جیسے ان کی طبیعت پر گراں گزر رہا ہو۔ صحافیوں کی بد دْعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہدی حسن کے سخت سوالات کے سامنے بے بس ہوگئے۔ وہ ایک کے بعد ایک کپڑے اُتارتا رہا، لگتا ہے جنہوں نے انہیں وہاں بھیجا، وہ بدلہ لینا چاہتے تھے۔
جیسے اسٹیبلشمنٹ نے انہیں وزارت دفاع دے کر بدلہ لیا۔ یہی وہ شخصیت ہیں جو اپوزیشن کے دنوں میں 32 انچ کا سینہ تان کر فوج کو 1971 یاد دلا رہے تھے۔ فوج نے بھی سوچا: بچو! تمہیں دفاع دے کر اردلی کا اردلی بنا کر دکھاتے ہیں۔ یہ حضرت پاکستان ٹی وی پر دوستانہ میچ میں جگت بازی تو کر سکتے ہیں، مگر سنجیدہ فورمز پر ان کا کچھ نہیں بنتا۔ وزیر ِ دفاع ہوتے ہوئے بھی انڈیا کے جہاز گرنے کا ماخذ سوشل میڈیا کو قرار دیتے ہیں اور وہ بھی مغربی میڈیا میں بیٹھ کر۔
اپنے پڑوسیوں کو دشمن کہتے ہیں۔ ایسے وزیر کو کیا الزام دینا؟ جو ستر برس کی بے بس خاتون سے ہار گیا ہو، جس کے پاس نہ وسائل ہوں نہ سہارے، جس عورت کے بیٹے جیلوں یا جلاوطنی میں ہوں۔ وزیر دفاع فارم 47 کے ذریعے اسمبلی میں داخل ہوئے اور وزارت پا لی۔ پھر ایسے کاموں میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ خواجہ آصف جیسے وزرا کو چاہیے کہ اگر وہ اتنا اختیار بھی نہیں رکھتے کہ پیچھے کون ہوگا آگے کون ہوگا؟ تو استعفا دے دیں۔ مگر اس کے لیے انہی کے الفاظ میں، ’’کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیاء ہوتی ہے‘‘۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
افغانستان میں انٹرنیٹ پر کوئی پابندی عاید نہیں‘ طالبان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251002-08-23
کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) طالبان حکومت نے افغانستان میں انٹرنیٹ کی ملک گیر پابندی کی خبروں کو مسترد کر دیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کی وضاحت حالیہ دنوں میں ہونے والے بڑے پیمانے پر کمیونی کیشن بلیک آؤٹ کے بعد سامنے آئی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق طالبان حکام نے پاکستانی صحافیوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں جاری بیان میں کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی کی افواہوں میں صداقت نہیں۔ حکومت نے انٹرنیٹ پر پابندی عاید نہیں کی۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بندش تکنیکی وجوہات کی بنا پر ہوئی ہے۔ خاص طور پر پرانے فائبر آپٹک کیبلز کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی۔ خیال رہے کہ یہ طالبان حکومت کا اس معاملے پر پہلا باضابطہ اعلان ہے جس کے بعد پیر سے ملک بھر میں ٹیلیفون اور انٹرنیٹ سروسز شدید متاثر ہوئیں۔ عالمی انٹرنیٹ مانیٹرنگ ادارے نیٹ بلاکس کے مطابق پیر کو افغانستان میں 4 کروڑ 30 لاکھ آبادی والے ملک میں ‘‘مکمل انٹرنیٹ بلیک آؤٹ’’ ریکارڈ کیا گیا۔ اگرچہ طالبان نے اس بار براہِ راست ذمے داری قبول نہیں کی، تاہم اس سے قبل کئی صوبوں میں انٹرنیٹ سروسز اخلاقی برائیوں کے خلاف اقدامات کے تحت بند کی جا چکی ہیں۔16 ستمبر کو بلخ صوبے کے حکام نے انٹرنیٹ پابندی کی تصدیق کی تھی۔ اسی طرح بدخشاں، تخار، ہلمند، قندھار اور ننگرہار میں بھی حالیہ مہینوں میں پابندیاں رپورٹ ہوئیں۔ ایک افغان حکومتی اہلکار نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ تقریباً ‘‘آٹھ سے نو ہزار ٹیلی کمیونی کیشن ٹاورز’’ کو اگلے حکم تک بند رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ادھر طلوع نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے موبائل فونز پر 3G اور 4G انٹرنیٹ سروسز کو ایک ہفتے کے اندر بند کرنے کی ڈیڈلائن دی ہے۔ انٹرنیٹ اور ٹیلیفون سروسز کی بندش نے نہ صرف عوامی رابطوں کو متاثر کیا ہے بلکہ بینکاری، تجارت اور فضائی شعبے کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے خواتین کی ملازمتوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے جب کہ خواتین کے محرم کے بغیر سفر، عوام مقام پر جانے اور بیوٹی پارلز بھی بند کروا دیئے گئے۔