Jasarat News:
2025-11-19@03:18:11 GMT

کچھ حیا ہوتی کوئی شرم ہوتی ہے

اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وزیر ِ اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورے کا چرچا اپنی جگہ مگر ساری محفل کا اصل موضوع شمع بن گئیں۔ سوالات اٹھے ان کو پیچھے کس نے بٹھایا؟ طیارے میں کس نے سوار کروایا، تقریر کس نے لکھوائی؟ اور اب ہر شخص اپنی اپنی صفائیاں پیش کرنے میں مصروف ہے۔ خواجہ آصف کی وضاحت نہایت بھونڈی اور ناقابل ِ قبول ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ کس نے انہیں پیچھے بٹھایا، حالانکہ درجنوں تصاویر میں وہ محترمہ کے ساتھ خوشگوار موڈ میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ ایسا مؤقف کون مانے؟ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ نشستوں کی ترتیب ہمیشہ وزارتِ خارجہ یا سفارت خانہ طے کرتا ہے۔ یاد رہے کہ علی امین گنڈاپور نے صرف عمران خان کے پیچھے بیٹھنے کی ضد میں اْس وقت کی ملیحہ لودھی کو مغلظات سنائی تھیں۔ اگر پورا دورہ وزارتِ خارجہ کے کنٹرول میں تھا تو بیرونی مداخلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ اگر اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہو تو بیٹھانے کیا کسی کو بھی وزارتِ عظمیٰ تک پہنچا سکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے یو این جی اے کے موقع پر وزارتِ خارجہ پاکستانی مشن اور سفارت خانوں کو ان کے فرائض ادا کرنے ہی نہیں دیتی۔ ان سے بس مزدوری کا کام لیا جاتا ہے۔ نیویارک مشن عام طور پر بارہ مہینے صحافیوں سے رابطے میں رہتا اور بروقت معلومات فراہم کرتا ہے، مگر یو این جی اے کے دوران اختیارات واپس لے کر صحافیوں کو دانستہ محدود کر دیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شمع جونیجو جیسی مشکوک شخصیت پر بھی کوئی سوال نہ اٹھے، یا یہ نہ پوچھا جائے کہ سیلاب سے متاثرہ ملک کا نمائندے وفد اس موقع پر کتنا خرچ کر رہا ہے۔ وفد کے اراکین کی تعداد کے بارے میں بھی شکوک ہیں۔ شنید ہے کہ یہ تعداد چالیس سے زائد تھی۔ سینئر صحافی عظیم میاں نے سوال اٹھایا تو نہ تصدیق کی گئی نہ تردید۔ کون شریک تھا اور کون نہیں، اس کا کسی کو علم ہی نہ ہو سکا۔

 

اقوامِ متحدہ کے فورم پر ہمارے پاکستانی صحافی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ ملک کا باوقار تاثر پیش ہو، مگر وزارتِ خارجہ اس خوف میں رہتی ہے کہ کہیں کوئی سخت یا ناپسندیدہ سوال نہ پوچھ لے جو تحقیق و تنقید پر مبنی سوال کرتے ہیں ان کی راہیں بند کر دی جاتی ہیں۔ کئی صحافی اپنی جیب سے خرچ کر کے یہاں آئے، دن رات محنت کی، مگر انہیں بھی موقع نہ دیا گیا۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو بیچارے اپنے اداروں کے لیے مفت میں کام کرتے ہیں، لیکن بڑی خبریں ان تک بھی نہیں پہنچتیں۔ ایسے صحافی بھی ہیں جو برسوں سے اقوامِ متحدہ کی کوریج کر رہے ہیں، ان کی رسائی بھی محدود یا ختم کر دی گئی۔ ماضی میں صحافیوں نے مستقل مزاجی سے محنت کر کے رسائی حاصل کی، مگر اب باضابطہ پابندی لگا کر راستے روکے جا رہے ہیں۔ بڑے اخرجات کر کے پی ٹی وی کی بڑی بڑی میڈیا ٹیمیں ساتھ لائی جاتی ہیں، مگر نہ بروقت فوٹیج ملتی ہے نہ اعلامیے۔ سب کچھ اسلام آباد سے کنٹرول ہوتا ہے۔ اگر صرف سرکاری ریکارڈ کے لیے ریکارڈنگ مقصود تھی تو نیویارک میں مقیم پاکستانی یہ کام کئی گنا کم خرچ میں کر سکتے تھے۔ مگر یہ حساب وہی لگا سکتا ہے جسے ملک کی فکر ہو۔ مجھے یاد ہے کہ جب کچھ آزادی باقی تھی تو جیو کا چیتا عظیم خان پی ٹی وی کی ٹیم کو ناکوں چنے چبوا دیتا تھا۔ پی ٹی وی والے ہاتھ جوڑ کر کہتے: بھائی ہماری نوکری کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟ اور جب تک وہ فوٹیج پاکستان بھیجتے، پاکستان میں پہلے ہی نشر کر چکے ہوتے۔ جمہوریت کے دعویدار — جو خود احتساب کے علمبردار بنتے ہیں۔ اکثر سخت سوالات سے گھبراتے ہیں۔ اس معاملے میں تو ڈکٹیٹر پرویز مشرف بہتر تھے جو صحافیوں کے سامنے کھڑے ہو کر تلخ سوالات کے جواب دیتے تھے۔

 

اس دورے میں ایک بھی پریس کانفرنس یا بریفینگ نہ رکھی گئی۔ نہ کوئی وزیر ہتھے لگا۔ اگر کسی وزیر نے انٹرویو دیا تو ایسے جیسے احسان کر رہے ہوں، صحافی بھی مجبور تھے کہ اپنے اداروں کو کچھ نہ کچھ دیں، ورنہ دل یہی چاہ رہا تھا کہ ان سے بات تک نہ کی جائے۔ خاص طور پر خواجہ آصف مسلسل صحافیوں سے بچتے رہے۔ ایک سوال کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔ چہرے پر ایسا تاثر جیسے ان کی طبیعت پر گراں گزر رہا ہو۔ صحافیوں کی بد دْعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ مہدی حسن کے سخت سوالات کے سامنے بے بس ہوگئے۔ وہ ایک کے بعد ایک کپڑے اُتارتا رہا، لگتا ہے جنہوں نے انہیں وہاں بھیجا، وہ بدلہ لینا چاہتے تھے۔

 

جیسے اسٹیبلشمنٹ نے انہیں وزارت دفاع دے کر بدلہ لیا۔ یہی وہ شخصیت ہیں جو اپوزیشن کے دنوں میں 32 انچ کا سینہ تان کر فوج کو 1971 یاد دلا رہے تھے۔ فوج نے بھی سوچا: بچو! تمہیں دفاع دے کر اردلی کا اردلی بنا کر دکھاتے ہیں۔ یہ حضرت پاکستان ٹی وی پر دوستانہ میچ میں جگت بازی تو کر سکتے ہیں، مگر سنجیدہ فورمز پر ان کا کچھ نہیں بنتا۔ وزیر ِ دفاع ہوتے ہوئے بھی انڈیا کے جہاز گرنے کا ماخذ سوشل میڈیا کو قرار دیتے ہیں اور وہ بھی مغربی میڈیا میں بیٹھ کر۔

 

اپنے پڑوسیوں کو دشمن کہتے ہیں۔ ایسے وزیر کو کیا الزام دینا؟ جو ستر برس کی بے بس خاتون سے ہار گیا ہو، جس کے پاس نہ وسائل ہوں نہ سہارے، جس عورت کے بیٹے جیلوں یا جلاوطنی میں ہوں۔ وزیر دفاع فارم 47 کے ذریعے اسمبلی میں داخل ہوئے اور وزارت پا لی۔ پھر ایسے کاموں میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ خواجہ آصف جیسے وزرا کو چاہیے کہ اگر وہ اتنا اختیار بھی نہیں رکھتے کہ پیچھے کون ہوگا آگے کون ہوگا؟ تو استعفا دے دیں۔ مگر اس کے لیے انہی کے الفاظ میں، ’’کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیاء ہوتی ہے‘‘۔

معوذ اسد صدیقی.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

عارضہ قلب سمیت دیگر امراض میں مبتلا افراد حج نہیں کرسکیں گے، ڈپورٹ کرنےکی پالیسی بھی لاگو

عارضہ قلب سمیت دیگر امراض میں مبتلا افراد حج نہیں کرسکیں گے، ڈپورٹ کرنےکی پالیسی بھی لاگو WhatsAppFacebookTwitter 0 16 November, 2025 سب نیوز

سعودی حکومت نے بیمار عازمین پر حج2026 کی پاپندی عائد کرتے ہوئے ڈپورٹ کرنے کی پالیسی بھی لاگو کردی۔

سعودی وزارت مذہبی امور نے کہا کہ بیمار عازمین کو سعودی عرب واپس وطن بھیج دے گا، واپسی کا خرچہ عازمین حج خود ادا کریں گے، بیمار عازم کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے ڈاکٹرز کے خلاف بھی کارروائی بھی ہوگی۔

سعودی وزارت صحت کی ہدایات کے مطابق عازمین حج 2026 کیلئے طبی شرائط عائد کی گئی ہیں۔

سعودی وزارت صحت نے کہا کہ گردوں کے امراض، ڈائیلاسز کے مریضوں کو حج 2026 کی اجازت نہیں، سعودی وزارت صحت نے دل کے امراض کا شکار مریض جو مشقت کے بھی قابل نہ ہوں ان پر بھی حج کی پاپندی لگادی۔

پھیپھڑوں اور جگر کی بیماری کے حامل مریضوں پر بھی پاپندی ہوگی، شدید اعصابی یا نفسیاتی امراض، کمزور یاداشت، شدید معذوری اور ڈیمنشیا کا شکار افراد پر بھی سعودی حکومت نے حج پر پابندی لگادی۔

شدید بڑھاپے یا الزائمنز اور رعشہ کے مریض پر بھی پاپندی عائد کردی گئی، حاملہ خواتین، کالی کھانسی، تپ دق، وائرل ہیمرج بخار کے مریض بھی حج 2026 نہیں کرسکیں گے۔

کینسر کے مریضوں پر بھی حج کی پابندی عائد کردی گئی، وزارت مذہبی امور نے کہا کہ حج پر روانگی سے قبل میڈیکل افسر حج پر روانگی سے روکنے کا مجاز ہوگا۔

وزارت مذہبی امور نے کہا کہ سعودی حکام کی مانیٹرنگ ٹیمیں عازم حج کے فٹنس سرٹیکیٹ کی درستی کی تصدیق کریں گی، مقررہ بنیادی صحت کے حامل افراد ہی سفر حج پر مقامات روانہ ہوں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروفاقی آئینی عدالت کی پہلی کاز لسٹ جاری ایران میں بدترین خشک سالی، شہریوں کو تہران خالی کرنا پڑسکتا ہے، ایرانی صدر لیبیا کے ساحل کے قریب 2 کشتیوں کو حادثہ، 4 تارکین وطن ہلاک وقت پر اسلحہ کیوں نہیں ملتا؟ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے شکایتوں کے انبار لگا دیے ملک کی بدنامی کا باعث بننے والے کسی مسافر کو سفر کی اجازت نہیں دی جائیگی: محسن نقوی عمران دور پر رپورٹ کی بنیاد انٹرویوز، صرف 10 فیصد مواد سامنے لائے: بشریٰ تسکین صدر مملکت اور وزیراعظم کا باہمی احترام کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • کیا نظام بدل گیا ہے؟
  • سرینگر کے قلب میں اس مقدار دھماکہ خیز مواد پولیس اسٹیشن کیسے پہنچایا گیا، عمر عبداللہ کا سوال
  • استثنیٰ کسی کے لیے نہیں
  • ملک میں شرافت‘ آئین اور قانون کی کوئی جگہ نہیں ہے‘ سلمان اکرم راجا
  • اگر انتخاب مکمل طور پر آزادانہ اور منصفانہ ہوتے تو مزید سیٹوں پر فتح حاصل ہوتی، مایاوتی
  • تحریک اچانک شروع نہیں ہوتی، اِن شاءاللّٰہ تحریک چلے گی: سینیٹر علی ظفر
  • امراض میں مبتلاعازمین حج نہیں کرسکیں گے،سعودی حکومت نے پابندی لگا دی
  • میڈیا کا کام حکومت سے سوال کرنا ہے نہ کہ اسکی تشہیر، ملکارجن کھڑگے
  • امراض میں مبتلا افراد حج نہیں کرسکیں گے، ڈپورٹ کرنےکی پالیسی بھی لاگو
  • عارضہ قلب سمیت دیگر امراض میں مبتلا افراد حج نہیں کرسکیں گے، ڈپورٹ کرنےکی پالیسی بھی لاگو