Islam Times:
2025-10-04@16:52:32 GMT

غزہ امن منصوبہ اور ہم

اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT

غزہ امن منصوبہ اور ہم

اسلام ٹائمز: ہم اپنے قارئین پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان، فلسطینی قوم کی مرضی کے خلاف کسی ایسے منصوبے کی حمایت کرتا ہے، جو درحقیقت اسرائیل کی توسیع کا منصوبہ ہے تو اس حمایت کے پیچھے کسی قسم کی نظریاتی ہم آہنگی نہیں بلکہ واضح طور پر ایک سیاسی و سفارتی سرنڈر ہے۔ پراکسی ہونا صرف فوجی محاذ پر دوسرے کے مفاد کے لیے لڑنا نہیں ہوتا بلکہ وہ لمحہ جب کوئی ریاست اپنی خود مختار سفارتی زبان کھو دے اور اس کے سیاستدان اور قلم کار اپنے قومی نظریات کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کر دیں تو یہی پراکسی ڈپلومیسی کا چہرہ ہوتا ہے۔ کیا غزہ امن منصوبے کی حمایت کرکے اس وقت ہم بطورِ اسرائیلی پراکسی کام نہیں کر رہے۔؟ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے زیرِ اثر پیش کیا گیا غزہ امن منصوبہ ہمارے وزیرِاعظم صاحب نے شاید دیکھا تک نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ منصوبہ عدل و انصاف کے اصولوں پر مبنی ہے یا اسے فلسطینیوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔؟ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں اگر اس منصوبے کا جائزہ لیا جائے تو یہ فوری جنگ بندی یا انسانی امداد کی فراہمی کے بجائے فقط اسرائیل کی جغرافیائی اور سیاسی بالادستی کو تحفظ دیتا ہے۔ یعنی یہ دراصل اسرائیل کے عسکری و سیاسی اثرورسوخ کی تنظیمِ نو کا فارمولہ ہے۔ کیا ہمارے وزیراعظم صاحب کو اس کا ادراک ہے کہ فلسطینی قیادت اور عوام کو اس منصوبے کی تشکیل اور اس پر گفت و شنید کے عمل سے مکمل طور پر خارج رکھا گیا ہے۔؟ فلسطینی قیادت اور عوام کو اس منصوبے سے الگ تھلگ رکھنے سے اس منصوبے کی کوئی قانونی حیثیت اور اخلاقی جواز ہی باقی نہیں رہتا کہ جس کی بنیاد پر اس کی حمایت کی جا سکے۔

اس کی ایک اور اہم خامی یہ ہے کہ اس  میں اسرائیل کے غلبے کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اسے ہر طرح کا تحفظ بھی دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی سکیورٹی فورسز، دفاعی حدود اور علاقائی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت، جغرافیائی وحدت اور ریاستی سالمیت کی عملاً نفی کر دی گئی ہے۔ بلاشبہ یہ منصوبہ اصولوں اور انصاف کے بجائے طاقت اور دھونس کا مظہر ہے۔ اس میں فلسطینی پناہ گزینوں کے حقِ واپسی کو نظر انداز کرنا، فلسطینی علاقوں کو الگ الگ انتظامی اکائیوں میں تقسیم رکھنا اور فلسطینی ریاست کی تشکیل کے عمل کو عملی سطح پر غیر یقینی بنا دینا۔۔۔ یوں یہ منصوبہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی عالمی روایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

ایسے میں پاکستان کی جانب سے اس منصوبے کی حمایت کا عمل کئی سیاسی، قانونی اور اخلاقی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس منصوبے میں فلسطینی قیادت کی عدمِ شمولیت، فلسطینی مہاجرین کی واپسی کی نفی اور فلسطین کی تقسیم کا پہلو ہی اس منصوبے کے بطلان کیلئے کافی ہے۔ دوسری طرف پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے، جو تاریخ میں ہمیشہ فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کا حامی رہا، جس نے اقوامِ متحدہ میں ان کے حق میں آواز اٹھائی، جس کے عوام فلسطینی جدوجہد سے جذباتی و نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں، وہ اگر اچانک کسی ایسے منصوبے کی غیر مشروط تائید کرتا نظر آئے، جسے خود فلسطینی مسترد کرچکے ہوں، تو یہ غیر مشروط تائید کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ پاکستان فلسطین کے معاملے میں کسی کرائے کے مزدور کی مانند اسرائیل کی ایک پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے۔

پراکسی ڈپلومیسی کا مطلب ہی یہی ہے کہ اس میں ریاستیں اپنی خارجہ حکمت عملی کسی تیسرے فریق کے دباؤ، اثر یا مفاد کے تابع تشکیل دیتی ہیں۔ ان کا موقف ریاستی اصولوں، قومی نظریات اور جمہوری رجحانات کے منافی ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس منصوبے کی تائید خود پاکستانیوں کیلئے ایک بڑا اسوال ہے، خاص طور پر جب پاکستان کو خلیجی ممالک اور امریکہ جیسے اتحادیوں نے تعلقات و مفادات کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اربابِ اختیار کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ ایسا طرزِ عمل کئی سطحوں پر پاکستان کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے۔ اوّل، اس سے پاکستان کی وہ اخلاقی برتری مجروح ہوتی ہے، جو اس نے ہمیشہ مظلوم اقوام کے حق میں اختیار کی۔ دوم، خارجہ پالیسی کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے اور یہ واضح ہو جائے گا کہ پاکستان سفارتکاری میں بھی دوسروں کی ایک پراکسی ہے۔ سوم، ریاست اور  عوام کے درمیان خلیج مزید گہری ہوگی اور ریاست پر عوام کے اعتماد میں مزید کمی آئے گی۔

ظاہر ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر عوام کا اجتماعی ضمیر جس مؤقف کی توقع کرتا ہے، ریاست اس سے منحرف دکھائی دے رہی ہے۔ اسی عمل کو پراکسی سفارتکاری کہتے ہیں۔ اس میں ایک ریاست خود مختار پالیسی سازی کے بجائے، ثالث یا سرپرست ریاست کے ایجنڈے کو اپناتی ہے۔ غزہ امن منصوبہ ایک ایسے سفارتی فریم ورک کی علامت ہے، جو بکھرتے ہوئے اسرائیل کو دوبارہ جوڑنے کیلئے ہے۔ اس منصوبے میں وہ تمام عناصر شامل ہیں، جو کسی فوری جنگ بندی کو ممکن  بنانے کے بجائے صرف اسرائیل کو بچانے کیلئے فکرمند ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ملک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں وقتی سفارتی مصلحتوں کے بجائے اصولی وابستگی، تاریخی موقف اور عوامی جذبات کو ترجیح دے، تاکہ اس کی سفارت کاری خود مختار ہو اور باوقار  نظر آئے۔

کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ جب قومیں اصولوں و نظریات کی بنیاد پر اپنی راہیں متعین کرتی ہیں تو وہ صرف سیاسی پالیسی نہیں بناتیں بلکہ تاریخ میں اپنے اخلاقی نقوش بھی مرتب کرتی ہیں۔ اس کے برعکس جب یہی قومیں وقت کی گردش، خارجی دباؤ، یا داخلی کمزوریوں کے تحت اپنے اصولوں اور نظریات سے انحراف کرتی ہیں تو تاریخ میں اُن کے کردار کے اندر ایک گہری منفی تبدیلی واقع ہوتی ہے، جسے "نارم شیفٹ" کہا جاتا ہے۔ یہ وہ عمل ہوتا ہے کہ جس کے دوران نظریہ مصلحت میں تحلیل ہو جاتا ہے اور نظریات عارضی فائدے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی محض سفارتی زبان یا سرکاری بیانیے میں نہیں آتی بلکہ قوم کے تشخص کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے، ایسی دیمک جو وقت کے ساتھ ساتھ قومی شناخت، اخلاق اور وژن کے مفاہیم کو کھا جاتی ہے۔ اسی کو سفارتی و نظریاتی کہتے ہیں، چونکہ اس کے دوران ماضی کا "حق" حال کے عارضی "مفاد" میں دفن ہو جاتا ہے۔

یاد رہے کہ قومیں اکثر اپنی شکست میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ اصولوں سے دستبرداری کے لمحے میں کھاتی ہیں اور یہی وہ لمحہ ہے، جب نظریاتی کمزوری کو ریاستی پالیسی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ آخر میں ہم اپنے قارئین پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان، فلسطینی قوم کی مرضی کے خلاف کسی ایسے منصوبے کی حمایت کرتا ہے، جو درحقیقت اسرائیل کی توسیع کا منصوبہ ہے تو اس حمایت کے پیچھے کسی قسم کی نظریاتی ہم آہنگی نہیں بلکہ واضح طور پر ایک سیاسی و سفارتی سرنڈر ہے۔ پراکسی ہونا صرف فوجی محاذ پر دوسرے کے مفاد کے لیے لڑنا نہیں ہوتا بلکہ وہ لمحہ جب کوئی ریاست اپنی خودمختار سفارتی زبان کھو دے اور اس کے سیاست دان اور  قلم کار اپنے قومی نظریات کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کر دیں تو یہی پراکسی ڈپلومیسی کا چہرہ ہوتا ہے۔ کیا غزہ امن منصوبے کی حمایت کرکے اس وقت ہم بطورِ اسرائیلی پراکسی کام نہیں کر رہے۔؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: منصوبے کی حمایت اس منصوبے کی پاکستان کی اسرائیل کی کے بجائے جاتا ہے ہوتا ہے کے خلاف

پڑھیں:

فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ نہیں، بلکہ فلسطینی عوام کرینگے، علامہ مقصود ڈومکی

سبی میں عوام سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل میدان جنگ میں شکست کھا کر عرب و مسلم حکمرانوں کی مدد سے مذاکرات کی میز پر اپنی ہاری ہوئی بازی جیتنا چاہتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی، صوبائی رہنماء علامہ سید ظفر عباس شمسی اور علامہ سہیل اکبر شیرازی نے ضلع سبی کی تحصیل لہڑی کا دورہ کیا۔ اس موقع پر رہنماؤں نے گاؤں وزیرہ میں جنگ آزادی کے ہیرو میر بجار خان ڈومکی کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ قابض انگریز سامراج کے وطن کی آزادی کے لئے لڑنے والے مجاہد ہمارے ہیروز ہیں۔ میر بجار خان ڈومکی نے بلوچستان اور برصغیر پر انگریز سامراج کے قبضے کے خلاف بلوچ قبائل کے ہمراہ مسلح جدوجہد کی اور مرتے دم تک قابض انگریز کے سامنے جھکنے سے انکار کیا۔

وزیرہ میں مقامی لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ اہلِ بیت (ع) رسول (ص) کی محبت اور مودت ایمان کا حصہ ہے۔ قرآن و اہلِ بیت (علیہ السلام) سے تمسک ہی انسان کی نجات اور کامیابی کی ضمانت ہے۔ شیعہ سنی مسلمانوں کو قرآن و اہلِ بیت (ع) کے سائے میں، اتحاد امتِ کے لیے مل کر جدوجہد کرنی چاہیے۔ انہوں نے فلسطین کے حوالے سے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کے ظلم و بربریت کے باوجود غزہ اور فلسطین کے غیرت مند عوام نے جس صبر، استقامت اور بہادری کا مظاہرہ کیا وہ قابل تحسین ہے۔ امریکہ اور اسرائیل میدانِ جنگ میں شکست کھا کر عرب و مسلم حکمرانوں کی مدد سے مذاکرات کی میز پر اپنی ہاری ہوئی بازی جیتنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ اور اسرائیل نہیں کریں گے بلکہ یہ حق صرف فلسطین کے عوام کو حاصل ہے کہ وہ حماس کو اپنی نمائندہ جماعت تسلیم کریں یا کسی اور کو موقع دیں۔ سب سے بڑا دہشت گرد اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو ہے جس نے ستر ہزار بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا، لیکن معاہدے میں اس مجرم کے خلاف کوئی شق شامل نہیں کی گئی جو افسوسناک ہے۔ علامہ مقصود ڈومکی نے پاکستان کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا فیصلہ وہی ہے جو آج سے سو سال قبل بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ نے کیا تھا کہ اسرائیل کا وجود ناجائز ہے اور امت مسلمہ کے قلب میں خنجر کے برابر ہے۔ جعلی مینڈیٹ رکھنے والی شہباز حکومت، جنہیں عوام نے گزشتہ انتخابات میں ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا، کسی صورت بھی قائداعظم کے نظریہ سے انحراف کی مجاز نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی فوج کا امریکی سرمایہ کاری سے ایک نئی بندرگاہ بنانے کا منصوبہ؟
  • حماس کے ردعمل کے بعد اسرائیل نے غزہ پر قبضے کا منصوبہ فوری روک دیا
  • حماس کا امریکی جنگ بندی منصوبہ مسترد کرنے کا عندیہ
  • اسرائیل ناجائز ریاست ہے پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا، حاجی حنیف طیب
  •  غزہ امن منصوبہ ،فلسطینی مزاحمت کی ‘‘ہتھیار ڈالنے’’ کی دستاویز!
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
  • بیس نکات کی باسی کڑھی
  • ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ، امن کا وعدہ یا اسرائیل کی جیت؟
  • فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ نہیں، بلکہ فلسطینی عوام کرینگے، علامہ مقصود ڈومکی
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا