Islam Times:
2025-11-18@20:15:47 GMT

غزہ امن منصوبہ اور ہم

اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT

غزہ امن منصوبہ اور ہم

اسلام ٹائمز: ہم اپنے قارئین پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان، فلسطینی قوم کی مرضی کے خلاف کسی ایسے منصوبے کی حمایت کرتا ہے، جو درحقیقت اسرائیل کی توسیع کا منصوبہ ہے تو اس حمایت کے پیچھے کسی قسم کی نظریاتی ہم آہنگی نہیں بلکہ واضح طور پر ایک سیاسی و سفارتی سرنڈر ہے۔ پراکسی ہونا صرف فوجی محاذ پر دوسرے کے مفاد کے لیے لڑنا نہیں ہوتا بلکہ وہ لمحہ جب کوئی ریاست اپنی خود مختار سفارتی زبان کھو دے اور اس کے سیاستدان اور قلم کار اپنے قومی نظریات کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کر دیں تو یہی پراکسی ڈپلومیسی کا چہرہ ہوتا ہے۔ کیا غزہ امن منصوبے کی حمایت کرکے اس وقت ہم بطورِ اسرائیلی پراکسی کام نہیں کر رہے۔؟ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے زیرِ اثر پیش کیا گیا غزہ امن منصوبہ ہمارے وزیرِاعظم صاحب نے شاید دیکھا تک نہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ منصوبہ عدل و انصاف کے اصولوں پر مبنی ہے یا اسے فلسطینیوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔؟ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں اگر اس منصوبے کا جائزہ لیا جائے تو یہ فوری جنگ بندی یا انسانی امداد کی فراہمی کے بجائے فقط اسرائیل کی جغرافیائی اور سیاسی بالادستی کو تحفظ دیتا ہے۔ یعنی یہ دراصل اسرائیل کے عسکری و سیاسی اثرورسوخ کی تنظیمِ نو کا فارمولہ ہے۔ کیا ہمارے وزیراعظم صاحب کو اس کا ادراک ہے کہ فلسطینی قیادت اور عوام کو اس منصوبے کی تشکیل اور اس پر گفت و شنید کے عمل سے مکمل طور پر خارج رکھا گیا ہے۔؟ فلسطینی قیادت اور عوام کو اس منصوبے سے الگ تھلگ رکھنے سے اس منصوبے کی کوئی قانونی حیثیت اور اخلاقی جواز ہی باقی نہیں رہتا کہ جس کی بنیاد پر اس کی حمایت کی جا سکے۔

اس کی ایک اور اہم خامی یہ ہے کہ اس  میں اسرائیل کے غلبے کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اسے ہر طرح کا تحفظ بھی دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی سکیورٹی فورسز، دفاعی حدود اور علاقائی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت، جغرافیائی وحدت اور ریاستی سالمیت کی عملاً نفی کر دی گئی ہے۔ بلاشبہ یہ منصوبہ اصولوں اور انصاف کے بجائے طاقت اور دھونس کا مظہر ہے۔ اس میں فلسطینی پناہ گزینوں کے حقِ واپسی کو نظر انداز کرنا، فلسطینی علاقوں کو الگ الگ انتظامی اکائیوں میں تقسیم رکھنا اور فلسطینی ریاست کی تشکیل کے عمل کو عملی سطح پر غیر یقینی بنا دینا۔۔۔ یوں یہ منصوبہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی عالمی روایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

ایسے میں پاکستان کی جانب سے اس منصوبے کی حمایت کا عمل کئی سیاسی، قانونی اور اخلاقی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس منصوبے میں فلسطینی قیادت کی عدمِ شمولیت، فلسطینی مہاجرین کی واپسی کی نفی اور فلسطین کی تقسیم کا پہلو ہی اس منصوبے کے بطلان کیلئے کافی ہے۔ دوسری طرف پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے، جو تاریخ میں ہمیشہ فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کا حامی رہا، جس نے اقوامِ متحدہ میں ان کے حق میں آواز اٹھائی، جس کے عوام فلسطینی جدوجہد سے جذباتی و نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں، وہ اگر اچانک کسی ایسے منصوبے کی غیر مشروط تائید کرتا نظر آئے، جسے خود فلسطینی مسترد کرچکے ہوں، تو یہ غیر مشروط تائید کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ پاکستان فلسطین کے معاملے میں کسی کرائے کے مزدور کی مانند اسرائیل کی ایک پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے۔

پراکسی ڈپلومیسی کا مطلب ہی یہی ہے کہ اس میں ریاستیں اپنی خارجہ حکمت عملی کسی تیسرے فریق کے دباؤ، اثر یا مفاد کے تابع تشکیل دیتی ہیں۔ ان کا موقف ریاستی اصولوں، قومی نظریات اور جمہوری رجحانات کے منافی ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس منصوبے کی تائید خود پاکستانیوں کیلئے ایک بڑا اسوال ہے، خاص طور پر جب پاکستان کو خلیجی ممالک اور امریکہ جیسے اتحادیوں نے تعلقات و مفادات کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اربابِ اختیار کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ ایسا طرزِ عمل کئی سطحوں پر پاکستان کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے۔ اوّل، اس سے پاکستان کی وہ اخلاقی برتری مجروح ہوتی ہے، جو اس نے ہمیشہ مظلوم اقوام کے حق میں اختیار کی۔ دوم، خارجہ پالیسی کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے اور یہ واضح ہو جائے گا کہ پاکستان سفارتکاری میں بھی دوسروں کی ایک پراکسی ہے۔ سوم، ریاست اور  عوام کے درمیان خلیج مزید گہری ہوگی اور ریاست پر عوام کے اعتماد میں مزید کمی آئے گی۔

ظاہر ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر عوام کا اجتماعی ضمیر جس مؤقف کی توقع کرتا ہے، ریاست اس سے منحرف دکھائی دے رہی ہے۔ اسی عمل کو پراکسی سفارتکاری کہتے ہیں۔ اس میں ایک ریاست خود مختار پالیسی سازی کے بجائے، ثالث یا سرپرست ریاست کے ایجنڈے کو اپناتی ہے۔ غزہ امن منصوبہ ایک ایسے سفارتی فریم ورک کی علامت ہے، جو بکھرتے ہوئے اسرائیل کو دوبارہ جوڑنے کیلئے ہے۔ اس منصوبے میں وہ تمام عناصر شامل ہیں، جو کسی فوری جنگ بندی کو ممکن  بنانے کے بجائے صرف اسرائیل کو بچانے کیلئے فکرمند ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ملک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں وقتی سفارتی مصلحتوں کے بجائے اصولی وابستگی، تاریخی موقف اور عوامی جذبات کو ترجیح دے، تاکہ اس کی سفارت کاری خود مختار ہو اور باوقار  نظر آئے۔

کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ جب قومیں اصولوں و نظریات کی بنیاد پر اپنی راہیں متعین کرتی ہیں تو وہ صرف سیاسی پالیسی نہیں بناتیں بلکہ تاریخ میں اپنے اخلاقی نقوش بھی مرتب کرتی ہیں۔ اس کے برعکس جب یہی قومیں وقت کی گردش، خارجی دباؤ، یا داخلی کمزوریوں کے تحت اپنے اصولوں اور نظریات سے انحراف کرتی ہیں تو تاریخ میں اُن کے کردار کے اندر ایک گہری منفی تبدیلی واقع ہوتی ہے، جسے "نارم شیفٹ" کہا جاتا ہے۔ یہ وہ عمل ہوتا ہے کہ جس کے دوران نظریہ مصلحت میں تحلیل ہو جاتا ہے اور نظریات عارضی فائدے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی محض سفارتی زبان یا سرکاری بیانیے میں نہیں آتی بلکہ قوم کے تشخص کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے، ایسی دیمک جو وقت کے ساتھ ساتھ قومی شناخت، اخلاق اور وژن کے مفاہیم کو کھا جاتی ہے۔ اسی کو سفارتی و نظریاتی کہتے ہیں، چونکہ اس کے دوران ماضی کا "حق" حال کے عارضی "مفاد" میں دفن ہو جاتا ہے۔

یاد رہے کہ قومیں اکثر اپنی شکست میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ اصولوں سے دستبرداری کے لمحے میں کھاتی ہیں اور یہی وہ لمحہ ہے، جب نظریاتی کمزوری کو ریاستی پالیسی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ آخر میں ہم اپنے قارئین پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان، فلسطینی قوم کی مرضی کے خلاف کسی ایسے منصوبے کی حمایت کرتا ہے، جو درحقیقت اسرائیل کی توسیع کا منصوبہ ہے تو اس حمایت کے پیچھے کسی قسم کی نظریاتی ہم آہنگی نہیں بلکہ واضح طور پر ایک سیاسی و سفارتی سرنڈر ہے۔ پراکسی ہونا صرف فوجی محاذ پر دوسرے کے مفاد کے لیے لڑنا نہیں ہوتا بلکہ وہ لمحہ جب کوئی ریاست اپنی خودمختار سفارتی زبان کھو دے اور اس کے سیاست دان اور  قلم کار اپنے قومی نظریات کے خلاف بولنا اور لکھنا شروع کر دیں تو یہی پراکسی ڈپلومیسی کا چہرہ ہوتا ہے۔ کیا غزہ امن منصوبے کی حمایت کرکے اس وقت ہم بطورِ اسرائیلی پراکسی کام نہیں کر رہے۔؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: منصوبے کی حمایت اس منصوبے کی پاکستان کی اسرائیل کی کے بجائے جاتا ہے ہوتا ہے کے خلاف

پڑھیں:

اسرائیل فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی کوشش کر رہا ہے، جنوبی افریقا

JOHANNESBURG:

جنوبی افریقا کی حکومت نے اسرائیل سے حالیہ دنوں میں آنے والی دو مشکوک چارٹر پروازوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پر سوار فلسطینیوں کی آمد غزہ اور مغربی کنارے سے فلسطینی آبادی کو صاف کرنے کے ایک واضح اور منظم ایجنڈے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ جمعرات کو 153 فلسطینی ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے جوہانسبرگ پہنچے تھے جن کے پاسپورٹ پر اسرائیلی روانگی کی کوئی مہر موجود نہیں تھی۔

اس سے قبل 28 اکتوبر کو 176 فلسطینیوں کا ایک اور گروپ بھی جنوبی افریقا لایا گیا تھا جس کا انکشاف امدادی تنظیم گِفٹ آف دی گیورز نے کیا۔

جنوبی افریقا کے وزیر خارجہ رونالڈ لامولا نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ سرکاری ادارے ان پروازوں کے طریقہ کار اور پس منظر پر شکوک کا شکار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر سرحدی پولیس نے مسافروں کو 12 گھنٹے طیارے کے اندر ہی روکے رکھا، بعد ازاں صدر سیرل راما پھوسا کی منظوری کے بعد انہیں معمول کے 90 روزہ ویزا استثنیٰ کے تحت ملک میں داخل ہونے دیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق ال-مجد نامی ایک غیر معروف تنظیم ان فلسطینیوں کے سفر کا بندوبست کر رہی تھی۔

 گفٹ آف دی گیورز کے مطابق کچھ افراد کو غلط معلومات فراہم کی گئیں اور انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ انڈونیشیا، ملیشیا یا بھارت جا رہے ہیں۔

متعدد افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے تقریباً  2 ہزار ڈالر فی کس اس تنظیم کو ادا کیے اور انہیں منزل کے بارے میں مکمل معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

آمد کے بعد جب ان فلسطینیوں کو رہائش فراہم کی گئی تو یہ بھی سامنے آیا کہ ان کی رہائش صرف ایک ہفتے کے لیے بک تھیاور وہاں پہنچنے کے بعد ’’ال-مجد‘‘ نامی تنظیم نے ان سے مکمل رابطہ ختم کر دیا۔

جنوبی افریقا میں فلسطینی سفارتخانے نے بھی تصدیق کی کہ دونوں گروپوں کا سفر ایک غیر رجسٹرڈ اور گمراہ کن تنظیم نے منظم کیا جس نے غزہ کے سنگین انسانی بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں سے پیسے بھی وصول کیے۔

وزیر خارجہ لامولا نے واضح کیا کہ جنوبی افریقا مزید ایسی پروازوں کو قبول نہیں کرے گا، کیونکہ یہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے ہٹانے کے ایک بڑے منصوبے کی علامت دکھائی دیتی ہیں۔

 ان کے مطابق حکومت اس پورے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تحقیقات کر رہی ہے جب کہ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ ان افراد کو ایک تیسرے ملک کی منظوری کے بعد غزہ چھوڑنے دیا گیا۔

یاد رہے کہ جنوبی افریقا، جو اس ہفتے جی20 اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے فلسطینی عوام کے بھرپور سیاسی و سفارتی حمایت کنندگان میں شمار ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ صرف فلسطینیوں کا ہے، امریکی قرارداد پر چین و روس کا سخت اعتراض
  • سلامتی کونسل ، ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے حق میں قرارداد منظور،حماس کی مخالفت، پاکستان کی حمایت
  • سلامتی کونسل نے ٹرمپ کا امن منصوبہ منظور کردیا، غزہ میں عالمی استحکام فورس کی منظوری
  • پاکستان نے ایک بار پھر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر دیا
  • پاکستان صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی مکمل حمایت کرتا ہے، عاصم افتخار
  • اسرائیل فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی کوشش کر رہا ہے، جنوبی افریقا
  • غزہ امن منصوبہ: حماس نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو مسترد کردیا
  • سکیورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
  • فلسطینی ریاست کا قیام قبول نہیں: سلامتی کونسل اجلاس سے قبل اسرائیل نے مخالفت کردی
  • بیروزگاروں کی سنی گئی :ملک بھر میں ہزاروں سرکاری نوکریاں