دو ریاستی حل دائمی امن کا واحد راستہ ہے: یورپی کمیشن
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
لڑائی فوری ختم ہونی چاہیے ساتھ ہی غزہ کے باشندوں کے لیے انسانی امداد فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے۔
عالمی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یورپی کمیشن کی صدر اورسولا فان ڈیئرلائن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس امن منصوبے کا خیرمقدم کیا جس کا مقصد غزہ کی پٹی میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کو ختم کرنا ہے۔
اورسولا فان ڈیئرلائن نے آج منگل کو “ایکس” پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ “دو ریاستی حل اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے منصفانہ اور دائمی امن حاصل کرنے کا واحد عملی راستہ ہے”۔ انھوں نے زور دیا کہ وہ “تمام فریقوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتی ہیں”۔ اورسولا کے مطابق یورپی یونین اس حوالے سے اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے۔
یورپی کمیشن کی صدر نے کہا کہ “فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے اور غزہ کے باشندوں کے لیے فوری انسانی امداد فراہم کی جائے اور تمام یرغمالیوں کو فوراً رہا کیا جائے”۔
گزشتہ روز امریکی صدر نے اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ نیتن یاہو نے غزہ میں لڑائی روکنے اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے ان کے تجویز کردہ امن منصوبے کو منظور کر لیا ہے۔
اس دوران وائٹ ہاؤس نے اس منصوبے کے 20 نکات شائع کیے، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ “غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کیا جائے گا اور اسے ایک انتظامی کمیٹی کے زیر انتظام رکھا جائے گا، جس میں فلسطینی ٹیکنوکریٹس اور بین الاقوامی ماہرین شامل ہوں گے … اور حماس کا اس میں کوئی کردار نہیں ہو گا”۔
یہ کمیٹی ایک نئی بین الاقوامی عبوری اتھارٹی “کمیٹی برائے امن” کے تحت کام کرے گی جس کی قیادت اور سربراہی ٹرمپ کریں گے۔ دیگر ارکان اور عالمی رہنماؤں کے ناموں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا جن میں برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہیں۔ جب تک فلسطینی اتھارٹی اپنا اصلاحی پروگرام مکمل نہیں کرتی، مذکورہ عبوری اتھارٹی غزہ کی تعمیر نو کے لیے فنڈنگ کو منظم کرے گی۔ یہ اتھارٹی محفوظ اور مؤثر طریقے سے غزہ پر دوبارہ کنٹرول قائم کرنے کے قابل ہو گی۔
کئی عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے بھی ٹرمپ کے منصوبے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
دوسری جانب فلسطینی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس منصوبے کا جائزہ لے گی اور اس کا جواب دے گی، تاکہ فلسطینی عوام کے مفاد کو یقینی بنایا جا سکے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: کیا جائے کے لیے کی صدر
پڑھیں:
غزہ امن منصوبے کے دوران اسرائیلی حملوں میں شدت، 61 فلسطینی شہید
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فضائی اور زمینی حملوں کی شدت میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے۔ الجزیرہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق، صرف فجر کے بعد سے اب تک کم از کم 61 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ درجنوں شدید زخمی ہیں۔
غزہ شہر کے رہائشیوں پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔ لگاتار بمباری اور گولہ باری کے باعث لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں، مگر نہ کوئی محفوظ پناہ گاہ ہے، نہ سکون کا لمحہ — جہاں جاتے ہیں، وہاں موت کا سایہ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فضائیہ نے الزیتون محلے کے ایک اسکول کو نشانہ بنایا جو عارضی طور پر بے گھر شہریوں کی پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ سول ڈیفنس کی ٹیمیں جب زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے پہنچی تو انہی پر دوبارہ حملہ کر دیا گیا۔ العربی اسپتال کے طبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اس حملے میں 6 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔
دیگر حملوں میں دارج محلے کا ایک گھر ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا، جس میں 7 افراد شہید ہوئے، جب کہ جنوب مشرقی زیتون محلے میں ایک معصوم بچہ جان کی بازی ہار گیا۔ غزہ شہر کے مرکزی علاقے عملاً کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں — درجنوں رہائشی عمارتیں، اسکول اور بنیادی سہولیات کے ڈھانچے تباہ کر دیے گئے ہیں۔
غزہ کی سرکاری میڈیا آفس کے مطابق، اسرائیلی فوج نے الراشد اسٹریٹ کو بند کر دیا ہے، جو شہر کے اندرونی علاقوں کو ملانے والا ایک کلیدی راستہ ہے، جس سے عام شہریوں کی نقل و حرکت مزید مشکل ہو گئی ہے۔
ادھر، وسطی غزہ میں نصیرات اور بُریج کیمپوں پر ہونے والے فضائی حملوں میں بھی 3 افراد شہید ہو گئے۔ الجزیرہ کے نمائندے ہانی محمود نے نصیرات کے ساحلی علاقے سے رپورٹ کرتے ہوئے بتایا کہ لوگ ایسے مقامات پر جا رہے ہیں جو شدید غیر محفوظ اور بدترین حالات کا شکار ہیں — بیشتر خاندان سمندر کنارے خیموں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، جہاں نہ بنیادی سہولتیں ہیں، نہ حفاظت۔
محمد الترکمانی، جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ غزہ شہر سے نکل کر سمندر کنارے ایک خیمے میں رہائش پذیر ہیں، جذباتی انداز میں بتاتے ہیںکہ مجھے معلوم نہیں کہ ہم اس خیمے میں کیسے زندہ رہیں گے۔ سردیاں قریب آ رہی ہیں، بارشوں میں سیلاب کا خدشہ ہے، خیمہ پھٹ سکتا ہے… میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں اپنے بچوں کو گرمی، سردی اور جنگ سے بچانا چاہتا ہوں۔ بس یہی میری پوری زندگی کی خواہش ہے۔”
اسی دوران، بین الاقوامی کارکنوں کا قافلہ “گلوبل صمود فلوٹیلا” غزہ کی بحری ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ منتظمین کے مطابق، کشتی اس وقت “ہائی رسک زون” میں داخل ہو چکی ہے، جو غزہ سے تقریباً 150 میل (278 کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع ہے۔
غزہ میں موجودہ صورتِ حال نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی عکاس ہے بلکہ یہ عالمی ضمیر کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔ جنگ بندی کی باتیں ضرور ہو رہی ہیں، مگر زمین پر سچائی یہ ہے کہ عام فلسطینی مسلسل خوف، بھوک، بےگھری اور موت کا سامنا کر رہے ہیں — اور ان کے لیے نہ کوئی محفوظ پناہ گاہ ہے، نہ کوئی پرسان حال۔
یہ ایک ایسا لمحہ ہے جہاں عالمی برادری کو محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ انسانیت کا تحفظ ممکن ہو سکے اور مظلوموں کو جینے کا حق واپس ملے۔