غزہ کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیس نکاتی منصوبہ کیا ہے؟ مکمل متن
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ تنازع کے خاتمے کے لیے وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ منصوبے کا مکمل متن درج ذیل ہے
1۔ غزہ ایک غیر انتہا پسند، دہشت گردی سے پاک علاقہ ہوگا جو اپنے ہمسایوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔
2۔ غزہ کو اس کے عوام کے فائدے کے لیے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا، جو پہلے ہی بہت زیادہ تکالیف برداشت کر چکے ہیں۔
3۔ اگر دونوں فریق اس تجویز پر رضامند ہو جائیں تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی، اسرائیلی فوجیں یرغمالیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے متفقہ لائن تک پیچھے ہٹ جائیں گی، اس دوران فضائی اور توپ خانے کی بمباری سمیت تمام عسکری اقدامات معطل کیے جائیں گے، اور جنگی صفیں اس وقت تک منجمد رہیں گی جب تک مکمل مرحلہ وار واپسی کے لیے ضروری شرائط پوری نہ ہو جائیں۔
4۔ اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کو عوامی سطح پر منظور کیے جانے کے 72 گھنٹے کے اندر تمام (قیدی)، چاہے زندہ ہوں یا مردہ، واپس کیے جائیں گے۔
5۔ جیسے ہی تمام (قیدی) رہا کر دیے جائیں گے، اسرائیل عمر قید کے 250 قیدیوں کے علاوہ غزہ کے 1700 ایسے باشندوں کو رہا کرے گا جو 7 اکتوبر 2023 کے بعد حراست میں لیے گئے تھے، جن میں اس سلسلے میں زیرِ حراست تمام خواتین اور بچے شامل ہیں، ہر اسرائیلی یرغمالی کی لاش کے بدلے اسرائیل غزہ کے 15 شہدا کی میتیں حوالے کرے گا۔
6۔ جیسے ہی تمام (قیدی) واپس کر دیے جائیں گے، حماس کے وہ ارکان جو پرامن بقائے باہمی اور اپنے ہتھیار غیر فعال کرنے کے عہد پر قائم ہوں گے، انہیں عام معافی دی جائے گی، حماس کے وہ ارکان جو غزہ چھوڑنا چاہتے ہیں، انہیں وصول کرنے والے ممالک تک محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔
7۔ اس معاہدے کی منظوری کے فوراً بعد غزہ کی پٹی میں مکمل امداد بھیج دی جائے گی، کم از کم امداد کی مقدار وہی ہوگی جو 19 جنوری 2025 کے معاہدے میں انسانی ہمدردی کی امداد کے حوالے سے طے کی گئی تھی، جس میں بنیادی ڈھانچے (پانی، بجلی، نکاسی آب) کی بحالی، ہسپتالوں اور بیکریوں کی بحالی، اور ملبہ ہٹانے اور سڑکیں کھولنے کے لیے ضروری سامان کی فراہمی شامل ہے۔
8۔ غزہ کی پٹی میں امداد اور اس کی تقسیم کا عمل اقوام متحدہ اور اس کے اداروں، ہلالِ احمر اور کسی بھی فریق سے غیر وابستہ دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بلا مداخلت جاری رہے گا، رفح کراسنگ کو دونوں اطراف سے اسی طرح کھولا جائے گا جیسا 19 جنوری 2025 کے معاہدے میں نافذ کیا گیا تھا۔
9۔ غزہ کا انتظام ایک عارضی عبوری نظامِ حکومت کے تحت ہوگا جو تکنیکی ماہرین پر مشتمل غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کے ذریعے چلایا جائے گا، یہ کمیٹی غزہ کے عوام کے لیے عوامی خدمات اور بلدیاتی امور کی روزمرہ نگرانی اور انجام دہی کی ذمہ دار ہوگی۔
یہ کمیٹی ماہر فلسطینیوں اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ہوگی، جس کی نگرانی اور دیکھ بھال ایک نئے بین الاقوامی عبوری ادارے ’بورڈ آف پیس‘ کے ذریعے کی جائے گی، جس کی قیادت اور صدارت صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کریں گے، دیگر اراکین اور سربراہانِ مملکت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا، جن میں سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے۔
یہ ادارہ غزہ کی دوبارہ تعمیر کے لیے فریم ورک تشکیل دے گا اور فنڈنگ کا انتظام کرے گا، یہاں تک کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی اصلاحاتی منصوبہ بندی مکمل کر لے، (جیسا کہ مختلف تجاویز میں بیان کیا گیا ہے، جن میں صدر ٹرمپ کا 2020 کا امن منصوبہ اور سعودی۔فرانسیسی تجویز شامل ہیں) اور اس قابل ہو جائے کہ وہ غزہ کا مؤثر اور محفوظ طریقے سے کنٹرول دوبارہ سنبھال سکے، یہ ادارہ بہترین بین الاقوامی معیارات کی بنیاد پر جدید اور مؤثر طرزِ حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کرے گا جو غزہ کے عوام کی خدمت کرے اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرے۔
10۔ غزہ کی تعمیرِ نو اور اسے ترقی کی نئی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ٹرمپ کا اقتصادی ترقیاتی منصوبہ تشکیل دیا جائے گا، جس کے لیے ایسے ماہرین پر مشتمل ایک پینل قائم کیا جائے گا جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ میں جدید اور خوشحال معجزاتی شہروں کی بنیاد رکھنے میں کردار ادا کیا ہے، کئی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے سوچے سمجھے سرمایہ کاری کے منصوبے اور پرجوش ترقیاتی تجاویز تیار کی گئی ہیں، جنہیں زیرِ غور لایا جائے گا تاکہ سیکیورٹی اور حکمرانی کے ڈھانچوں کو یکجا کر کے ایسی سرمایہ کاری کو راغب اور آسان بنایا جا سکے جو غزہ کے مستقبل کے لیے روزگار، مواقع اور امید فراہم کرے گی۔
11۔ ایک خصوصی اقتصادی زون قائم کیا جائے گا، جس کے لیے ترجیحی ٹیرف اور رسائی کی شرحیں شریک ممالک کے ساتھ طے کی جائیں گی۔
12۔ کسی کو بھی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور جو لوگ جانا چاہیں گے وہ آزاد ہوں گے کہ جا سکیں اور واپس بھی آسکیں، ہم لوگوں کو یہاں رہنے کی ترغیب دیں گے اور انہیں ایک بہتر غزہ تعمیر کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔
13۔ حماس اور دیگر دھڑے اس بات پر متفق ہیں کہ وہ غزہ کی حکمرانی میں براہِ راست، بالواسطہ یا کسی بھی شکل میں کوئی کردار نہیں رکھیں گی، تمام فوجی، دہشت گردی سے متعلق اور جارحانہ انفرااسٹرکچر، بشمول سرنگیں اور اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں، تباہ کی جائیں گی اور دوبارہ تعمیر نہیں کی جائیں گی۔
غزہ کو غیر عسکری بنانے کا ایک عمل آزاد نگرانوں کی نگرانی میں انجام دیا جائے گا، جس میں اسلحہ کو ایک طے شدہ غیر فعال کرنے کے طریقہ کار کے تحت مستقل طور پر ناقابلِ استعمال بنایا جائے گا، اور اسے ایک بین الاقوامی مالی معاونت یافتہ باز خریداری (buy-back) اور دوبارہ شمولیت کے پروگرام سے سہارا دیا جائے گا، آزاد نگران تمام مراحل کی توثیق کریں گے، نیا غزہ ایک خوشحال معیشت کی تعمیر اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے لیے پوری طرح پرعزم ہوگا۔
14۔ علاقائی شراکت داروں کی جانب سے ایک ضمانت فراہم کی جائے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ حماس اور دیگر دھڑے اپنی ذمہ داریوں کی پابندی کریں اور نیا غزہ اپنے ہمسایوں یا اپنے لوگوں کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو۔
15۔ امریکا، عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک عارضی بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) تیار کرے گا جو فوری طور پر غزہ میں تعینات کی جائے گی، آئی ایس ایف غزہ میں جانچ پڑتال شدہ فلسطینی پولیس فورسز کو تربیت اور معاونت فراہم کرے گی، اور اس سلسلے میں وسیع تجربہ رکھنے والے اردن اور مصر سے مشاورت کرے گی۔
یہ فورس طویل المدتی داخلی سلامتی کا حل ہوگی، آئی ایس ایف اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر نئے تربیت یافتہ فلسطینی پولیس اہلکاروں کے ساتھ سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے میں مدد کرے گی، یہ نہایت ضروری ہے کہ غزہ میں اسلحہ داخل ہونے سے روکا جائے اور تعمیرِ نو و بحالی کے لیے سامان کی تیز اور محفوظ ترسیل کو ممکن بنایا جائے، فریقین کے درمیان ایک ٹکراؤ سے بچاؤ کا طریقہ کار طے کیا جائے گا۔
16۔ اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا، جب آئی ایس ایف کنٹرول اور استحکام قائم کرے گا تو اسرائیلی فوج ایسے معیارات، سنگ میل اور وقتی حدود کی بنیاد پر پیچھے ہٹے گی جو اسرائیلی فوج، آئی ایس ایف، ضامنوں اور امریکا کے درمیان طے کیے جائیں گے، مقصد یہ ہوگا کہ ایک محفوظ غزہ قائم کیا جائے جو اسرائیل، مصر یا اس کے شہریوں کے لیے خطرہ نہ رہے۔
اسرائیلی فوج عبوری اتھارٹی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت عملی طور پر غزہ کے مقبوضہ علاقے کو بتدریج آئی ایس ایف کے حوالے کرے گی، یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر غزہ سے واپس نہ ہو جائیں، تاہم ایک سیکیورٹی حصار کے طور پر موجودگی برقرار رہے گی جب تک کہ غزہ کسی دوبارہ سر اُٹھانے والے دہشت گردی کے خطرے سے مکمل طور پر محفوظ نہ ہو جائے۔
17۔ اگر حماس اس تجویز میں تاخیر کرے یا اسے رد کر دے تو اوپر بیان کردہ اقدامات، بشمول بڑھائی گئی امدادی کارروائی، ان دہشت گردی سے پاک علاقوں میں جاری رکھے جائیں گے جو اسرائیلی فوج نے آئی ایس ایف کے حوالے کیے ہوں گے۔
18۔ ایک بین المذاہب مکالمے کا عمل قائم کیا جائے گا جو رواداری اور پُرامن بقائے باہمی کی اقدار پر مبنی ہوگا، تاکہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی ذہنیت اور بیانیے کو بدلنے کی کوشش کی جا سکے اور امن سے حاصل ہونے والے فوائد کو اجاگر کیا جا سکے۔
19۔ جب غزہ کی تعمیرِ نو آگے بڑھے گی اور فلسطینی اتھارٹی کا اصلاحاتی پروگرام دیانت داری سے نافذ کیا جائے گا، تو ممکن ہے کہ ایسے حالات آخرکار میسر آجائیں جو فلسطینی عوام کی خواہشات کے مطابق ان کی خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک معتبر راستہ فراہم کریں، جسے ہم فلسطینی عوام کی آرزو کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
20۔ امریکا اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک مکالمہ عمل شروع کرے گا تاکہ پُرامن اور خوشحال بقائے باہمی کے لیے ایک سیاسی افق پر اتفاق ہو سکے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: قائم کیا جائے بین الاقوامی اسرائیلی فوج بقائے باہمی کیا جائے گا آئی ایس ایف کی جانب سے جائیں گے بنایا جا جائیں گی کے ساتھ جائے گی کرے گی جا سکے کے لیے اور اس غزہ کی ہوں گے کرے گا غزہ کے
پڑھیں:
حماس کا جواب، ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل سے غزہ میں فوری حملے روکنے کا مطالبہ
امریکی صدر نے زور دیا کہ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ پر بمباری روک دینی چاہئے تاکہ یرغمالیوں کو فوری اور محفوظ طریقے سے نکالا جا سکے کیونکہ موجودہ صورتحال میں ایسا کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے امن منصوبے پر ردعمل سامنے آنے کے بعد اسرائیل سے غزہ میں حملے روکنے کا مطالبہ کر دیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے زور دیا کہ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ پر بمباری روک دینی چاہئے تاکہ یرغمالیوں کو فوری اور محفوظ طریقے سے نکالا جا سکے کیونکہ موجودہ صورتحال میں ایسا کرنا انتہائی خطرناک ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس وقت مذاکرات کی تفصیلات پر بات چیت جاری ہے، انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں طویل عرصے سے مطلوب امن قائم کرنے کا ہے۔ یاد رہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی غزہ امن منصوبہ بڑی حد تک قبول کرلیا، حماس نے ٹرمپ منصوبے پر رد عمل دیتے ہوئے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی غزہ پر جنگ ختم کرنے اور اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کے بدلے تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔
تنظیم کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ وہ غزہ کی انتظامیہ ایک ایسے آزاد اور غیر جانبدار ادارے کے حوالے کرنے پر راضی ہے جو فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہو، اس ادارے کی تشکیل قومی اتفاق رائے اور عرب و اسلامی حمایت کی بنیاد پر کی جائے گی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کی تجویز میں غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق سے متعلق جو دیگر نکات شامل ہیں، وہ ایک مشترکہ قومی مؤقف، بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔