Islam Times:
2025-11-18@21:01:58 GMT

موضوع: امام حسن عسکری علیہ السّلام کا تنظیمی نظام

اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT

دین و دنیا پروگرام اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ پر ہر جمعہ نشر کیا جاتا ہے، اس پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو خصوصاً امام و رہبر کی نگاہ سے، مختلف ماہرین کے ساتھ گفتگو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کا انتظار رہتا ہے۔ متعلقہ فائیلیں 
پروگرام دین و دنیا
موضوع: امام حسن عسکری علیہ السّلام کا تنظیمی نظام
مہمان : حجہ الاسلام و المسلمین جناب عون علوی
میزبان: محمد سبطین علوی
موضوعات گفتگو:
تشیع کے تنظیمی نظام کا آغاز کب اور کیسے؟
امام حسن عسکری علیہ السّلام کے تنظیمی نظام کے اہداف
امام حسن عسکری علیہ السّلام کے تنظیمی نظام کے لئے اقدامات
خلاصہ گفتگو:
تشیع کا تنظیمی نظام دراصل ائمہ اطہار علیہم السّلام کے دور میں ہی آغاز پذیر ہوا۔ امام جعفر صادق علیہ السّلام کے زمانے میں وکالت اور نمائندگی کے ذریعے اس نظام کی بنیاد رکھی گئی جسے بعد کے ائمہ نے مزید مضبوط کیا۔ امام حسن عسکری علیہ السّلام کے دور میں عباسی حکومت کی سخت نگرانی اور محدود آزادیوں کے باوجود یہ نظام ایک منظم صورت اختیار کر گیا۔
 
امام حسن عسکری علیہ السّلام کے تنظیمی نظام کا سب سے اہم ہدف شیعہ معاشرے کو فکری، اعتقادی اور سیاسی طور پر مستحکم بنانا اور آئندہ آنے والے غیبت کے دور کے لیے انہیں تیار کرنا تھا۔ اس نظام کے ذریعے شیعہ پیغام کو محفوظ رکھنا، رابطہ قائم رکھنا اور قیادت کی ہدایات پہنچانا ممکن ہوا۔
 
امام علیہ السّلام نے اس مقصد کے لیے مختلف علاقوں میں اپنے نمائندے اور وکلاء مقرر کیے، خطوط اور پیغامات کے ذریعے شیعہ عوام سے رابطہ رکھا اور تقیہ کے ذریعے دشمن کی سازشوں سے تحفظ فراہم کیا۔ یہ اقدامات تشیع کے بقا اور استحکام کے ضامن ثابت ہوئے۔
 
 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امام حسن عسکری علیہ الس لام کے کے تنظیمی نظام کے ذریعے

پڑھیں:

پاکستان ریلوے، مستقبل کے چیلنجز

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی حکومت تمام صوبوں کے ساتھ مل کر ریلوے نیٹ ورک کو وسطی ایشیا تک توسیع دے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی کو ملک کا معاشی مرکز اور ’’پاکستان کا دل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت، سندھ حکومت کے تعاون سے کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) کی جدیدیت اور صوبے سمیت ملک بھر کے ریلوے اسٹیشنز کی اپ گریڈیشن یقینی بنائے گی۔

بلاشبہ مستقبل کا ایک اہم چیلنج ٹیکنالوجی ہے۔ آج ڈیجیٹل نظام ہر شعبے کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ ٹکٹنگ، ٹرین ٹریکنگ، ریزرویشن، کارگو مینجمنٹ، اسٹیشن کنٹرول، ہر چیز ٹیکنالوجی کے بغیر ادھوری ہے۔ پاکستان ریلوے اپنے نظام کو ڈیجیٹلائز کرنے سے نہ صرف مسافروں کو سہولت مل رہی ہے بلکہ اس طرح انتظامیہ کے لیے بھی شفافیت اور کارکردگی میں اضافہ ممکن ہوگا۔ پاکستان کے وزیراعظم بھی ریلوے کی بہتری کے لیے پرامید دکھائی دیتے ہیں، اور پاکستان ریلوے کے وسائل کا دائرہ کار بھی وسیع کرچکے ہیں۔

اب ریلوے کو ازخود کام کرنے اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کراچی جیسے میگا سٹی کے لیے سرکلر ریلوے کی بحالی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وزیراعلیٰ سندھ کی خواہش پر اگر یہ منصوبہ وزیراعظم سی پیک میں شامل کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کراچی کے ٹریفک مسائل سے دوچار عوام کے لیے مژدہ جانفزا ہوگا،کیونکہ پاکستان ریلوے کا سب سے بڑا چیلنج اس کا فرسودہ انفرا اسٹرکچر ہے۔ آج بھی ریلوے ٹریکس، سگنلنگ سسٹم، انجنز اور بوگیاں کئی دہائیوں پرانے ہیں، جن کی حالت نہ صرف ٹرینوں کی رفتار کم رکھتی ہے بلکہ حادثات کے خطرات بھی بڑھا دیتی ہے۔

جدید دنیا میں ریلوے نظام تیز رفتار ٹرینوں، خودکار کنٹرول سسٹمز اور ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی کے بغیر سوچا بھی نہیں جا سکتا، جب کہ پاکستان میں ٹیکنیکل اپ گریڈیشن کا سفر سست روی کا شکار ہے۔ نتیجتاً نہ صرف ٹرینیں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں بلکہ مسافر سہولیات بھی متاثر ہوتی ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی حادثے کی خبر سامنے آنا ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہمارے ریلوے کے حفاظتی نظام کو فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔

پاکستان ریلوے کی کارگو سروس اگر صحیح معنوں میں فعال ہو جائے تو ملکی معیشت کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ دنیا بھر میں مال بردار ٹرینیں سڑکوں سے کہیں زیادہ مؤثر، سستی اور ماحول دوست سمجھی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں کارگو ریلوے کو طویل عرصہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، جس کے باعث قومی تجارت کا انحصار ٹرکوں اور ملٹی ویلر ٹرالرز اور سڑکوں پر منتقل ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف پورٹس پر بوجھ بڑھ گیا بلکہ سڑکوں کی حالت بھی بگڑی اور تیل کی کھپت میں اضافہ ہوا، اگر ریلوے کارگو سروس کو جدید تقاضوں کے مطابق بہتر کرلیا جائے تو درآمد و برآمد کا پورا نظام سستا اور تیز رفتار بنایا جا سکتا ہے، جو ملکی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔

پاکستان ریلوے کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرنا بھی مستقبل کے چیلنجز میں سب سے اہم ہے۔ آبادی میں اضافہ اور شہروں کا پھیلاؤ بھی ریلوے کے لیے نئے چیلنجز لائے ہیں۔ آج پاکستان کے بڑے شہر ٹریفک کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اگر ریلوے شہری ٹرانسپورٹ میں مؤثر کردار ادا کرے تو شہروں کی زندگی میں آسانی آ سکتی ہے۔

لاہور میٹرو ٹرین جیسے منصوبے اس کی مثال ہیں، مگر انھیں مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ کراچی، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان اور دیگر بڑے شہروں میں شہری ریلوے نظام قائم کیا جائے تو یہ ٹریفک کے مسائل کے حل میں مدد دے سکتا ہے اور لاکھوں شہریوں کو بہتر سفری سہولت مل سکتی ہے۔ سی پیک کے تناظر میں ریلوے کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ اگر پاکستان ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کر دیا جائے تو یہ خطے کی معاشی راہداری بن سکتا ہے، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ چین، وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے تجارتی راستے مستحکم ہوں گے۔ مگر اس کے لیے ریلوے کو عالمی معیار کے مطابق اپ گریڈ کرنا ہوگا، ورنہ ہم علاقائی تجارت کے اس بڑے موقع سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جائیں گے۔

پاکستان ریلوے کو ملکی ٹرانسپورٹ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، یہ محکمہ اپنے اندر عروج و زوال اور پھر استحکام کی تاریخ لیے ٹریک پر چلے جا رہا ہے۔ پاکستان میں 150 سال پرانی ریلوے لائن اپنے ہاتھ میں معاشی ترقی کی ان گنت کنجیاں رکھتی ہے مگر اپنی 78 سالہ تاریخ میں پاکستان ان میں سے ایک بھی حاصل نہیں کر پایا۔ کراچی سے پشاور تک جانے والی 1800 کلومیٹر سے زیادہ طویل مین ریلوے لائن ایک یا ایم ایل ون اسے وراثت میں ملی لیکن آج تک پاکستان نہ تو اس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کر پایا اور نہ ہی کوئی بہتری لائی جا سکی۔

 عوام کو ریلوے مسائل کے حوالے سے محکمے اور حکومت سے شکایات بھی ہیں، جیسا کہ نئی ٹرینوں کو چلانے سے قبل ایک بار اس ریلوے ٹریک اور سگنل نظام کا تو جائزہ لیا جائے، جو اس قابل ہی نہیں جن پر اتنا بوجھ ڈالا جائے۔ بنیادی طور پر ان حادثات کی وجہ بھی یہی ہے کہ موجودہ سسٹم ہی اتنا بوجھ برادشت کرنے کی قابلیت سے قاصر ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نئی ٹرینوں کو چلانے سے پہلے ان سب باتوں کی جانب توجہ کیوں نہیں دی جاتی؟ ٹریک لیول،کراسنگ، سگنل سسٹم کو کیوں بہتر نہیں بنایا جاتا؟ ان حادثات کے بعد ایک جانب پاکستان ریلوے کو تو نقصان ہو ہی رہا ہے، دوسری جانب عوام کے ردعمل میں بھی ٹرین کے سفر کو غیر محفوظ سمجھا جانے لگا ہے۔ پاکستان میں معاشی ترقی ایم ایل ون کے بغیر ممکن ہونا مشکل ہے۔ زیادہ مال بردار گاڑیاں چلنے سے ریلوے زیادہ سامان کراچی سے ملک کے دوسرے حصوں میں تیز رفتاری اور کم خرچ پر ترسیل کرے گا۔ مال بردار گاڑی کے لیے 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار عالمی سطح کے عین مطابق ہے۔ اس طرح مال کی قیمت کم بھی ہو گی اور وہ وقت پر مہیا بھی ہو گا۔ یوں خود بخود کاروبار میں اضافہ ہو گا۔ روڈ ٹرانسپورٹ کے ذریعے سامان کی ترسیل نسبتاً مہنگی بلکہ سست رو بھی ہے۔

اس سے سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی زیادہ ہے۔ ایم ایل ون مکمل ہونے سے پاکستان کو خطے میں تجارتی اعتبار سے بنیادی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ پاکستان میں ٹرین کا سفر ہمیشہ سے عوام کے لیے ایک سہولت سمجھا جاتا رہا ہے، مگر موجودہ صورتحال نے اس سہولت کو ایک بڑے مسئلے میں بدل دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے جس نے ہزاروں مسافروں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ٹکٹ لینے کے باوجود مسافروں کو ریلوے اسٹیشن پر جا کر پتا چلتا ہے کہ انھیں اپنی منتخب کردہ ٹرین کے بجائے دوسری ٹرین میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ یہ صورتحال نہ صرف مسافروں کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے بلکہ ریلوے کے نظام کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کر رہی ہے۔

1960 کے اوائل میں پاکستان کی زیادہ تر تجارتی نقل و حمل کا 75 فیصد ریلوے کے ذریعے ممکن ہوتا تھا لیکن پھر حکومت کی ترجیحات بدل گئیں اور ریلوے کے نظام سے توجہ ہٹالی گئی۔ پاکستان ریلوے نے جب چند ٹرینوں کو نجی کمپنیوں کے حوالے کیا تو نتائج حیران کن طور پر مثبت نکلے۔ مسئلہ صرف مینجمنٹ اور نگرانی کے نظام کا ہے۔ پرائیویٹ کمپنیز ٹرین کے ہر ڈبے کے لیے ایک ٹکٹ چیکر اور ایک محافظ مقرر کرتی ہیں جن کی ذمے داری صرف اپنے کمپارٹمنٹ کے مسافروں پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ یہ عمل مسافروں کے نظم و ضبط اور اطمینان میں اضافہ کرتا ہے۔

وہ بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے ہر شخص سے کرائے کے ساتھ دس یا بیس روپے آن لائن ٹکٹ فیس وصول کرتے ہیں اور ٹکٹ گیجٹ سے نکال کر مسافر کے حوالے کر دیتے ہیں۔ اس کا ریکارڈ فوری طور پر ہیڈ آفس کو منتقل ہو جاتا ہے، اگر ٹرین کے دس ڈبے ہوں تو دس ٹکٹ چیکر تعینات کیے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ٹرین کے نظام پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹرین کے نظام کو جس طرح بہترین بنادیا گیا، اس سے یہ اندازہ لگانا بالکل بھی مشکل نہیں کہ ٹرین کا نظام کسی بھی ملک کے ریونیو اور سفری سہولیات کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان ریلوے، مستقبل کے چیلنجز
  • بھارتی آرمی چیف کا باہمی تضادات اور ذہنی انتشار سے بھرا بیان، عسکری قیادت شدید ذہنی بوکھلاہٹ کا شکار
  • بھارتی آرمی چیف کا باہمی تضادات اور ذہنی انتشار سے بھرا بیان، عسکری قیادت شدید ذہنی بوکلاہٹ کا شکار
  • حرمِ مطہر امام رضا علیہ‌السلام میں علامہ طباطبائیؒ کی یاد میں تقریب
  • امام مسجد کے گھر میں ڈکیتی، چور لاکھوں مالیت کا سونا اور نقدی لے اڑے
  • حزب اللہ کے بانی رہنماء شہید سید عباس موسوی کی بیٹی کا انٹرویو 
  • ڈیرہ غازیخان، ایم ڈبلیو ایم تحصیل کوٹ چھٹہ کا تنظیمی الیکشن
  • ڈیرہ غازیخان، ایم ڈبلیو ایم تحصیل کوٹ چھٹہ کا تنظیمی الیکشن، مولانا مظہر حسین جعفری صدر منتخب 
  • شاہ عبداللہ دوم کا ’گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشنز‘ کا دورہ‘ فیلڈ مارشل کا عسکری تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ
  • مولانا فضل الرحمان نے مرکزی مجلس شوریٰ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا