الخدمت کا ذہنی صحت کے علاج کو دیہی علاقوں تک پہنچانے کے لیے ’’برین آن وہیلز‘‘ پروگرام شروع
اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر) الخدمت پاکستان نے ذہنی صحت کے علاج کی سہولیات دیہی اور پسماندہ علاقوں تک پہنچانے کے لیے ’’برین آن وہیلز‘‘ کے نام سے ایک نیا پروگرام شروع کردیا ہے جس کے تحت دیہی اور پسماندہ علاقوں خاص طور پر سیلاب زدہ علاقوں کے عوام کو ذہنی صحت کے علاج کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
الخدمت پاکستان کے مطابق ملک میں تقریباً ڈھائی کروڑ افراد ڈپریشن، اینگزائٹی اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں، جبکہ پورے ملک میں تربیت یافتہ ماہرینِ نفسیات کی تعداد پانچ سو سے بھی کم ہے، ان حالات میں دیہی اور پسماندہ علاقوں کے عوام کو ذہنی صحت کے مسائل سے نبٹنے کے لیے سہولیات کی شدید کمی ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر چار میں سے ایک پاکستانی اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ذہنی مسئلے میں مبتلا ہوتا ہے، مگر قومی سطح پر ذہنی صحت پر خرچ مجموعی صحت بجٹ کا ایک فیصد بھی نہیں۔ بڑے شہروں سے باہر بسنے والے لاکھوں افراد علاج سے محروم ہیں، کیونکہ نہ ماہر دستیاب ہیں اور نہ آگاہی فراہم کرنے کا کوئی ذریعہ ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن سندھ کی صدر ڈاکٹر طبسم جعفری نے کہا کہ ذہنی بیماری ہر طبقے اور علاقے میں پائی جاتی ہے، لیکن ہمارے صحت کے نظام میں اسے اب بھی غیر ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان دباؤ کے باعث ٹوٹ رہے ہیں، خواتین خاموشی سے ڈپریشن کا شکار ہیں اور مرد اکثر منشیات کا سہارا لیتے ہیں، مگر ریاستی سطح پر اس بحران کا کوئی جامع حل موجود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ الخدمت فاؤنڈیشن، جو برسوں سے صحت، آفات میں امداد اور یتیم بچوں کی کفالت جیسے منصوبوں پر کام کر رہی ہے، اب ذہنی صحت کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کر رہی ہے۔ ’’ہم نے محسوس کیا کہ سیلاب، غربت یا بے گھری سے متاثرہ افراد جسمانی کے ساتھ جذباتی طور پر بھی شدید متاثر ہوتے ہیں، اس لیے ذہنی بحالی کو بھی فلاحی کاموں کا حصہ بنانا ناگزیر ہے۔‘‘
’برین آن وہیلز‘ پروگرام کے تحت تربیت یافتہ ماہرین اور رضاکاروں پر مشتمل موبائل ٹیمیں دیہی اور پسماندہ علاقوں میں جا کر مفت مشاورت، کونسلنگ اور ادویات فراہم کریں گی۔ پروگرام میں آگاہی مہمات، ڈپریشن اور اینگزائٹی کی اسکریننگ، اور مقامی افراد کو ابتدائی نفسیاتی امداد کی تربیت دینا بھی شامل ہے۔
اس پروگرام کے آغاز کے لیے الخدمت پاکستان اور مقامی دوا ساز کمپنی فارمیو کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے گئے۔ الخدمت کی جانب سے ڈاکٹر طبسم جعفری، صدر الخدمت فاؤنڈیشن سندھ، اور کامران علی زمان، ڈپٹی ڈائریکٹر مارکیٹنگ فارمیوو نے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے۔ اس موقع پر منصور خان، ڈائریکٹر کمرشل مارکیٹنگ، بھی موجود تھے۔
فارمیوو کی جانب سے بتایا گیا کہ کمپنی اس منصوبے میں تکنیکی معاونت، ادویات کی فراہمی اور ماہرینِ نفسیات سے رابطے کے ذریعے کردار ادا کرے گی۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق پاکستان میں ذہنی صحت کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا ہے، اور یہ اقدام عوام میں یہ شعور اجاگر کرے گا کہ مدد لینا کمزوری نہیں بلکہ شفا کی پہلی سیڑھی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ذہنی امراض ملک کے مجموعی بیماریوں کے بوجھ کا تقریباً 14 فیصد حصہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ علاج نہ ہونے کی صورت میں ڈپریشن اور اینگزائٹی طویل جسمانی بیماریوں، گھریلو تشدد، خودکشی اور منشیات کے استعمال میں اضافے کا باعث بنتی ہیں، جس سے سالانہ اربوں روپے کے معاشی نقصانات ہوتے ہیں۔
الخدمت کے نمائندوں کے مطابق فلاحی تنظیمیں وہاں پہنچ سکتی ہیں جہاں ریاستی نظام کمزور ہے۔ اگر آگاہی کو علاج کی فراہمی کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو وہ کمیونٹیاں جو برسوں سے خاموشی میں مبتلا ہیں، دوبارہ سنبھل سکتی ہیں۔
یہ پروگرام ابتدائی طور پر سندھ کے چند اضلاع میں شروع کیا جائے گا، خاص طور پر ان علاقوں میں جو کم آمدنی یا قدرتی آفات سے متاثر ہیں، اور بعد ازاں اسے ملک بھر میں وسعت دی جائے گی۔
ماہرین کے مطابق ’برین آن وہیلز‘ ان لاکھوں پاکستانیوں کے لیے امید کی کرن ہے جو خاموشی سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔ یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ذہنی صحت کوئی ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ قومی ترجیح ہونی چاہیے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دیہی اور پسماندہ علاقوں برین آن وہیلز ذہنی صحت کے کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
سکھر ،چھوہارا مارکیٹ میں مزدور خواتین ہراسگی کے باعث ذہنی دبائو کاشکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251005-11-9
سکھر(نمائندہ جسارت)سندھ حکومت کی بے حسی کی انتہا، ایشیا کی سب سے بڑی چھوہارا مارکیٹ میں روزانہ مزدوری کرنے کیلیے آنے والی ہزاروں خواتین سات کلومیٹر پیدل چلنے پر مجبور، خواتین ہراسگی کے باعث ذہنی دباؤ کا شکار، منڈی کے بااثر سیٹھ اور سرکاری ادارے تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آغا قادر داد چھوہارا مارکیٹ میں مزدوری کرنے والی بیشتر خواتین جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ نہ صرف ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام موجود ہے بلکہ خواتین کو چھوہارا منڈی کے ماحول میں مسلسل استحصال اور تذلیل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا قانون برائے انسداد ہراسگی 2010ء واضح طور پر کہتا ہے کہ کام کی جگہ پر خواتین کو ہر قسم کی بدسلوکی، ہراسگی اور غیر انسانی سلوک سے محفوظ رکھنا اداروں اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ، محکمہ لیبر، سوشل سیکورٹی اور ضلعی انتظامیہ سمیت وہ ادارے، جو اس قانون پر عملدرآمد کے پابند ہیں، خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔قانون کے تحت انتظامیہ پر لازم ہے کہ خواتین کو محفوظ ماحول فراہم کرے۔ہراسگی یا تذلیل کی شکایت پر فوری ایکشن لیا جائے۔خلاف ورزی پر ملوث افراد کو سخت سزا اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔مگر چھوہارا مارکیٹ میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ نہ صرف خواتین کو بنیادی سہولتیں میسر نہیں بلکہ سات کلومیٹر روزانہ پیدل سفر کرکے کام پر پہنچنے والی خواتین کھلے عام استحصال کا شکار ہیں۔ سول سوسائٹی، این جی اوز اور انسانی حقوق کے دعویدار ادارے بھی اس انسانی المیے پر خاموش ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے قانون صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہو اور عملی طور پر خواتین کو انصاف دلانے والا کوئی موجود نہ ہو۔سوال یہ ہے کہ اگر آئین اور قانون کے ہوتے ہوئے بھی خواتین کے ساتھ یہ رویہ روا رکھا جا رہا ہے تو پھر انصاف کہاں ہے؟۔