Islam Times:
2025-10-06@04:21:14 GMT

ٹرمپ منصوبہ اور اسرائیلی کابینہ میں اختلافات

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

ٹرمپ منصوبہ اور اسرائیلی کابینہ میں اختلافات

اسلام ٹائمز: نیتن یاہو کی کابینہ میں یہ اختلافات انکے عہدیداروں کے بیانات میں بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک بیان میں اسرائیلی کابینہ کے ترجمان نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ صرف حملوں اور بم دھماکوں کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔ دریں اثناء، Ma'ariv پول سے پتہ چلتا ہے کہ 53 فیصد اسرائیلی اور 41 فیصد ووٹرز حکمران اتحاد کی حمایت کرتے ہیں، لیکن دائیں بازو کے وزراء نے حکومت کو گرانے کی دھمکی دی ہے۔ قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بین گویر کا کہنا ہے کہ ہم کسی ایسی قومی شکست کا حصہ نہیں بنیں گے، جو ا ابدی رسوائی ہو اور اگلے قتل عام کیلئے ٹائم بم بن جائے۔ تحریر: سید رضی عمادی

غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی نسل کشی کے دوسرے سال کے اختتام کے موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کا دعویٰ کرتے ہوئے 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے۔ غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے پر تحریک حماس نے مشروط آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ، غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلاء، غزہ کی تعمیر نو، عبوری حکومت کی تشکیل اور حماس کو غیر مسلح کرنا ٹرمپ کے غزہ سے متعلق منصوبے کی اہم شقوں میں شامل ہے۔ حماس کے اس منصوبے پر مشروط آمادگی کے بعد اسرائیلی کابینہ کے اندر اختلافات شروع ہوگئے ہیں۔

اگرچہ نیتن یاہو پہلے ہی ٹرمپ کے منصوبے سے اتفاق کرچکا ہے، لیکن اس معاملے میں اسرائیلی کابینہ کے اندر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلاف کئی محوروں کے گرد گھومتے ہیں۔ پہلا محور یہ ہے کہ کابینہ کے کچھ ارکان، بشمول بین گویر اور سموٹریج یعنی داخلی سلامتی اور مالیات کے وزراء، اس منصوبے کے شدید مخالف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ غزہ میں جنگ جاری رہنی چاہیئے۔ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ اس غلط تجویز پر اصرار کرتے رہتے ہیں کہ صہیونی قیدیوں کو جنگ کے ذریعے آزاد کرنا ممکن ہے اور حماس کے ساتھ سیاسی معاہدے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس معاہدے کو حماس کے لیے سیاسی رعایت سمجھتے ہیں۔

نیتن یاہو کی کابینہ میں اختلاف کا ایک اور محور اسرائیل کے غزہ پٹی سے انخلاء سے متعلق ہے۔ غزہ سے اسرائیل کے فوجی انخلاء کو نیتن یاہو کی کابینہ کے دائیں بازو کے وزراء کی مزاحمت کا سامنا ہے، جو حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب نیتن یاہو کی کابینہ کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ غزہ سے انخلاء اس پٹی پر مکمل قبضے کے منصوبے سے متصادم ہے۔ اس لیے وہ نہ صرف غزہ سے انخلاء بلکہ اس پٹی میں عبوری حکومت کی تشکیل کے منصوبے کی بھی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کے جواب میں غزہ میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ حماس نے اگرچہ غزہ کی انتظامیہ پر بین الاقوامی نگرانی کی واضح طور پر مخالفت نہیں کی ہے، لیکن اس نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

نیتن یاہو کی کابینہ میں یہ اختلافات ان کے عہدیداروں کے بیانات میں بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک بیان میں اسرائیلی کابینہ کے ترجمان نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ صرف حملوں اور بم دھماکوں کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔ دریں اثناء، Ma'ariv پول سے پتہ چلتا ہے کہ 53 فیصد اسرائیلی اور 41 فیصد ووٹرز حکمران اتحاد کی حمایت کرتے ہیں، لیکن دائیں بازو کے وزراء نے حکومت کو گرانے کی دھمکی دی ہے۔ قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بین گویر کا کہنا ہے کہ ہم کسی ایسی قومی شکست کا حصہ نہیں بنیں گے، جو ا ابدی رسوائی ہو اور اگلے قتل عام کے لیے ٹائم بم بن جائے۔

اسرائیلی کابینہ میں ان اختلافات کو دیکھتے ہوئے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ ٹرمپ یا نیتن یاہو یا دونوں حماس کے ردعمل کا فائدہ اٹھا کر تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی لیے حماس کی بالواسطہ مخالفت کے باوجود امریکی صدر نے فی الوقت اپنے دیگر مطالبات کے حوالے سے  تحمل کا مظاہرہ کیا اور ہر طرح کے ردعمل کو قبول کیا۔ تاہم غزہ پر حملے روکنے کا دعویٰ کرنے والی صیہونی حکومت نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 65 فلسطینیوں کو شہید کیا ہے، جس سے غزہ میں جنگ بندی کے قیام کے ٹرمپ کے منصوبے کی کامیابی غیر واضح نظر آرہی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نیتن یاہو کی کابینہ اسرائیلی کابینہ کے کابینہ میں کے منصوبے کے وزراء حماس کے ٹرمپ کے کہ غزہ

پڑھیں:

ٹرمپ نے غزہ امن منصوبے پر رضامندی کے لیے حماس کو اتوار تک کی ڈیڈلائن دے دی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر لکھا کہ حماس کے پاس واشنگٹن کے مقامی وقت کے مطابق اتوار کی شام چھ بجے تک کا وقت ہے۔ عالمی وقت کے مطابق یہ رات کے دس بجے کا وقت ہو گا۔

انہوں نے خبردار کیا، ''اگر یہ لاسٹ چانس معاہدہ طے نہ پایا، تو حماس کے خلاف مکمل قیامت ٹوٹ پڑے گی، جو کسی نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔

‘‘

اس 20 نکاتی مجوزہ منصوبے میں، جس پر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اتفاق کیا ہے، فوری جنگ بندی، حماس کے پاس باقی ماندہ یرغمالیوں کا اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے تبادلہ، غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلا اور حماس کا غیر مسلح ہونا شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ اس علاقے کا انتظام ایک بین الاقوامی ادارے کی نگرانی میں فلسطینی ٹیکنوکریٹس کی عبوری حکومت کے تحت چلایا جائے۔

پیر 29 ستمبر کو ٹرمپ اور نیتن یاہو کے اعلان کے بعد، حماس کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ گروپ کو یہ منصوبہ قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے موصول ہوا ہے اور وہ سرکاری جواب دینے سے قبل اس کا احتیاط سے جائزہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

سات اکتوبر 2023 کو، حماس اور اس کے اتحادی گروپوں کے سینکڑوں مسلح افراد جنوبی اسرائیل میں گھس گئے تھے اور تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک کر دیا اور 250 سے زائد یرغمالیوں کو غزہ پٹی لے گئے، جو غزہ کی جنگ کا آغاز ثابت ہوا تھا۔

اقوام متحدہ کی جانب سے قابل اعتبار سمجھے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق، خونریزی کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیلی حملوں میں غزہ پی کے محصور ساحلی علاقے میں 66,000 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔


ادارت: مقبول ملک، امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ پلان نے نیتن یاہو کو مشکل میں ڈال دیا
  • ٹرمپ کاامن منصوبہ اور مسلم قیادت
  • جنگ بندی نہ ہوئی تو کارروائیاں مزید تیز ہوں گی، نیتن یاہو اور ٹرمپ کی دھمکی برقرار
  • حماس نے جنگ بندی نہ مانی تو غزہ پر حملے مزید بڑھیں گے، نیتن یاہو
  • صیہونی وزیراعظم نے غزہ میں فوجی کارروائیاں تیز کرنے کا عندیہ دیدیا
  • ہم قیدیوں کی رہائی کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کی تیاری کر رہے ہیں، اسرائیل
  • حماس کے ردعمل کے بعد اسرائیل نے غزہ پر قبضے کا منصوبہ فوری روک دیا
  • امن منصوبے پر حماس کا جواب؛ اسرائیلی فوج غزہ میں بمباری فوراً روک دے، ٹرمپ کا مطالبہ
  • ٹرمپ نے غزہ امن منصوبے پر رضامندی کے لیے حماس کو اتوار تک کی ڈیڈلائن دے دی