ویمنز ورلڈ کپ: بھارت کیخلاف میچ میں منیبہ علی متنازع رن آؤٹ کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
کولمبو میں بھارت کے خلاف جاری ویمنز ورلڈ کپ میچ کے دوران پاکستانی اوپنر منیبہ علی کا رن آؤٹ متنازع صورتِ حال اختیار کر گیا۔
منیبہ علی کو پہلے تھرڈ امپائر نے ناٹ آؤٹ قرار دیا تاہم کچھ ہی دیر بعد فیصلہ تبدیل کر کے انہیں آؤٹ قرار دے دیا گیا، جس پر پاکستانی ٹیم اور شائقین نے حیرت اور ناراضی کا اظہار کیا۔
پاکستانی کپتان فاطمہ ثنا نے اس فیصلے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے فورتھ امپائر کے سامنے باضابطہ طور پر اپنا مؤقف پیش کیا جس کے باعث کچھ دیر تک رکا رہا۔
پاکستان کی کپتان نے فیلڈ میں کھڑے ہو کر امپائرز سے طویل مشاورت کی، جبکہ سدرہ امین جو اگلی بلے باز تھیں بھی میدان میں داخل ہونے سے رکی رہیں تاکہ فیصلے کی تصدیق ہو جائے۔
یہ رن آؤٹ فیصلہ عام حالات سے کہیں زیادہ وقت لینے کے بعد کنفرم ہوا، جس کے بعد منیبہ علی صرف 2 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئیں اور پاکستان کا اسکور 6 رنز پر ایک کھلاڑی آؤٹ تھا۔
فاطمہ ثنا کا کہنا تھا کہ فیصلہ غیر واضح اور کنفیوژن پر مبنی تھا کیونکہ ری پلے میں واضح شواہد موجود نہیں تھے۔
https://www.facebook.com/reel/1882199825694174
سوشل میڈیا پر بھی شائقین کرکٹ نے تھرڈ امپائر کے فیصلے پر سوالات اٹھائے، کئی صارفین نے اسے “غیر منصفانہ” اور “ناقابلِ فہم” قرار دیا۔
اس واقعے کے بعد میچ کا ماحول کچھ دیر کے لیے تناؤ کا شکار رہا، تاہم پاکستانی ٹیم نے اپنی بیٹنگ جاری رکھی۔
آئی سی سی کے قوانین 30.1.2 کے مطابق اگر کوئی بیٹر اپنی کریز سے آگے جا کر زمین سے عارضی طور پر رابطہ کھو دے تو اسے آؤٹ قرار نہیں دیا جاتا، مگر یہ رعایت صرف اس بیٹر کو ملتی ہے جو اپنی کریز کی طرف دوڑ رہی ہو یا ڈائیو لگا رہی ہو۔
منیبہ صرف کریز کے اندر واپس قدم رکھ رہی تھیں، نہ کہ دوڑ رہی تھیں، اور ان کے بیٹ کے زمین سے اٹھنے کا تعلق کسی رفتار یا حرکت سے نہیں تھا۔
قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بیٹر اپنی کریز کی جانب دوڑتے یا ڈائیو لگاتے ہوئے، اور کریز کے پار اپنے جسم یا بیٹ کا کچھ حصہ زمین پر رکھ چکی ہو، تو بعد میں زمین یا بیٹ سے رابطہ ختم ہونے کی صورت میں بھی اسے کریز سے باہر نہیں سمجھا جائے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: منیبہ علی
پڑھیں:
ماحولیاتی تباہیوں سے بے گھر بچے ڈپریشن کا شکار ہوئے، ماہرین
لاہور:عائشہ کی عمر صرف 14 برس ہے مگر اس کی آنکھوں نے اتنا سیلاب اور آلودگی دیکھی ہے کہ زندگی کے رنگ ماند پڑ چکے ہیں، وہ لاہور میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑی آسمان دیکھتی ہے تو اسے سورج نہیں، صرف زرد دھند دکھائی دیتی ہے،سانس لینا مشکل ہے۔
عائشہ اُن لاکھوں پاکستانی بچوں میں سے ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اولین اور سب سے کمزور متاثرین ہیں، عائشہ کے گھر کی طرح اسکول بھی حالیہ سیلاب میں تباہ ہو چکا۔
اسے ڈر ہے کہ اسموگ کے موسم میں کلاسیں پھر بند نہ ہو جائیں،کلینیکل سائیکالوجسٹ فاطمہ طاہرکہتی ہیں، ماحولیاتی تباہیوں کے باعث بے گھر ہونے والے بچوں کی نفسیات شدید متاثر ہوئی۔
سیلاب اور اسموگ سے متاثرہ علاقوں میں بے چینی، ڈپریشن اور صدمے کے بعد کے ذہنی دبائو، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا، تقریباً نصف متاثرہ بچے نیند، توجہ اور اعتماد کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان کا موسم اب ایک بحران بن چکا ہے،درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ، سیلاب کی غیر معمولی شدت اور اسموگ کے طویل موسم نے بچوں کی فطری معصومیت کو متاثر کیا۔
قومی اور صوبائی سطح پر بننے والی بیشتر موسمیاتی پالیسیاں اب بھی توانائی، زراعت اور انفراسٹرکچر تک محدود ہیں،ان میں بچوں کا کوئی ذکر نہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ چائلڈپروٹیکشن بیورو اینڈویلفیئر بیورو کا ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچوں کو محفوظ رکھنے کے حوالے سے کوئی کردار نظر نہیں آتاہے۔
سرچ فار جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افتخار مبارک کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر بچوں پر مرکوز موسمیاتی ایکشن پلان بنانے چاہییں، ہمیں بیانات نہیں، نتائج درکار ہیں۔
سماجی کارکن راشدہ قریشی کے مطابق موسمیاتی تبدیلی نہ صرف جسمانی بلکہ سماجی خطرات بھی بڑھا رہی ہے۔