شفاف انتخابات کا انعقاد، کیا پورے ملک کے پتے اور شناختی کارڈ تبدیل ہونے جا رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ مستقبل میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ووٹر لسٹوں کی خامیاں دور کرنے کے لیے گاؤں دیہات کی سطح پر گلیوں اور گھروں کو بھی نمبر الاٹ کرے، جس کے بعد نادرا کے موجود اور نئے شناختی کارڈز پر پتے درست کیے جائیں۔
اس تجویز پر حکومتی سطح پر غور و خوض جاری ہے کہ کیا اتنی بڑی مشق کرنا آسان ہو گی؟
پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد سے قبل الیکشن کمیشن کو سب سے بڑا چیلنج ووٹرز کے پتوں کی درستگی کا درپیش رہا۔ بظاہر سادہ دکھنے والا یہ مسئلہ اس وقت پیچیدہ صورت حال اختیار کر لیتا ہے جب شناختی کارڈ پر درج نامکمل یا عمومی پتے ووٹر کو کسی ایک انتخابی حلقے میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔
یہ مدعا الیکشن کمیشن نے حکومت کو بھیجی جانے والی سفارشات میں اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ووٹر لسٹوں کی تیاری میں پولنگ سٹیشنز کے قیام سمیت دوسرے انتخابی مراحل میں غیررجسٹرڈ ہاؤسنگ سوسائٹیز اور نئی آبادیوں کی تیز رفتار توسیع کے باعث مشکل پیش آتی ہے۔ ان علاقوں میں باقاعدہ گلی نمبر یا گھر نمبر موجود نہ ہونے کی وجہ سے تصدیق کا عمل بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے این او سی کے اجرا سے متعلق قانون سازی کرنی چاہیے یا کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات دینی چاہییں۔
سفارشات میں واضح کیا گیا ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کو این او سی متعلقہ شہر کے ماسٹر پلان پر عمل درآمد پر دیا جائے اور ماسٹر پلان کے تحت گلیاں نمبر اور مکان نمبر نہ بنانے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو این او سی نہ دیا جائے۔
اسی طرح موجودہ سوسائٹیز اور ٹاؤنز کی گلیوں اور مکانات کے نمبرز لگائے جائیں اور دیہاتوں میں بستیوں کی گلیوں اور مکانات کو بھی نمبر الاٹ کیے جائیں۔
الیکشن کمیشن نے مسئلہ اٹھایا ہے کہ نادرا شناختی کارڈز میں مکمل پتہ نہیں لکھتا، جس کی وجہ سے ووٹرز کی درست طور پر نشاندہی نہیں ہو پاتی۔ اس کے لیے تجویز دی گئی ہے کہ وفاقی حکومت نادرا کو موجودہ اور نئے شناختی کارڈز پر مکمل پتہ، گلی نمبر، بستی اور مکان نمبر لکھنے کی ہدایت کرے، کیونکہ مکمل پتہ نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن، امیدواروں اور ووٹرز کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مثال کے طور پر اسلام آباد کے علاقے کوٹ ہتھیال میں 60 مردم شماری بلاکس ہیں، لیکن بیشتر شناختی کارڈز پر محض ’کوٹ ہتھیال‘ لکھا ہوتا ہے۔ اس طرح کے ادھورے پتے نہ صرف ووٹ کے اندراج اور منتقلی میں رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ امیدواروں اور ووٹروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے گذشتہ عام انتخابات میں ہونے والی تاخیر اور ووٹرز کی رجسٹریشن میں درپیش سنگین مسائل کے بعد خود حکومت کو مستقبل میں ایسے مسائل سے بچنے کے لیے ایک جامع سفارشاتی پیکیج پیش کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ گذشتہ عام انتخابات میں مردم شماری کے باعث نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے جنرل الیکشنز تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔ اس بحران کے مستقل حل کے لیے کمیشن نے دو بنیادی آئینی و قانونی تجاویز پیش کی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی سفارش ہے کہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے چھ ماہ قبل اگر مردم شماری ہو تو کوئی حلقہ بندیاں نہیں ہونی چاہییں۔ اس مقصد کے لیے آرٹیکل 51 میں ترمیم کی جائے کہ ایسی صورت حال میں حلقہ بندیاں الیکشن کے بعد ہوں گی۔ اسی طرح الیکشنز ایکٹ کے سیکشن (2) 17 میں بھی ترمیم کی سفارش پیش کی گئی ہے۔ ان ترامیم کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے چھ ماہ پہلے مردم شماری کے باوجود پرانی حلقہ بندیوں پر جنرل الیکشن ہوں گے، جس سے انتخابی عمل میں ہونے والی غیرضروری تاخیر کو روکا جا سکے گا۔
انتخابات سے قبل ووٹر فہرستوں کی نظرثانی کے دوران عملے کی بھرتی بھی ایک بڑا چیلنج رہی۔ الیکشن کمیشن عموماً دوسرے سرکاری محکموں سے اہلکاروں کو بطور سپروائزر یا ویریفائنگ آفیسر تعینات کرتا ہے، لیکن ان میں سے کئی افسران مطلوبہ ذمہ داری انجام نہیں دے پاتے۔
چونکہ یہ افسران قانونی طور پر الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، اس لیے ان کی غلطیوں پر انہیں جواب دہ بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے سفارش کی گئی ہے کہ الیکشن آفیشل کی تشریح میں تبدیلی کے لیے الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کی جائے اور انتخابی عمل کے ساتھ ساتھ ووٹرز رجسٹریشن تصدیق میں شامل سٹاف کو الیکشن آفیشل ڈیکلیئر کیا جائے، تاکہ ووٹرز رجسٹریشن سٹاف کی ڈیوٹی سے متعلق شکایات پر کارروائی کے لیے انہیں الیکشن آفیشل کا درجہ دیا جا سکے۔
وزارت قانون کے حکام نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی سفارشات پر غور و خوض کیا جا رہا ہے کہ ان پر عمل درآمد کرنا کس حد تک ممکن ہے؟ اس حوالے سے مالی وسائل سمیت دیگر پہلوؤں پر بھی غور ہو رہا ہے اور یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ یہ تجاویز قابل عمل بھی ہیں کہ نہیں؟
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ہاو سنگ سوسائٹیز شناختی کارڈز الیکشن کمیشن کی وجہ سے کے لیے ا
پڑھیں:
شام میں بشارالاسد کے بعد پہلا الیکشن، احمد الشرع نے خود 70 ارکان نامزد کرلیے
دمشق: شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی عبوری پارلیمنٹ کے انتخابات کا عمل مکمل کرلیا گیا، تاہم اس عمل کو غیر جمہوری قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے ایک تہائی ارکان کو براہِ راست عبوری رہنما احمد الشرع کی جانب سے نامزد کیا جا رہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق یہ انتخابات ایسے وقت میں منعقد ہوئے ہیں جب 13 سالہ خانہ جنگی کے بعد دسمبر میں بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ نئی اسمبلی کے قیام کو احمد الشرع کی طاقت کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
انتخابات میں 1500 سے زائد امیدوار میدان میں ہیں، جن میں صرف 14 فیصد خواتین شامل ہیں۔ اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 210 ہے، جن میں سے 70 ارکان الشرع خود نامزد کریں گے، جب کہ باقی ارکان کا انتخاب مقامی کمیٹیوں کے ذریعے ہوگا۔
تاہم دروز اکثریتی صوبہ السویدا اور کردوں کے زیرِ انتظام شمال مشرقی علاقہ انتخابی عمل سے باہر رہے، جس کے باعث 32 نشستیں خالی رہیں۔
الشرع کا کہنا ہے کہ فی الحال براہِ راست انتخابات ممکن نہیں کیونکہ لاکھوں شامی شہری بے گھر یا بیرون ملک پناہ گزین ہیں، جن کے پاس ضروری دستاویزات موجود نہیں۔
عبوری پارلیمنٹ 30 ماہ کے لیے قانون سازی کے اختیارات استعمال کرے گی اور مستقل آئین کی تیاری کے بعد نئے انتخابات منعقد کیے جائیں گے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتخابی عمل الشرع کو مزید طاقتور بناتا ہے اور ملک کی نسلی و مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی سے محروم ہے۔