’آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے‘: ای سگریٹ گلے پڑگئی، بچے بھی لت میں مبتلا
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
سگریٹ نوشی کے بے شمار نقصانات کے پیش نظر ویپ یا ای سگریٹ متعارف کرائی گئی تھی تاکہ اس لت میں مبتلا افراد آہستہ آہستہ اس علت سے چھٹکارا پا لیں لیکن تمباکو نوشی نہ کرنے والے لوگوں خصوصاً بچوں میں اس شوق کا بڑھتا رجحان انتہائی تشویشناک ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ویپنگ سگریٹ چھوڑنے میں 3 گنا زیادہ مؤثر، آسٹریلوی تحقیق
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں 10 کروڑ سے زائد افراد جن میں کم از کم ڈیڑھ کروڑ بچے بھی شامل ہیں ای سگریٹ کا استعمال کر رہے ہیں جو نکوٹین کی ایک نئی لت کو جنم دے رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بچے بالغوں کے مقابلے میں اوسطاً 9 گنا زیادہ ویپنگ کرتے ہیں جو تشویشناک ہے۔
نکوٹین کی نئی لہرڈبلیو ایچ او کے ڈاکٹر ایٹیئن کروگ کا کہنا ہے کہ ای سگریٹ کو ‘نقصان میں کمی‘ کے طور پر مارکیٹ کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ نوجوانوں کو نکوٹین کی لت میں مبتلا کر رہی ہے اور تمباکو کے خلاف دہائیوں کی جدوجہد کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس گیبریئسس نے کہا کہ تمباکو انڈسٹری جارحانہ انداز میں نوجوانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
مزید پڑھیے: پھیپھڑے صحت کا راز کھولتے ہیں، ان کی کاردکردگی خود کیسے چیک کی جائے؟
انہوں نے کہا کہ جب دنیا بھر کے ممالک تمباکو کنٹرول پالیسیز کے ذریعے کامیابی حاصل کر رہے ہیں تب تمباکو انڈسٹری نئے نکوٹین پروڈکٹس کے ذریعے جوابی وار کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خاص طور پر نوجوانوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے لہٰذا حکومتوں کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔
اعداد و شمار: کہاں کھڑے ہیں ہم؟وییپنگ کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد 10 کروڑ سے زیادہ ہے اور ان میں سے 8 کروڑ 60 لاکھ بالغ افراد ہیں جو زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
نوجوان صارفین کم از کم ڈیڑھ کروڑ ہیں جن کی عمریں 13 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔
مزید پڑھیں: برطانیہ میں ڈسپوزایبل ویپس پر پابندی کیوں عائد کی گئی؟
123 ممالک سے حاصل شدہ سروے ڈیٹا کے مطابق یہ اعداد و شمار سامنے آئے ہیں تاہم 109 ممالک خصوصاً افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا نے اب تک اس حوالے سے کوئی ڈیٹا جمع نہیں کیا ہے۔
قوانین کی کمیعالمی ادارہ صحت کے مطابق62 ممالک میں اب بھی ای سگریٹ کے حوالے سے کوئی پالیسی موجود نہیں ہے۔
74 ممالک میں ای سگریٹ خریدنے کی کم از کم عمر کی کوئی حد مقرر نہیں۔
تمباکو نوشی میں کمی لیکن تشویش میں اضافہاعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں تمباکو نوشی میں کمی آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستانی خواتین میں ای سگریٹ کا بڑھتا رجحان، اس کے نقصانات کیا ہیں؟
سنہ 2000 میں ایک ارب 38 کروڑ افراد تمباکو نوشی کیا کرتے تھے جبکہ سنہ 2024 میں یہ تعداد کچھ کم ہوکر ایک ارب 20 کروڑ کروڑ ہوچکی ہے۔
خواتین میں تمباکو نوشی کی شرحخواتین میں تمباکو نوشی کی شرح سنہ 2010 میں 11 فیصد تھی جو کم ہو کر2024 میں 6 اعشاریہ 6 فیصد پر آ گئی۔
مردوں میں شرحسنہ 2010 میں مردوں میں تمباکو نوشی کی شرح 41 اعشاریہ 4 فیصد تھی جو سنہ 2024 میں کم ہوکر 312 اعشاریہ 5 فیصد ہوگئی تھی۔
مزید پڑھیں: تمباکو نوشی کرنے والے 12 لاکھ پاکستانیوں کی جان کیسے بچائی جا سکتی ہے؟
تاہم ہر 5 میں سے ایک بالغ شخص دنیا بھر میں اب بھی تمباکو استعمال کرتا ہے۔
کیا ویپنگ سگریٹ سے بہتر ہے؟ماہرین کا کہنا ہے کہ ویپنگ سگریٹ نوشی سے کم نقصان دہ ہے اور یہ سگریٹ چھوڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
تاہم جو افراد سگریٹ نوشی کے عادی نہیں ہیں ان کے لیے اس کا استعمال قطعی طور پر غیر مناسب ہے۔
یہ بھی پڑھیے: وہ عادت جو آپ کو دانتوں سے محروم کر سکتی ہے
ای سگریٹ میں تمباکو نہیں جلتا، نہ ہی ٹار یا کاربن مونو آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے جو روایتی سگریٹ کے 2 انتہائی خطرناک عناصر ہیں۔ البتہ ان میں نکوٹین موجود ہوتی ہے جو بہرحال اپنی لت میں مبتلا کردیتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ای سگریٹ سگریٹ نوشی ویپنگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ای سگریٹ سگریٹ نوشی ویپنگ میں تمباکو نوشی تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا سگریٹ نوشی دنیا بھر رہی ہے
پڑھیں:
آئینی عدالتیں اور پاکستان کے عدالتی نظام کا نیا موڑ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251120-03-3
لکیر پیٹنے ’’کا مطلب ہے تجدّد (Innovation) اور تبدیلی کی مخالفت کرنا۔ یہ ایک ایسے شخص یا رویے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو تخلیقی صلاحیتوں سے عاری ہو اور ماضی میں اٹکا رہے۔ اس لیے یہ محاورہ ترقی اور بہتری کے راستے میں رکاوٹ کو ظاہر کرتا ہے۔ اب جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔ یہ زمینی حقائق ہیں کہ پاکستان میں ایک آئینی عدالت بن چکی ہے جس کے چیف جسٹس کا حلف جسٹس امین الدین خان نے اٹھا لیا ہے۔ اب ہم آگے بڑھتے ہیں اور اس کی کچھ دنیا کے دیگر ممالک سے تقابلی اور تاریخی جائزہ لیتے ہیں۔ اب پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہو چکا ہے جہاں عدالت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ ایک مستقل آئینی عدالت قائم کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ بظاہر عدالتی نظام میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں آئینی عدالت کے قیام کا سب سے بڑا فائدہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ آئینی مقدمات تیزی سے نمٹ سکیں گے۔ عدالت عظمیٰ کے سامنے پہلے ہی اپیلوں، سروس کیسز، کرمنل اپیلوں اور متعدد انتظامی امور کا بوجھ ہے۔ ایسے میں آئینی تشریحات، سیاسی تنازعات اور بنیادی حقوق سے متعلق درخواستیں اکثر طویل عرصے تک زیرِ التوا رہتی ہیں۔ نئے ماڈل سے توقع کی جا رہی ہے کہ آئینی نوعیت کے معاملات اب ایک تخصصی فورم پر زیادہ جلد اور زیادہ توجہ کے ساتھ سنے جائیں گے۔
دنیا کی پہلی آئینی عدالت: اگرچہ امریکا کی عدالت عظمیٰ نے 1803 میں تاریخی مقدمہ Marbury v. Madison کے ذریعے Judicial Review کا تصور دیا اور آئین کی تشریح کا اختیار حاصل کیا، مگر اس کے باوجود امریکا میں الگ آئینی عدالت قائم نہیں کی گئی۔ دنیا کی پہلی مکمل طور پر علٰیحدہ آئینی عدالت کا قیام آسٹریا میں 1920 میں ہوا، جس کے معمار مشہور قانونی فلسفی ہانس کیلسن تھے۔ یہی ماڈل بعد میں یورپ، مشرقی یورپ، افریقا اور لاطینی امریکا میں پھیل گیا۔
یورپ میں دوسری بڑی مثال جرمنی کی 1949 میں قائم ہونے والی آئینی عدالت ہے جو آج دنیا کی سب سے طاقتور آئینی عدالت کہلاتی ہے۔ اس وقت دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں آئین کی تشریح کے لیے علٰیحدہ عدالت یا ٹریبونل قائم ہے۔ یورپ تقریباً مکمل طور پر اسی ماڈل پر منتقل ہو چکا ہے۔ افریقا میں جنوبی افریقا، مصر، مراکش، الجزائر، تیونس اور ایتھوپیا نمایاں مثالیں ہیں۔ لاطینی امریکا میں برازیل، میکسیکو، کولمبیا، چلی، پیرو اور بولیویا اس نظام پر چل رہے ہیں۔ ایشیا میں جنوبی کوریا، منگولیا، انڈونیشیا، نیپال، سری لنکا، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیائی ملک بھی اسی طرز پر ہیں۔ ان سب ممالک میں اہم بنیادی اصول ایک ہی ہے: آئین کی تشریح عام عدالتوں کا نہیں بلکہ ایک خصوصی اور مختص ادارے کا کام ہے۔
پاکستان کا قدم: ایک نئی سمت کا آغاز؛ پاکستان میں عرصہ دراز سے عدالت عظمیٰ ہی آئینی و سیاسی نوعیت کے مقدمات سنتی رہی۔ 184(3) کے مقدمات، پارلیمنٹ سے متعلق تنازعات، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے کیس، الیکشن سے متعلق درخواستیں سب عدالت عظمیٰ کے پاس جمع ہو جاتے تھے۔ اس بھاری بوجھ نے عدالت کے کردار کو حد سے زیادہ سیاسی بنا دیا۔ آئینی عدالتیں بننے کے بعد پاکستان نے وہ راستہ اختیار کیا ہے جس پر جرمنی، اٹلی، اسپین، پرتگال، جنوبی افریقا اور لاطینی امریکا پہلے ہی چل رہے ہیں۔
یعنی؛ پاکستان کی نئی آئینی عدالت: صرف آئین کی تشریح کرے گی۔ وفاق اور صوبوں کے تنازعات کا فیصلہ کرے گی۔ بنیادی حقوق کے مقدمات کا حتمی فورم ہوگی۔ آئینی ترامیم یا بااختیار اداروں سے متعلق تنازعات کا جائزہ لے گی۔ عدالت عظمیٰ کا سیاسی بوجھ کم کرے گی۔ فیصلہ سازی میں تخصص (specialization) پیدا کرے گی۔
عدالت عظمیٰ کا دائرہ: اپیلیں، سول اور کریمنل مقدمات، انتظامی تنازعات، عدالتی نظرثانی، آئینی عدالت کے علاوہ تمام عدالتی نظام کا آخری فورم۔ اس طرح پاکستان کا عدالتی ڈھانچہ دوہرا ہو گیا ہے۔ بالکل ویسا جیسے جرمنی اور اٹلی میں ہے۔ زیادہ تر یورپی ناٹو ممالک میں الگ آئینی عدالتیں موجود ہیں۔
جرمنی: Federal Constitutional Court (1951)
اٹلی: Constitutional Court (1956)
اسپین: Constitutional Court (1978)
پولینڈ: Constitutional Tribunal (1986)
چیک رپبلک: Constitutional Court (1993)
سلواکیہ، ہنگری، کروشیا، سلوینیا، یونان، پرتگال سب میں الگ آئینی عدالتیں ہیں۔ یہ ممالک زیادہ تر یورپی Continental Law Tradition پر چلتے ہیں اس میں عدالت عظمیٰ اور آئینی عدالت الگ ہوتی ہیں۔ پاکستان کی نئی آئینی عدالت ایک تاریخی اقدام ہے، جس سے عدلیہ میں اصلاحات ممکن ہیں اور آئینی مسائل تیز تر حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن انتظامیہ کی طرف سے ججوں کے تقرر اور عدالت عظمیٰ کے کردار کی محدودیت اس اقدام کو عالمی معیار کے مطابق چیلنجنگ بناتی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے تجربات بتاتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور شفافیت کے بغیر عدالت کا حقیقی اثر اور اعتماد برقرار رکھنا مشکل ہے۔ پاکستان نے آئینی عدالت کے قیام کے ذریعے عدلیہ میں اصلاحات، سیاسی تنازعات کے تیز حل، اور آئینی تشریح میں تخصص کا ایک موقع حاصل کیا ہے۔
تاہم یہ اقدام انتہائی نازک بھی ہے کیونکہ قانونی، سیاسی اور فوجی اثرات عدالت کی آزادی اور فیصلوں کی شفافیت پر براہِ راست اثر ڈال سکتے ہیں۔
تاریخ یہ فیصلہ کرے گی کہ یہ قدم پاکستان کے عدالتی نظام کو مضبوط کرے گا یا نئے بحرانوں کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کے عدالتی اور سیاسی ماہرین، وکلا، اور سول سوسائٹی کی نظر اب اس نئے نظام پر مرکوز ہے، اور آنے والے مہینے اس کے عملی اثرات واضح کریں گے۔