پاکستان کا سعودی عرب کو افرادی قوت کی برآمد دوگنی کرنے کا منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ گزشتہ ماہ ہونے والے تاریخی دفاعی معاہدے کے بعد مملکت کو افرادی قوت کی برآمد دوگنی کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
سرکاری حکام کے مطابق، اس اقدام سے دونوں ممالک کے درمیان معاشی اور سیکیورٹی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔
مزید پڑھیں: پاکستان سعودیہ دفاعی معاہدے کے بعد ایک اور پیشرفت، اقتصادی روابط اور مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطح کمیٹی قائم
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، 2020 سے 2024 کے دوران پاکستان نے سعودی عرب کو 18.
حکام کا کہنا ہے کہ اگلے سال سے یہ تعداد بڑھا کر سالانہ 10 لاکھ کارکنوں تک پہنچانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
پاکستان کی اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل اور بیورو آف امیگریشن مل کر ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے افرادی قوت کی تربیت، مہارتوں کی تصدیق اور ای-ویزا نظام کو فروغ دیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے دونوں ممالک میں تکنیکی تربیتی ادارے قائم کرنے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔
مزید پڑھیں: پاک-سعودی بڑھتی قربت، وزیراعظم شہباز اور محمد بن سلمان کی گلے ملتی تصویر نے سب کچھ بدل دیا
سعودی عرب اس وقت پاکستانی محنت کشوں کی سب سے بڑی منزل اور ترسیلات زر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ 2024 میں مملکت سے 8.6 ارب ڈالر پاکستان بھیجے گئے، جو ملکی معیشت کے لیے ایک اہم سہارا ہیں۔
ماہرین کے مطابق، سعودی عرب میں جاری ویژن 2030 ترقیاتی منصوبے اور 2034 فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے باعث تعمیرات، ٹرانسپورٹ اور مہمان نوازی کے شعبوں میں بیرونی افرادی قوت کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افرادی قوت پاک سعودی معاہدہذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افرادی قوت پاک سعودی معاہدہ افرادی قوت کی کے لیے
پڑھیں:
سعودی عرب کو اسرائیل کے مقابلے میں کم درجے کے ایف 35 طیارے دیئے جائیں گے، امریکی حکام
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے سعودی عرب کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے کا اعلان کیا، لیکن حکام نے کہا کہ سعودی طیاروں میں وہ اعلیٰ خصوصیات شامل نہیں ہوں گی جو اسرائیلی بیڑے میں موجود ہیں، جن میں جدید ہتھیاروں کے نظام اور الیکٹرانک وار فیئر آلات شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی حکام اور دفاعی ماہرین نے کہا ہے کہ امریکا سعودی عرب کو ایف 35 لڑاکا طیارے فروخت کرنے کا جو منصوبہ بنا رہا ہے، وہ اسرائیل کے زیرِ استعمال طیاروں کے مقابلے میں کم تر درجے کے ہوں گے، کیونکہ ایک امریکی قانون اسرائیل کی خطے میں عسکری برتری کی ضمانت دیتا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے سعودی عرب کو ایف 35 طیارے فروخت کرنے کا اعلان کیا، لیکن حکام نے کہا کہ سعودی طیاروں میں وہ اعلیٰ خصوصیات شامل نہیں ہوں گی جو اسرائیلی بیڑے میں موجود ہیں، جن میں جدید ہتھیاروں کے نظام اور الیکٹرانک وار فیئر آلات شامل ہیں۔ اسرائیل کو اپنے ایف 35 طیاروں میں ترمیم کے خصوصی اختیارات حاصل ہیں، جن میں اپنے ہتھیاروں کے نظام کو ضم کرنے اور ریڈار جیمنگ کی صلاحیتیں اور دیگر اپ گریڈ شامل کرنے کی اجازت ہے، جن کے لیے امریکا کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود، جیسا کہ منگل کو ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا، اسرائیلی فضائیہ اس مجوزہ فروخت کی مخالفت کرتی ہے اور اس نے سیاسی رہنماؤں کو ایک دستاویز میں خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام خطے میں اسرائیل کی فضائی برتری کو کمزور کرے گا۔
مچل انسٹیٹیوٹ فار ایرو اسپیس اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈگلس برکی کے مطابق اگرچہ سعودی عرب کو یہ طیارے مل بھی جائیں، امکان ہے کہ اسے AIM-260 جوائنٹ ایڈوانسڈ ٹیکٹیکل میزائل (JATM) نہ دیا جائے جو اگلی نسل کے لڑاکا طیاروں کے لیے تیار کی جانے والی اگلی نسل کا فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے۔ JATM کے 120 میل سے زیادہ کے فاصلے کو ایف-35 پلیٹ فارم سے وابستہ سب سے حساس میزائل ٹیکنالوجی سمجھا جاتا ہے, یہ میزائل غالباً اسرائیل کو ہی فراہم کیے جائیں گے۔ ایف-35 ہر ملک اور ہر پائلٹ کے لیے تخصیص کردہ ہوتا ہے۔ امریکا کے پاس سب سے زیادہ قابل ورژن موجود ہیں، جبکہ دیگر تمام ممالک کو اس سے کم تر درجے کے طیارے ملتے ہیں، سعودی طیاروں کو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اسرائیلی طیاروں کے مقابلے میں کم مضبوط رکھنا ممکن ہے، جس کا انحصار اس سافٹ ویئر پیکیج پر ہے جس کی طیاروں کے لیے اجازت دی جائے۔
رپورٹ کے مطابق صلاحیت کے فرق کے علاوہ، اسرائیل عددی برتری بھی رکھتا ہے، کیونکہ وہ اس وقت ایف-35 کے دو اسکواڈرن چلا رہا ہے اور تیسرا آرڈر پر ہے، سعودی عرب کو دو اسکواڈرن تک محدود رکھا جائے گا جن کی فراہمی میں کئی سال لگ جائیں گے۔ اسرائیل گزشتہ تقریباً آٹھ برسوں سے خطے میں ایف 35 کا واحد استعمال کنندہ رہا ہے۔ امریکی حکام نے کہا کہ فروخت کو حتمی شکل دینے سے قبل اسرائیل کی معیاری عسکری برتری کا باضابطہ جائزہ ضروری ہو گا، سعودی عرب کو ہونے والی ہر فروخت کی کانگریس سے منظوری درکار ہوتی ہے، ایک اہلکار نے اشارہ دیا کہ کانگریس میں اسرائیل کی مضبوط حمایت اس منظوری میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ حکام نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اسرائیل، سعودی عرب کو ابراہیمی معاہدوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ خطے میں تعلقات کو معمول پر لایا جا سکے اور ٹرمپ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی سے بچا جا سکے۔
کانگریس کی جانب سے ویٹو پروف مشترکہ قرارداد کے ذریعے اس کی مخالفت کرنے کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی تاکہ صدر کے ویٹو کو کالعدم قرار دیا جا سکے، جو ایک مشکل ہدف سمجھا جاتا ہے۔ یہ فروخت سعودی عرب کو قطر اور متحدہ عرب امارات کے برابر لا کھڑا کرے گی، جنہیں ایف 35 طیاروں کی پیش کش کی گئی ہے، تاہم یہ معاہدے اب بھی ڈیلیوری شیڈول، طیاروں کی صلاحیتوں، اور ٹیکنالوجی تک چین کی ممکنہ رسائی پر تحفظات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔