اسرائیل کو ٹرمپ امن منصوبے کے تحت غزہ میں جنگ بندی کر دینی چاہیے تھی، قطر
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے منگل کے روز کہا کہ اسرائیل کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے مطابق اب تک غزہ میں اپنی کارروائیاں بند کر دینی چاہیے تھیں۔
دوحہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ماجد الانصاری نے کہا کہ جنگ بندی سے متعلق سوال سب سے پہلے اسرائیلی قابض حکومت سے پوچھا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ امن منصوبہ مزید وضاحت اور مذاکرات کے محتاج ہے، وزیر اعظم قطر
’اگر وہاں کے وزیراعظم کے بیانات، جن میں ٹرمپ منصوبے پر عمل درآمد کی بات کی گئی تھی، واقعی درست ہیں تو اسرائیل کو جنگ بندی کر دینی چاہیے تھی۔‘
https://Twitter.
اس ہفتے مصر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان امریکی صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے پر بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں، جس کا مقصد غزہ میں جنگ کے خاتمے اور بعد از جنگ انتظامی خاکہ تیار کرنا ہے۔
گزشتہ جمعے کو حماس کی جانب سے ٹرمپ منصوبے کے تحت یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت پر آمادگی کے بعد امریکی صدر نے اسرائیل سے غزہ میں حملے روکنے کی اپیل کی تھی۔
صدرٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر لکھا کہ اسرائیل کو فوری طور پر غزہ پر بمباری روکنی چاہیے تاکہ ہم یرغمالیوں کو محفوظ اور جلد رہا کرا سکیں۔
مزید پڑھیں: قطر پر حملہ ہوا تو امریکا فوجی مداخلت کرےگا: ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کردیے
ماجد الانصاری نے مصر میں جاری امن مذاکرات پر محتاط ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کوئی شک نہیں کہ یہ مذاکراتی عمل ایسا ہے جس میں تمام فریق اتفاقِ رائے تک پہنچنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
’تاہم بہت سے عملی نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ منصوبے کی دفعات ’عملی تشریح اور زمینی سطح پر نفاذ‘ کی متقاضی ہیں، جس کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ مسلسل رابطہ ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل کی طرف سے معافی اور دوبارہ حملہ نہ کرنے کی یقین دہانیوں کو سراہتے ہیں، قطر
جب ان سے دوحہ میں حماس کے سیاسی دفتر کے مستقبل سے متعلق سوال کیا گیا، تو ترجمان وزارتِ خارجہ نے کہا کہ اس پر بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ماہ قطر کے دارالحکومت میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کے باوجود یہ دفتر دوحہ کی ثالثی میں مددگار رہا ہے۔
’جب تک حماس کے ساتھ رابطے کے لیے کسی چینل کی ضرورت باقی ہے، اس دفتر کی ضرورت بھی رہے گی۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل ترجمان حماس دوحہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ قطر وزارت خارجہذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
روس ٹرمپ امن منصوبے سے متفق، یوکرین رکاوٹ ہے: صدر پیوٹن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے 28 نکاتی امن منصوبے پر اصولی طور پر اتفاق کر لیا تھا، تاہم یوکرین کی مخالفت کے باعث امریکا نے اس پر پیش رفت روک دی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یہ بات کریملن میں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کے اجلاس کے دوران کہی، اجلاس کے آغاز میں چیئر آف فیڈریشن کی سربراہ ویلنٹینا ماتویینکو نے پیوٹن سے ٹرمپ کے منصوبے اور الاسکا میں ہونے والی ملاقات سے متعلق سوال کیا۔
پیوٹن نے جواب میں بتایا کہ امریکی انتظامیہ نے روس سے لچک دکھانے کی درخواست کی تھی، اور روس نے ان تجاویز سے اتفاق کر کے اپنا مثبت مؤقف واضح کر دیا تھا۔
صدر پیوٹن کے مطابق ٹرمپ کا امن منصوبہ الاسکا ملاقات سے پہلے بھی زیرِ غور تھا اور ملاقات میں روس نے دوبارہ اس سے اتفاق کی تصدیق کی، روس نے چین، بھارت، برازیل، جنوبی افریقہ، کوریا اور او ڈی کے بی کے تمام اتحادی ممالک کو مکمل طور پر اعتماد میں لیا، اور تمام شراکت دار ممالک نے اس ممکنہ معاہدے کی حمایت کی۔
پیوٹن نے الزام لگایا کہ امریکی انتظامیہ مذاکرات میں خاموشی اس لیے اختیار کیے ہوئے ہے کہ یوکرین اس منصوبے کو منظور کرنے پر آمادہ نہیں، یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی اب بھی روس کو اسٹریٹیجک شکست دینے کے وہم میں مبتلا ہیں اور انہیں میدانِ جنگ کی اصل صورتحال کا ادراک نہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 4 نومبر کو یوکرین دعویٰ کر رہا تھا کہ کوپیانسک میں صرف 60 روسی فوجی موجود ہیں، جبکہ حقیقت میں اس وقت پورا شہر روسی فوج کے کنٹرول میں آچکا تھا اور صرف چند علاقوں میں کلیئرنس آپریشن جاری تھا۔
صدر پیوٹن نے کہا کہ اگر یوکرین ٹرمپ منصوبے کو قبول نہیں کرے گا تو ایسے واقعات دیگر محاذوں پر بھی دہرائے جائیں گے، تاہم انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ روس امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ تمام نکات پر عملی گفتگو شروع کی جائے۔
اجلاس کے اختتام پر صدر نے 2026 میں روس کی او ڈی کے بی چیئرمین شپ اور نیو کولونیلزم کے خلاف روسی حکمتِ عملی سے متعلق پالیسی امور پر بھی گفتگو کی۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو امن معاہدہ قبول کرنے کے لیے آئندہ جمعرات تک کا وقت دیا ہے۔
دوسری طرف کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے تصدیق کی ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین میں امن قائم کرنے کے لیے امریکی تجویز کردہ 28 نکاتی منصوبے پر رابطوں کی نوعیت اور سطح ابھی طے نہیں ہوئی ہے۔
پیسکوف نے بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مذاکرات کی ضرورت اور رابطوں کی نوعیت پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔