ٹرمپ کا امن منصوبہ یا دفاعِ اسرائیل روڈ میپ؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: نجانے کیوں ہمارے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھنا نہیں آرہا کہ امریکہ کے عروج کا سورج غروب ہونیوالا ہے۔ دنیا میں چین سمیت دیگر قوتیں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں۔ امریکہ خود کسی ایک جھٹکے کی مار ہے۔ اس کی جنگ کسی بھی قوت کیساتھ ہوگئی تو وہ امریکہ کی آخری جنگ ہوگی، اس لئے ٹرمپ دنیا میں جنگیں بند کروانے کا راگ آلاپ کر امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ تحریر: تصور حسین شہزاد
ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کا چرچا اس وقت عروج پر ہے۔ یہاں تک کہ اس منصوبے کو ’’بہترین‘‘ قرار دلوانے کیلئے ہمارے میڈیا میں بھی خبریں چلوائی گئیں کہ اس پر حماس نے بھی مشروط آمادگی ظاہر کر دی ہے، جبکہ ہمارے وزیراعظم نے بھی ’’شاہ کی شاہ سے زیادہ وفاداری‘‘ میں عجلت میں اس منصوبے کے نکات پڑھے بغیر، قبول ہے، قبول ہے، کہہ دیا، جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ خود ٹرمپ نے بھی اسے حتمی شکل نہیں دی تھی، ایک مجوزہ منصوبہ تھا، جس کا مسودہ قبل از وقت پبلک کر دیا گیا۔ بعدازاں نیتن یاہو کیساتھ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے اس میں ’’بڑی‘‘ تبدیلیاں کیں اور وائٹ ہاوس کی جانب سے وہ تبدیل شدہ منصوبہ ایک بار پھر جاری کیا گیا۔ جس پر کہا گیا کہ پہلے سے جاری کردہ مسودہ درست نہیں تھا، اب اس میں ’’غلطیاں‘‘ ٹھیک کرکے دوبارہ جاری کیا جا رہا ہے۔
اس میں جو ’’غلطیاں‘‘ درست کی گئیں، وہ یہ تھیں کہ وہ پوائنٹس اسرائیلی مفادات کیخلاف جا رہے تھے اور نیتن یاہو کو وہ قبول نہیں تھے، جس پر فوری ’’غور و خوض‘‘ کے بعد ٹرمپ نے وہ پوائنٹس نکال دیئے اور نیا مسودہ تیار کرکے جاری کروا دیا۔ اب حماس سمیت فلسطینی اتھارٹی، قطر اور سعودی عرب سمیت دیگر مسلم حکمرانوں کو بھی وہ مسودہ دیا گیا، کسی نے بھی اتنی عجلت میں اسے ’’منظور‘‘ نہیں کیا، جتنی تیزی ہمارے وزیراعظم نے دکھائی، اب نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو اس کی وضاحتیں دینی پڑ رہی ہیں، جبکہ عسکری قیادت کے حوالے سے بھی ہدایات ملنے کے بعد پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے نہیں جا رہے۔
لاہور میں گفتگو میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے واضح کر دیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔ البتہ ایک اور حکومتی عہدیدار سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا ہم مشرق وسطیٰ میں امن چاہتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا یہ سلسلہ بند ہو جائے۔ اس کیلئے ہم کسی بھی امن معاہدہ کی حمایت کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ٹرمپی منصوبے کو حماس تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ منصوبے کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو اس سے کھلے بندوں یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ قیام امن کیلئے نہیں، بلکہ دفاعِ اسرائیل کیلئے ہے۔ اس منصوبے کو صرف اور صرف اسرائیل کو طاقتور بنانے اور اسے تحفظ فراہم کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
کیونکہ حالیہ حماس اسرائیل جنگ میں، اسرائیل کو عبرتناک شکست ہوئی ہے۔ اوپر سے ایران اسرائیل جنگ نے 12 دنوں میں اسرائیل کے نام نہاد دفاعی نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ یہ حقیقت ہے کہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے، بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے، لیکن اس تباہی کے باوجود، شکست اسرائیل کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے۔ پوری دنیا، بالخصوص یورپی ممالک میں اسرائیل کیخلاف ہونیوالے مظاہرے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اب عالمی رائے عامہ اسرائیل کیخلاف اور فلسطین کے حق میں ہوچکی ہے۔ یہ حماس کی فتح ہے۔ آج 7 اکتوبر کو حماس کی جدوجہد آزادی کو پورے دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ اسرائیل آج کے دن کو کس نظر سے منا رہا ہے، یہ اسرائیل میڈیا اور اسرائیل کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ 7 اکتوبر کو شروع ہونیوالی مزاحمت نے اسرائیل کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
اسرائیلی وزارتِ دفاع نے غزہ جنگ کے دو سال مکمل ہونے پر فوجی جانی نقصان کی تفصیلات بھی جاری کی ہیں۔ جن میں اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک 1152 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونیوالوں میں اسرائیلی فوج، پولیس، شن بیٹ ایجنسی اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔ وزارت نے اعتراف کیا کہ غزہ جنگ کی بھاری قیمت اسرائیلی ریاست اپنے کندھوں پر اٹھا رہی ہے اور اس تنازع نے اسرائیلی معاشرے کو گہرے زخم دیئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے ہیں، جب بین الاقوامی سطح پر اسرائیل پر جنگ بندی کے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور غزہ میں انسانی بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
ایسے وقت میں نیتن یاہو کی مقبولیت کا گراف بھی بُری طرح نیچے آیا ہے اور اس کی سیاسی ساکھ بھی خطرے سے دوچار ہے۔ ٹرمپ کا یہ اقدام نتین یاہو کو بچا پائے گا اور نہ ہی اسرائیل کو محفوظ رکھ سکے گا۔ کیونکہ عالمی بیانیہ تبدیل ہوچکا ہے، خود امریکہ کی کیفیت بھی ڈوبتی ناؤ کی سی ہے۔ نجانے کیوں ہمارے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھنا نہیں آرہا کہ امریکہ کے عروج کا سورج غروب ہونیوالا ہے۔ دنیا میں چین سمیت دیگر قوتیں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں۔ امریکہ خود کسی ایک جھٹکے کی مار ہے۔ اس کی جنگ کسی بھی قوت کیساتھ ہوگئی تو وہ امریکہ کی آخری جنگ ہوگی، اس لئے ٹرمپ دنیا میں جنگیں بند کروانے کا راگ آلاپ کر امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔
کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ حماس نے اسرائیل پر 7 اکتوبر کو حملہ کرکے غلطی کی اور غزہ کی تباہی کا سامان کیا۔ راقم اس سوچ سے متفق نہیں، حماس نے مزاحمت کرکے غلطی نہیں کی، بلکہ بروقت اور موثر فیصلہ کیا ہے۔ اس سے عربوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جو ایک لہر چل پڑی تھی، وہ رک گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کا منظرنامہ تبدیل ہوا ہے اور عالمی رائے عامہ اسرائیل کیخلاف ہوگئی ہے۔ یہ حماس کی بہت بڑی فتح ہے۔ جانوں اور املاک کی قربانیاں اپنی جگہ، لیکن بڑے ہدف کیلئے قربانی بھی بڑی دینی پڑتی ہے۔ حماس نے بڑی قربانیاں دے کر بڑا ہدف حاصل کیا ہے۔ اب حماس کی اس کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کا ٹرمپی منصوبہ خود ناکام ہو جائے گا اور فلسطین ایک آزاد ریاست کے طور پر ایک بار پھر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگا۔ ان شاء اللہ
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں اسرائیل اسرائیل کو امریکہ کی دنیا میں حماس کی اور اس ہے اور ہیں کہ رہا ہے نے بھی
پڑھیں:
فلسطینی مزاحمت کی 6 اسٹریٹجک کامیابیاں
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا امن منصوبہ نہ صرف حماس کو کمزور کرنے میں ناکام رہا، بلکہ اس نے امریکہ اور اسرائیل کی اسٹریٹجک ناکامیوں کو مزید نمایاں کر دیا۔ حماس نے نہ صرف اپنی شرائط پر قائم رہ کر مذاکرات کیے، بلکہ عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمت کو ایک نئی اخلاقی اور سیاسی قوت عطا ہوئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت، حکمت اور عوامی حمایت کے امتزاج سے عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ تحریر: محمدرضا دہقان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینی تنظیم حماس کو پیش کردہ "20 نکاتی امن منصوبہ" بظاہر جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کے انتظام کے لیے بین الاقوامی کمیٹی کی تشکیل پر مبنی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس منصوبے کے اصل اہداف حماس کو غیر مسلح کرنا اور غزہ کو سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کے حوالے کرنا ہیں۔ حماس نے اس منصوبے کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا، بلکہ مذاکرات میں شرکت کے لئے دو بنیادی شرائط پر سامنے رکھی ہیں: یر
1۔ مسلح ہونے سے انکار
2۔ غزہ کا انتظام فلسطینی داخلی قوتوں کے ہاتھوں میں رہنا
یہی وہ مقام ہے، جہاں سے حماس کی کامیابی اور امریکہ، اسرائیل، یورپ اور اسرائیل دوست عرب حکومتوں کی چھ اسٹریٹجک شکستوں کی وضاحت ہوتی ہے۔
پہلی کامیابی: استعمار کا حماس کو شکست دینے کا خواب چکنا چور
ابتدائی طور پر تجزیہ کاروں نے سمجھا تھا کہ حماس نے ٹرمپ کے امن منصووبے کا جواب دیکر شکست قبول کر لی ہے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 9 جنوری 2024 کو فرمایا تھا کہ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حماس کو ختم کریں گے لیکن اس میں ناکام رہے، اسی طرح دشمن نے کہا تھا کہ وہ غزہ کے عوام کو یہاں سے منتقل کریں گے لیکن اس میں بھی ناکام رہے، انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ مزاحمت کی کارروائیوں کو روکیں گے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
دوسری کامیابی: غزہ ان کے لئے دلدل ثابت ہوا
صہیونی حکومت کا غزہ میں جارحیت کا ارتکاب اور غزہ کو خالی کروا کے اس پر قبضے کا خواب خود اس کے لیے دلدل بن گیا۔ اس بارے میں بھی رہبر انقلاب نے 20 مارچ 2024 کو فرمایا تھا کہ آج اگر وہ غزہ سے نکلیں تو بھی ان کی شکست ہے، اور اگر نہ نکلیں تب بھی شکست خوردہ ہیں، صہیونی حکومت کا یہی مقدر ہے۔
تیسری کامیابی: حماس کے واضح اور ٹھوس مطالبات
ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کو جرائم سے بری کروانے اور تحفظ دینے کے لئے جو امن منصوبہ پیش کیا گیا، اس کے جواب میں حماس نے مذاکرات میں شرکت کے لئے جس طرح مطالبات اور نکات رکھ کر اس پر بات چیت سے انکار نہیں کیا، یہ حماس نے درایت ہے، بظاہر منصوبے کے ساتھ چل رہے ہیں، لیکن اصل مطالبات پیش کیے اور ٹرمپ و نیتن یاہو کو ان کے اپنے ہی جال میں پھنسا دیا۔
چوتھی کامیابی: امریکا اپنے مؤقف سے ہٹنا
ٹرمپ کا امن منصوبہ کے بارے میں اب جو موقف سامنے آ رہا ہے، دراصل وہی مؤقف ہے جو حماس پہلے ہی پیش کر چکی تھی۔ حماس نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ غزہ کا انتظام سنبھالنے کو تیار ہے، بشرطیکہ قابض حکومت پیچھے ہٹے اور جنگ ختم ہو۔ اب امریکہ اسی مؤقف کو "امن منصوبہ" کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
پانچویں کامیابی: عالمی سطح پر اسرائیل کی بدنامی
7 اکتوبر کے بعد اسرائیل نہ صرف اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل نہ کر سکا، بلکہ دنیا بھر میں عوامی رائے اس کے خلاف ہو گئی۔ جیسا کہ رہبر انقلاب نے 23 مئی 2024 کو فرمایا کہ "آج دنیا مزاحمت کے حق میں نعرے لگا رہی ہے، کون سوچ سکتا تھا کہ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں نعرے لگیں گے، فلسطینی پرچم بلند کیے جائیں گے؟ یہ سب ہو چکا ہے۔
چھٹی کامیابی: اسرائیل کو مسلسل ذلت آمیز پسپائی
ٹرمپ کے امن منصوبے کے بعد حماس کی طرف سے مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان یہ تازہ شکست ان ذلتوں کا تسلسل ہے، جو اسرائیل نے حالیہ برسوں میں برداشت کی ہیں، جن میں سابقہ قیدیوں کی رہائی کے معاہدے بھی شامل ہیں، جنہیں حماس نے مہارت سے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اس بارے میں بھی رہبر انقلاب نے 23 مئی 2024 کو فرمایا تھا کہ اللہ کا پہلا وعدہ آپ کے لیے پورا ہو چکا ہے، کہ کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ تم ایک چھوٹی جماعت ہو جو امریکہ، نیٹو، برطانیہ اور دیگر پر غالب آ گئی ہے۔ پس وہ دوسرا وعدہ بھی، یعنی اسرائیل کا خاتمہ، ضرور پورا ہوگا کہ فلسطین کا قیام سمندر سے دریا تک، ان شاء اللہ وہ دن بھی تم دیکھو گے۔
ٹرمپ کا امن منصوبہ نہ صرف حماس کو کمزور کرنے میں ناکام رہا، بلکہ اس نے امریکہ اور اسرائیل کی اسٹریٹجک ناکامیوں کو مزید نمایاں کر دیا۔ حماس نے نہ صرف اپنی شرائط پر قائم رہ کر مذاکرات کیے، بلکہ عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمت کو ایک نئی اخلاقی اور سیاسی قوت عطا ہوئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت، حکمت اور عوامی حمایت کے امتزاج سے عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی کو شکست دی جا سکتی ہے۔