مصرمیں امن منصوبہ مذاکرات : حماس نے کئی شرائط رکھ دیں
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251007-01-22
قاہرہ/واشنگٹن /لندن/ پیرس (مانیٹرنگ ڈیسک) مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔جس میں حماس نے اہم رہنماؤں اورہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی سمیت کئی شرائط رکھ دیں ہیں۔مصری اور قطری ثالث فریقین سے ملاقاتیں کرکے امریکی صدر ٹرمپ کے مجوزہ غزہ امن منصوبے پر عملدرآمد کے لیے اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ فریقین کے درمیان غزہ میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے ہزاروںفلسطینی قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے حماس نے مجوزہ منصوبے کے بعض حصوں پر اتفاق کیا تھا مگر غیر مسلح کیے جانے جیسے مطالبے پر ردعمل نہیں دیا تھا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ان مذاکرات میں حماس کے وفد کی قیادت خالد الحیہ کر رہے ہیں جنھیں اسرائیل نے دوحہ میں نشانہ بنانے کی ناکام کی کوشش کی تھی۔الحیہ غزہ کے باہر حماس کے سب سے سینئر رہنما ہیں۔الحیہ حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کے نائب تھے جو 2024 ء میں قابض اسرائیلی فوجیوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے تھے۔یہ مذاکرات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت ہو رہے ہیں جس کا مقصد2 سال سے جاری جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہے۔فلسطینی ذرائع کے مطابق یہ مذاکرات کئی دن جاری رہ سکتے ہیں، مزید کہنا تھا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ مذاکرات مشکل اور پیچیدہ ہوں گے، کیونکہ قابض قوت کی نیت اپنی جارحیت جاری رکھنے کی ہے۔امریکی صدر کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے جاری اس جنگ کے خاتمے کے لیے جاری غزہ امن مذاکرات کی براہ راست خود نگرانی کروں گا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ امن منصوبے پر “تیزی سے آگے بڑھیں” اور پہلے مرحلے پر عمل درآمد کو اسی ہفتے مکمل کرلیا جائے تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا پہلے مرحلے سے ان کی مراد کیا ہے؟ البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کی محدود واپسی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے اس پہلے مرحلے کے دوران فریقین غزہ میں موجود 20 زندہ یرغمالیوں سمیت 28 مرہ یرغمالیوں کی لاشوں کی حوالگی کے لیے بھی بات چیت کریں گے۔علاوہ ازیں یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ سے اسرائیلی فوج کی محدود پیمانے پر واپسی پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔قبل ازیں حماس نے غزہ امن منصوبے پر مذاکرات کے لیے قاہرہ پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ جنگ بندی، اسرائیلی فوج کے انخلا اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے مذاکرات کرنے آئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق حماس یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل سے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے جن میں وہ قیدی بھی شامل ہیں جنہیں عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیںتاہم اسرائیل نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جب کہ نیتن یاہو کی اتحادی جماعتیں بھی معاہدے کے خلاف ہیں۔خیال رہے کہ امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان تعلقات میں تناؤ کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ نے نیتن یاہو کو فون پر ڈانٹتے ہوئے کہا کہ وہ ’’اتنے منفی‘‘ نہ ہوں۔ نیتن یاہو نے حماس کے جواب کو مسترد کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ٹرمپ نے اسے مثبت قرار دیا۔ اسرائیلی آرمی چیف ایال ضمیر نے اسرائیلی کمانڈرز سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں آپریشنل صورتحال میں تبدیلی ہورہی ہے، سیاسی کوشش کامیاب نہ ہوئی توہم لڑائی میں واپس آجائیں گے۔ایال ضمیر نے کہا کہ اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ میں حقیقت بدل رہا ہے۔مزید برآں اسرائیل کے خلاف کئی ملکوں میں احتجاج کیا گیا، برطانیہ، فرانس،ا سپین، پرتگال، اٹلی، بنگلا دیش سمیت کئی ملکوں میں عوام سڑکوں پر آگئے۔اسپین میں 10 ہزار سے زاید افراد نے اسرائیل کیخلاف مارچ کیا، مظاہرین نے فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے کا مطالبہ کیا، پیرس میں ہزاروں افراد نے احتجاج اور شدید نعرے بازی کی، غزہ میں بمباری فوری رکوانے کا مطالبہ کیا۔قبل ازیں غزہ پر اسرائیل کے 131فضائی حملے میں مزید94فلسطینی شہیدہوگئے ۔اسرائیلی وزارت دفاع نے آج 7اکتوبر کو غزہ جنگ کے 2 سالوں میں ہونے والے فوجی جانی نقصان کیاعداد و شمار جاری کردیے۔ اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک 1152 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور ہلاک فوجیوں میں سیتقریباً 42 فیصد کی عمریں 21 سال سے کم تھیں۔اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ہلاک اسرائیلیوں کا تعلق فوج، پولیس، شن بیٹ ایجنسی اورکارپورلز سے ہے۔اسرائیلی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ریاست اپنے کندھوں پرغزہ جنگ کی بھاری قیمت اٹھا رہی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی اسرائیلی فوج امریکی صدر کے مطابق کی رہائی حماس کے کے لیے
پڑھیں:
حماس یرغمالیوں کی رہائی کے لیے رضا مند
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اکتوبر 2025ء) غزہ پٹی میں مسلح تنازعے کے خاتمے کی خاطر عالمی کوششیں جاری رہیں تاہم امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ تازہ امن منصوبے کے تحت امید کی جا رہی ہے کہ غزہ میں قیام امن ممکن ہو سکتا ہے۔ حماس یرغمالیوں کی رہائی کے لیے تیار ہو گئی ہے اور اس نے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے کچھ حصوں کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔
حماس اور اسے وابستہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیموں نے تقریباً دو سال قبل 7 اکتوبر سن 2023 کو اسرائیلی سزرمین پر دہشت گرادنہ حملے کرتے ہوئے تقریبا بارہ سو افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ڈھائی سو کے قریب افراد کو یرغمالی بنا لیا تھا۔
ان دہشت گردانہ حملوں کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ میں فلسطینی جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی۔
(جاری ہے)
اسرائیلی نے اس کارروائی کا مقصد حماس کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی بتایا گیا تھا۔ مزید مذاکرات کی ضرروت ہے، حماسحماس نے کہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرنے اور اقتدار دوسرے فلسطینیوں کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے لیکن منصوبے کے دیگر پہلو فلسطینیوں کے درمیان مزید مشاورت کے متقاضی ہیں۔
حماس کے سینیئر عہدیداروں نے اشارہ دیا کہ اب بھی بڑے اختلافات موجود ہیں، جن کے لیے مزید مذاکرات کی ضرورت ہوگی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل ٹرمپ کے منصوبے کے ''پہلے مرحلے‘‘ پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے، جو بظاہر یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق ہے۔
تاہم ان کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل جنگ ختم کرنے کے لیے ان اصولوں پر قائم ہے، جو وہ پہلے بیان کر چکا ہے اور حماس کے ساتھ ممکنہ اختلافات پر کوئی بات نہیں کی۔
ٹرمپ نے حماس کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا، ''مجھے یقین ہے کہ وہ پائیدار امن کے لیے تیار ہیں۔‘‘
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''اسرائیل کو فوراً غزہ پر بمباری بند کرنی چاہیے تاکہ ہم یرغمالیوں کو محفوظ اور جلدی باہر نکال سکیں! فی الحال ایسا کرنا بہت خطرناک ہے۔ ہم پہلے ہی تفصیلات پر بات چیت کر رہے ہیں۔
‘‘ حماس کا تفصیلی ردعمل کیا ہے؟حماس نے کہا کہ منصوبے کے وہ حصے جو غزہ پٹی کے مستقبل اور فلسطینی حقوق سے متعلق ہیں، ان پر فیصلہ ایک ''متفقہ فلسطینی مؤقف‘‘ کی بنیاد پر ہونا چاہیے، جو دیگر دھڑوں سے مشاورت اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہو۔
اس بیان میں حماس کے ہتھیار ڈالنے کا کوئی ذکر نہیں تھا، جو کہ اسرائیل کا ایک بنیادی مطالبہ ہے اور ٹرمپ کے منصوبے میں بھی شامل ہے۔
صدر ٹرمپ جنگ ختم کرنے اور درجنوں یرغمالیوں کی واپسی کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں، بالخصوص اس تنازعے کے دو برس مکمل ہونے سے قبل۔ یاد رہے کہ یہ تنازعہ سات اکتوبر کو شروع ہوا تھا۔
حماس نے لچک کیوں دیکھائی؟ صدر ٹرمپ کا منصوبہ کیا ہے؟امریکی صدر ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ حماس کو اتوار کی شام تک معاہدے پر رضامندی ظاہر کرنا ہو گی، ورنہ ''مزید شدید فوجی کارروائی‘‘ کی جائے گی۔
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا، ''اگر یہ معاہدہ نہیں ہوا تو حماس کے خلاف وہ جہنم ٹوٹے گی جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھی ہو گی۔ مشرق وسطیٰ میں کسی نہ کسی طرح امن قائم ہو گا۔‘‘
امریکی صدر کے اس منصوبے کے مطابق حماس باقی 48 یرغمالیوں، جن میں تقریباً 20 کے زندہ ہونے کا یقین ہے، کو تین دنوں میں(اتوار تک) رہا کرے گی۔ اس کے علاوہ وہ اقتدار چھوڑ دے گی اور ہتھیار ڈال دے گی۔
اس صورت میں اسرائیل غزہ پٹی میں اپنی کارروائی روک دے گا جبکہ زیادہ تر فوجی واپس بلا لے گا۔ ساتھ ہی اسرائیل سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا اور غزہ پٹی میں امداد کی رسائی اور وہاں تعمیرنو کے عمل کی اجازت دے گا۔ اس ڈیل کے تحت غزہ کی آبادی کو دیگر ممالک میں منتقل کرنے کے منصوبے منسوخ کر دیے جائیں گے۔