Islam Times:
2025-11-21@05:48:08 GMT

فلسطینی مزاحمت کی 6 اسٹریٹجک کامیابیاں

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

فلسطینی مزاحمت کی 6 اسٹریٹجک کامیابیاں

اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا امن منصوبہ نہ صرف حماس کو کمزور کرنے میں ناکام رہا، بلکہ اس نے امریکہ اور اسرائیل کی اسٹریٹجک ناکامیوں کو مزید نمایاں کر دیا۔ حماس نے نہ صرف اپنی شرائط پر قائم رہ کر مذاکرات کیے، بلکہ عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمت کو ایک نئی اخلاقی اور سیاسی قوت عطا ہوئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت، حکمت اور عوامی حمایت کے امتزاج سے عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی کو شکست دی جا سکتی ہے۔  تحریر: محمدرضا دہقان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینی تنظیم حماس کو پیش کردہ "20 نکاتی امن منصوبہ" بظاہر جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کے انتظام کے لیے بین الاقوامی کمیٹی کی تشکیل پر مبنی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس منصوبے کے اصل اہداف حماس کو غیر مسلح کرنا اور غزہ کو سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کے حوالے کرنا ہیں۔ حماس نے اس منصوبے کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا، بلکہ مذاکرات میں شرکت کے لئے دو بنیادی شرائط پر سامنے رکھی ہیں: یر
1۔ مسلح ہونے سے انکار
2۔ غزہ کا انتظام فلسطینی داخلی قوتوں کے ہاتھوں میں رہنا
یہی وہ مقام ہے، جہاں سے حماس کی کامیابی اور امریکہ، اسرائیل، یورپ اور اسرائیل دوست عرب حکومتوں کی چھ اسٹریٹجک شکستوں کی وضاحت ہوتی ہے۔

پہلی کامیابی: استعمار کا حماس کو شکست دینے کا خواب چکنا چور
ابتدائی طور پر تجزیہ کاروں نے سمجھا تھا کہ حماس نے ٹرمپ کے امن منصووبے کا جواب دیکر شکست قبول کر لی ہے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 9 جنوری 2024 کو فرمایا تھا کہ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حماس کو ختم کریں گے لیکن اس میں ناکام رہے، اسی طرح دشمن نے کہا تھا کہ وہ غزہ کے عوام کو یہاں سے منتقل کریں گے لیکن اس میں بھی ناکام رہے، انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ مزاحمت کی کارروائیوں کو روکیں گے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

دوسری کامیابی: غزہ ان کے لئے دلدل ثابت ہوا
صہیونی حکومت کا غزہ میں جارحیت کا ارتکاب اور غزہ کو خالی کروا کے اس پر قبضے کا خواب خود اس کے لیے دلدل بن گیا۔ اس بارے میں بھی رہبر انقلاب نے 20 مارچ 2024 کو فرمایا تھا کہ آج اگر وہ غزہ سے نکلیں تو بھی ان کی شکست ہے، اور اگر نہ نکلیں تب بھی شکست خوردہ ہیں، صہیونی حکومت کا یہی مقدر ہے۔

تیسری کامیابی: حماس کے واضح اور ٹھوس مطالبات
ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کو جرائم سے بری کروانے اور تحفظ دینے کے لئے جو امن منصوبہ پیش کیا گیا، اس کے جواب میں حماس نے مذاکرات میں شرکت کے لئے جس طرح مطالبات اور نکات رکھ کر اس پر بات چیت سے انکار نہیں کیا، یہ حماس نے درایت ہے، بظاہر منصوبے کے ساتھ چل رہے ہیں، لیکن اصل مطالبات پیش کیے اور ٹرمپ و نیتن یاہو کو ان کے اپنے ہی جال میں پھنسا دیا۔

چوتھی کامیابی: امریکا اپنے مؤقف سے ہٹنا
ٹرمپ کا امن منصوبہ کے بارے میں اب جو موقف سامنے آ رہا ہے، دراصل وہی مؤقف ہے جو حماس پہلے ہی پیش کر چکی تھی۔ حماس نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ غزہ کا انتظام سنبھالنے کو تیار ہے، بشرطیکہ قابض حکومت پیچھے ہٹے اور جنگ ختم ہو۔ اب امریکہ اسی مؤقف کو "امن منصوبہ" کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

پانچویں کامیابی: عالمی سطح پر اسرائیل کی بدنامی
7 اکتوبر کے بعد اسرائیل نہ صرف اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل نہ کر سکا، بلکہ دنیا بھر میں عوامی رائے اس کے خلاف ہو گئی۔ جیسا کہ رہبر انقلاب نے 23 مئی 2024 کو فرمایا کہ "آج دنیا مزاحمت کے حق میں نعرے لگا رہی ہے، کون سوچ سکتا تھا کہ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں نعرے لگیں گے، فلسطینی پرچم بلند کیے جائیں گے؟ یہ سب ہو چکا ہے۔ 

چھٹی کامیابی: اسرائیل کو مسلسل ذلت آمیز پسپائی
ٹرمپ کے امن منصوبے کے بعد حماس کی طرف سے مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان یہ تازہ شکست ان ذلتوں کا تسلسل ہے، جو اسرائیل نے حالیہ برسوں میں برداشت کی ہیں، جن میں سابقہ قیدیوں کی رہائی کے معاہدے بھی شامل ہیں، جنہیں حماس نے مہارت سے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اس بارے میں بھی رہبر انقلاب نے 23 مئی 2024 کو فرمایا تھا کہ اللہ کا پہلا وعدہ آپ کے لیے پورا ہو چکا ہے، کہ کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ تم ایک چھوٹی جماعت ہو جو امریکہ، نیٹو، برطانیہ اور دیگر پر غالب آ گئی ہے۔ پس وہ دوسرا وعدہ بھی، یعنی اسرائیل کا خاتمہ، ضرور پورا ہوگا کہ فلسطین کا قیام سمندر سے دریا تک، ان شاء اللہ وہ دن بھی تم دیکھو گے۔

ٹرمپ کا امن منصوبہ نہ صرف حماس کو کمزور کرنے میں ناکام رہا، بلکہ اس نے امریکہ اور اسرائیل کی اسٹریٹجک ناکامیوں کو مزید نمایاں کر دیا۔ حماس نے نہ صرف اپنی شرائط پر قائم رہ کر مذاکرات کیے، بلکہ عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمت کو ایک نئی اخلاقی اور سیاسی قوت عطا ہوئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت، حکمت اور عوامی حمایت کے امتزاج سے عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: رہبر انقلاب کو فرمایا حماس کو تھا کہ کے لئے

پڑھیں:

حماس نے ٹرمپ امن منصوبے کی قرارداد مستردکردی

قرارداد فلسطین کی فیصلہ سازی پر بیرونی قوتوں کے کنٹرول کی راہ ہموار کریگی
قرارداد میں جنگ بندی پر عملدرآمد اورغزہ میں امن فورس کا قیام شامل ہونا چاہیے

حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے سلامتی کونسل میں ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد کو مسترد کردیا۔ حماس کا کہنا ہے کہ قرارداد فلسطین کی فیصلہ سازی پر بیرونی قوتوں کے کنٹرول کی راہ ہموار کریگی، قرارداد سے غزہ کی حکومت اور تعمیر نو غیرملکی سرپرستی میں چلی جائے گی۔حماس کا مؤقف ہے کہ قرارداد سے فلسطینیوں سے ان کی حکمرانی چِھن جائیگی، غزہ میں بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کا مطلب غیرملکی سرپرستی ہوگا۔حماس کا کہنا ہے کہ غزہ میں انسانی امداد کا انتظام اقوام متحدہ کے زیرنگرانی فلسطینی اداروں کے پاس ہونا چاہیے۔حماس نے غزہ کو غیرمسلح کرنے یا فلسطینیوں سے مزاحمت کا حق چھیننے کو مستردکرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ قرارداد میں جنگ بندی پر عملدرآمد اور غزہ میں بین الاقوامی امن فورس کا قیام شامل ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • صیہونی فورسز کی غزہ میں فضائی جارحیت جاری، خواتین، بچوں سمیت مزید 28 فلسطینی شہید
  • اسلامی دنیا کی حمایت سے طے پانے والا ’ غزہ امن منصوبہ‘ اور پاکستان کا مؤقف
  • نام نہاد غزہ امن فورس اور پاکستان
  • سعودی عرب اور امریکا کا اسٹریٹجک ڈیفینس سمیت متعدد اہم معاہدوں پر دستخط
  • اسرائیل نے جنگ بندی معاہدےکی دھجیاں اڑادیں، آج پھر لبنان پر حملہ کردیا، 13 افراد جاں بحق
  • جنوبی لبنان میں صیہونی فورسز کا فضائی جارحیت، 13 افراد شہید، متعدد زخمی
  • حماس نے ٹرمپ امن منصوبے کی قرارداد مستردکردی
  • ’اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو جائز سمجھتے ہیں‘، حماس نے غزہ سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد مسترد کردی
  • سلامتی کونسل ، ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے حق میں قرارداد منظور،حماس کی مخالفت، پاکستان کی حمایت
  • حماس نے غزہ قرارداد مسترد کردی، اسرائیل کے خلاف ہتھیار ڈالنے سے انکار