Juraat:
2025-10-05@13:04:33 GMT

ٹرمپ کاامن منصوبہ اور مسلم قیادت

اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT

ٹرمپ کاامن منصوبہ اور مسلم قیادت

حمیداللہ بھٹی

غزہ میں جنگ نہیںنسل کشی ہورہی ہے کیونکہ حماس کے پاس کوئی فضائی طاقت نہیں۔ ہتھیاربھی ازکار ِرفتہ ہیں اور نفری بھی تربیت یافتہ نہیں ۔نیز بھوک وپیاس سے نڈھال اور اِتنے مسائل کے باوجود اپنی شناخت کے تحفظ کی جبلت اُسے شکست تسلیم کرنے سے روکتی ہے۔ وہ تمام تر بے سروسامانی کے باوجوداپنی بساط کے مطابق دفاع میں ثابت قدم ہے۔ دوبرس سے اسرائیل کی طرف سے غزہ میں جاری نسل کشی نے دنیا کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ اسی بناپر امریکہ اور اسرائیل کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے ۔ اسرائیلی سفاکانہ بمباری پر شدید ردِ عمل آنے سے ہی برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک بالآخر فلسطینی ریاست تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو صدرٹرمپ جیسے مذہبی تعصب کے شکار شخص کو امن منصوبہ پیش کرنے کی طرف لائی ہے۔ اِس منصوبے کی ابتدامیں چند اہم مسلم ممالک نے حمایت کی جسے اِس بناپر مسلم قیادت کی جلد بازی سمجھاجارہا ہے کہ امن منصوبے میں نہ صرف آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست بارے کوئی لائحہ عمل نہیں اور نہ ہی القدس شریف پر قبضہ ختم کرانے کی بابت کوئی واضح یقین دہانی ہے ۔انھی وجوہات کی بناپر ایسے قیاسات کو تقویت ملتی ہے کہ اسرائیل سے دنیا کی بڑھتی نفرت کو کم کرنے کے لیے ہی امریکہ میدان میں آیا ہے ، جس کا مسلم قیادت نے ادراک نہ کیا اور جلد بازی میں حمایت سے اپنی ساکھ دائو پر لگالی۔
فلسطین کا مسئلہ دراصل اسرائیل کا پیدا کردہ ہے۔ اگروہ جارحانہ پالیسی اورتوسیع پاسندی ترک کردے تو مشرقِ وسطیٰ میں فوری طورپر امن قائم ہو سکتا ہے، مگر اسرائیل کی توسیع پسندی نے فلسطین اتھارٹی کوچند ایک ایسے شہروں تک محدود کر دیا ہے جہاں غربت ا وربھوک و افلاس کا راج ہے جوہر حوالے سے اسرائیل کی محتاج ہے۔ فلسطین کو اِس نہج تک لانے میں پی ایل او کی حماقتوں کابھی اہم کردار ہے۔ اگر اوسلومعاہدے کے وقت یاسر عرفات جلدبازی نہ کرتے توآج فلسطینی اتھارٹی یوں بے بس ولاچار نہ ہوتی۔ جب حماس غزہ کی منتخب قیادت ہے تو امریکہ اور اسرائیل کااُسے دہشت گرد قرار دیناسمجھ سے بالاتر ہے ۔ٹرمپ امن منصوبے میں فلسطینی ریاست بارے میں تو ابہام ہے مگر حماس کی قیادت کو غیر مسلح کرنے اور ملک بدرکرنے بارے غیر مُبہم وضاحت ہے جس سے اسرائیل نوازی آشکار ہوتی ہے۔ حماس کے ہتھیارڈالنے کے بعد اسرائیلی کوانخلا کاوقت دیناجانبداری کو عیاں کرتا ہے، ا سرائیل کا قیام برطانیہ کی وجہ سے ممکن ہوا مگر اب یہ حالت ہے کہ خطے میں امریکی پالیسی کا تعین اسرائیل کرتا ہے۔ ٹرمپ امن منصوبے میں ایک بین الا قوامی عبوری اِدارے کا تصور پیش کیا گیا ہے جس کی صدارت امریکی صدر کے پاس ہوگی، جبکہ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئرکو اِس کاحصہ بنایا گیاہے۔ علاوہ ازیں غزہ کی مستقبل میں دیکھ بھال کے لیے ٹرمپ نے اپنے صیہونی داماد جیرڈکشنر کو بھی اہم کردار تفویض کیا ہے، یہ سب امن پسندوں کوچونکانے کا باعث ہے امن منصوبہ کسی سازش کاپیش خیمہ معلوم ہوتا ہے جسے مسلم امہ کو سمجھنا چاہیے۔
صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے آٹھ بڑے مسلم ممالک کی مشاورت سے امن منصوبہ پیش کیا جس کی پاکستان سمیت سب نے حمایت کی ہے مگرحمایتی امن منصوبے کے خدوخال سامنے آنے پراب پریشان لگتے ہیں اور اپنی لاتعلقی ظاہرکرر ہے ہیں۔ قطر نے تحفظات کا اظہار کیا ہے پاکستان بھی اب فاصلہ اختیار کرتا نظر آتا ہے جبکہ حماس نے بھی امن منصوبہ رَد کر دیا ہے تواعتماد کا شکار امریکہ کوحالات کی سنگینی کاکچھ احساس ہواہے اور وہ دوست ممالک کو اعتماد میں لینے لگا ہے ۔قطر کو دفاع کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جبکہ شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکے ساتھ ہونے کے دعویٰ پر اسحاق ڈار کو کہنا پڑا ہے کہ ہم کسی ابراہم اکارڈ کا حصہ نہیں بننے جارہے، اگر مسلم قیادت جلدبازی سے گریز کرتی توشایدٹرمپ ایسی جانبداری سے کام نہ لیتے اورنہ ہی آج مسلم قیادت عوامی حلقوں میں ہدفِ تنقید بن رہی ہوتی جلدبازی کاشاخسانہ ہے کہ امن منصوبے کی حمایت کی یقین دہانی کرانے والے قطر سمیت دو عرب ممالک اب مخمصے میں ہیں کہ کیسے حماس کو منصوبہ تسلیم کرنے پر رضا مند کریں۔ اب تو یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی فوج کی واپسی نیتن یاہوکی خواہش کے مطابق ہونابہت مشکل ہے۔ اسی لیے امن منصوبے میں بار بار ترامیم کرانے کی نوبت آئی مسلم قیادت کی طرف سے حمایت کے باوجود امن منصوبہ کا پایہ تکمیل کو پہنچنااِس لیے بھی مشکل ہے کہ اکثر مسلم ممالک کی قیادت عوامی اعتماد سے محروم ہے جوحمایت کے بعد اب تذبذب میںہے جو اُسے کسی غیر معمولی فیصلے سے روکتی ہے ۔
امن منصوبے میں حماس سے کہا گیا ہے کہ بہتر گھنٹوں میں زندہ یرغمالیوں کورہاکرے اور دودرجن کے قریب مردہ یرغمالیو ں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کردے بعد گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کواسرائیل رہا کرے گا ۔ماضی کے تجربات شاہد ہیں کہ اسرائیل وعدے پورے نہیں کرتابلکہ من مرضی سے کام لیتا ہے ۔اسی لیے تمام تر مشکلات کے باوجود حماس اب اسرائیل پر اعتماد کرنے میں ہچکچارہی ہے۔ جنگ بندی کے ایام میں حماس کی طرف سے یرغمالیوں کی رہائی ہوتے ہی اسرائیل حملے کرتارہاہے جس کے سدِ باب کے حوالے سے جب مسلم قیادت پہلے کچھ نہیں کر سکی تو اب بھی ایسا امکانات کو رَد نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل امن ،اصول ،اخلاق یا انسانی ہمدردی کو خاطر میں لائے بغیر شقی القلبی سے کام لے گا اور مسلم قیادت عملی اقدامات کی بجائے محض زبانی کلامی مذمت تک محدود رہے گی ۔لہٰذابہتر یہ ہے کہ غزہ کو مزید قربانی کا بکرابننانے سے گریز کیا جائے ۔امن معاہدے پر عمل کرنا یا جان چھڑانا دونوں صورتوں میں نیتن یاہو کے لیے بھی زیادہ خوشگوار صورتحال نہیں ہو سکتی جب وہ انتہائی دائیں بازو کی متعصب جماعت کے ووٹوں کی کمزور بیساکھی کے سہارے حکومت کررہے ہیں ۔اِس صورت میں بہتر ہوگا کہ تمام فریقین کوکسی نئے امتحان میں ڈالنے کی بجائے انصاف سے کام لیاجائے ۔
غیر جانبدار حلقے متفق ہیں کہ ٹرمپ امن منصوبے سے بھلے مشرقِ وسطیٰ میں امن نہ آئے اور قبضے میں لیے گئے علاقے پروشلم وگولان کی پہاڑیایوں سے فوجی انخلا نہ ہو نیز غزہ کا محاصرہ بددستور رہے لیکن اسرائیل کو تسلیم کرانے کا دیرینہ خواب پوراہوسکتاہے۔ بہتر یہ ہے کہ اِس حقیقت کو مسلم قیادت سمجھے ایسا ہی منصوبہ عراق میں جب ناقابل قبول قرار پاچکا تو نیاتجربہ کرنادانشمندی نہیںایسے جانبداری پر مبنی منصوبے کو تسلیم کرنے سے عرب بہار جیسی بیداری کی ایک نئی لہر جنم لینے کاخدشہ بھی بعید ازقیاس نہیںہے۔ ٹرمپ امن منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے مسلم قیادت تمام پہلوئوں کو مدِ نظر رکھے اور فلسطینیوں کے مفاد کا تحفظ یقین بنائے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا دوٹوک موقف رہا ہے کہ اسرائیل مسلم دنیاکے دل میں پیوست خنجر ہے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں مگر دوریاستی حل کی حمایت دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور یہی امن منصوبے کی آڑ میں ہوناہے ۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: سے اسرائیل مسلم قیادت اسرائیل کو کہ اسرائیل تسلیم کرنے منصوبے کی کو تسلیم ہے کہ ا سے کام کی طرف

پڑھیں:

’ٹرمپ امن منصوبہ‘: حماس کا یرغمالی رہا کرنے کا عندیہ خوش آئند، گوتیرش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے حماس کی جانب سے امریکی امن منصوبے کے تحت یرغمالیوں کی رہائی پر رضامندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی المناک جنگ کا خاتمہ کرنے کے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، سیکرٹری جنرل نے امریکہ کے اشتراک سے ثالثی کی کوششوں پر قطر اور مصر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ کہ غزہ میں فوری و مستقل جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی فوری و غیر مشروط رہائی اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنایا جائے۔

Tweet URL

انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ وہ جنگ کے خاتمے کی تمام کوششوں کی حمایت کریں گے تاکہ مزید انسانی تکالیف کو روکا جا سکے۔

(جاری ہے)

گزشتہ رات حماس کی قیادت نے کہا تھا کہ وہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی امن منصوبے کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن منصوبے کے بعض نکات پر ثالثوں کے ذریعے مزید مذاکرات چاہتی ہے۔ علاوہ ازیں، وہ فلسطینی قومی اتفاق رائے اور عرب و اسلامی ممالک کی حمایت سے جنگ کے خاتمے کے لیے پائیدار معاہدے کی موجودگی میں غزہ پٹی کا انتظام کسی فلسطینی ادارے کے حوالے کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

حماس کے اس اعلان پر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اسرائیل سے غزہ میں بمباری بند کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ انہیں یقین ہے کہ حماس پائیدار امن کے لیے تیار ہے۔

تباہی و تکالیف کے خاتمے کا موقع

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے امید طاہر کی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی سے اس تنازع کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار ہو گی، انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون اور عالمی انسانی قانون کے تحت غزہ کی بحالی اور علاقے میں تعمیر نو کے لیے مدد ملے گی اور مسئلے کا دو ریاستی حل نکلے گا۔

ہائی کمشنر نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم 'ایکس' پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ تمام فریقین اور ان پر اثرورسوخ رکھنے والے ممالک کے لیے نیک نیتی سے آگے بڑھنے اور غزہ میں تباہی و تکالیف کا خاتمہ کرنے کا اہم موقع ہے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقے میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد پہنچائی جانا چاہیے اور غزہ میں تمام یرغمالیوں کے علاوہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی بھی عمل میں آنی چاہیے۔

سرحدی راستے کھولنے کی ضرورت

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی رابطہ کار ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ امریکہ کی جانب سے غزہ کے لیے پیش کیے گئے امن منصوبے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔ اس وقت خطے بھر میں تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار میٹرک ٹن خوراک، ادویات، پناہ کا سامان اور دیگر ضروری امدادی اشیا غزہ میں لائے جانے کے لیے تیار رکھی ہیں۔

اس امداد کو غزہ پہنچانے کے لیے تمام سرحدی راستوں کو کھولنا اور عام شہریوں اور امدادی کارکنوں کی محفوظ نقل و حرکت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ امدادی سامان کی بغیر رکاوٹ آمد و رفت ممکن ہونی چاہیے، عملے کے لیے ویزوں کا اجرا کیا جائے، امدادی سرگرمیوں کے لیے موزوں جگہ دستیاب ہونی چاہیے اور نجی شعبے کی بحالی کو بھی ممکن بنایا جائے۔

دوسری جانب، اقوام متحدہ کی امدادی ٹیموں نے خبردار کیا ہے کہ شمالی غزہ میں صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے جہاں اسرائیل مکمل قبضے کے لیے متواتر حملے کر رہا ہے جبکہ ہزاروں شہری علاقے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ امن منصوبہ، پاکستان سمیت 8 مسلم ممالک کا حماس کے مثبت ردعمل کا خیرمقدم
  • عرب و مسلم ممالک کا حماس کے امن منصوبہ قبول کرنے کے اعلان کا خیر مقدم
  • ’ٹرمپ امن منصوبہ‘: حماس کا یرغمالی رہا کرنے کا عندیہ خوش آئند، گوتیرش
  • حماس کے ردعمل کے بعد اسرائیل نے غزہ پر قبضے کا منصوبہ فوری روک دیا
  • حماس یرغمالیوں کی رہائی کے لیے رضا مند
  • حماس کا امریکی جنگ بندی منصوبہ مسترد کرنے کا عندیہ
  •  غزہ امن منصوبہ ،فلسطینی مزاحمت کی ‘‘ہتھیار ڈالنے’’ کی دستاویز!
  • حماس کے عسکری ونگ نے جنگ بندی منصوبہ مسترد کردیا، بی بی سی کا بڑا انکشاف
  • حماس کے غیر مسلح ہونے سے انکار کے بعد امیر قطر کا ٹرمپ سے ٹیلی فونک رابطہ: وائٹ ہاؤس