سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں حماس کی جانب سے امریکی صدر کے مجوزہ منصوبے کو قبول کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔

اس معاہدے کے تحت جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور فوری مذاکرات کا آغاز شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیے: حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہیں، اسرائیل کا حماس کے بیان کے بعد ردعمل

بیان میں کہا گیا کہ یہ پیش رفت خطے میں امن کے قیام اور انسانی بحران کے خاتمے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ وزرائے خارجہ نے امریکی صدر کی ان کوششوں کی بھی حمایت کی جن کا مقصد اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ کرنا اور قیدیوں کا تبادلہ ممکن بنانا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ حماس کی جانب سے غزہ کی انتظامیہ کو ایک عبوری فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرنے کی رضامندی مثبت پیش رفت ہے اور فریقین سے فوری مذاکرات کے آغاز پر زور دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: اسرائیلی بمباری روک دے، حماس امن پر آمادہ ہے، صدر ٹرمپ

مشترکہ بیان میں زور دیا گیا کہ تمام جماعتیں ایسے اقدامات سے گریز کریں جو شہریوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالیں اور انسانی امداد کی ترسیل، فلسطینی اتھارٹی کی واپسی اور ایک متحد فلسطینی حکومت کے قیام کے ذریعے پائیدار امن کی راہ ہموار کی جائے، جو اسرائیلی انخلا، غزہ کی تعمیر نو اور دو ریاستی حل کی ضمانت دے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جنگ بندی حماس غزہ فلسطین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: فلسطین

پڑھیں:

حماس کے عسکری ونگ نے جنگ بندی منصوبہ مسترد کردیا، بی بی سی کا بڑا انکشاف

غزہ: برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ نے امریکا کے نئے جنگ بندی منصوبے کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ 

ذرائع کے مطابق حماس رہنما عزالدین الحداد کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ دراصل حماس کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، اسی لیے وہ لڑائی جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی فریم ورک اسرائیل پہلے ہی قبول کرچکا ہے، لیکن اس میں حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے اور غزہ کی حکومت میں اس کا کوئی کردار نہ ہو۔ 

قطر میں موجود حماس کی کچھ سیاسی قیادت منصوبے کو ترامیم کے ساتھ قبول کرنے پر تیار ہیں، مگر ان کا اثر و رسوخ محدود ہے کیونکہ یرغمالیوں پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ غزہ میں حماس کے قبضے میں 48 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ منصوبے کے تحت پہلے 72 گھنٹوں میں تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔

حماس رہنماؤں کو اس بات پر بھی خدشہ ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بعد دوبارہ حملے شروع کر سکتا ہے، خاص طور پر اس واقعے کے بعد جب امریکا کی مخالفت کے باوجود دوحہ میں حماس قیادت پر فضائی حملہ کیا گیا۔

مزید برآں، منصوبے میں غزہ کی سرحدوں پر ’سیکیورٹی بفر زون‘ قائم کرنے اور ایک عارضی بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے، جسے حماس ایک نئی قسم کا قبضہ قرار دیتی ہے۔ 

دوسری جانب، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی منصوبے کی کئی شقوں سے پیچھے ہٹنے کے اشارے دیے ہیں اور کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی مزاحمت کرے گا۔


 

متعلقہ مضامین

  • غزہ امن منصوبہ،پاکستان سمیت 8مسلم ممالک کا حماس کے ردعمل کا خیرمقدم
  • پاکستان سمیت مسلم ممالک کا حماس کی عبوری انتظامی کمیٹی کی تجویز پر خیر مقدم
  • ٹرمپ کاامن منصوبہ اور مسلم قیادت
  • حماس کے فیصلے کا خیر مقدم، مسلم وزرائے خارجہ کا واضح پیغام
  • پاکستان کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے پر حماس کے ردعمل کا خیر مقدم
  • پاکستان کا ٹرمپ کے امن منصوبے پر حماس کے جواب کا خیر مقدم
  • ٹرمپ کی حماس کو غزہ جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے کیلئے اتوار تک کی ڈیڈ لائن
  • حماس کا امریکی جنگ بندی منصوبہ مسترد کرنے کا عندیہ
  • حماس کے عسکری ونگ نے جنگ بندی منصوبہ مسترد کردیا، بی بی سی کا بڑا انکشاف