Islam Times:
2025-11-19@15:09:04 GMT

کیا حماس نے امریکہ و اسرائیل کو فریب دیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT

کیا حماس نے امریکہ و اسرائیل کو فریب دیا ہے؟

اپنے ایک تبصرے میں انصار الله کا کہنا تھا کہ غزہ کے لوگ گھٹن بھرے محاصرے، مسلسل حملوں اور روزانہ ہونے والی اموات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جسے کوئی عام انسان برداشت نہیں کر سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ گزشتہ روز فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" نے غزہ میں جنگ بندی كے لئے امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" كے پیش كردہ منصوبے كا جواب دیا۔ جس پر مختلف تجزیے اور تبصرے سامنے آ رہے ہیں۔ "انصار الله" سے مربوط یمنی نیوز ویب سائٹ  نے اپنی رپورٹ میں حماس کے جواب کو دانشمندانہ قرار دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حماس نے امریکی تجاویز کو من و عن قبول نہیں کیا۔ مذکورہ ویب سائٹ کے مطابق، حماس بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی اصل آواز اور ان کی دفاعی ڈھال ہے۔ حماس نے جس قسم کی قربانی دے دی ہے وہ دور بیٹھ کر باتیں اور رائے پیش کرنے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ رپورٹ کے مطابق، حماس نے ڈونلڈ ٹرامپ کی تجویز کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا بلکہ صرف بنیادی اصولوں سے اتفاق کیا، جیسے کہ اسرائیلی قیدیوں کو ایک یا کئی مرحلوں میں رہا کرنا۔ امریکی صدر کی تجویز میں کل 20 نکات تھے جب کہ حماس نے صرف 9 نکات سے اتفاق کیا۔ باقی نکات پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔ یہ نکات نئے نہیں، بلکہ پہلے بھی حماس ان سے متفق رہی ہے۔

حماس کے لئے ٹیکنوکریٹ (ماہرین پر مشتمل) حکومت کا تصور نیا نہیں، بلکہ وہ پہلے بھی ایسی ہی حکومت بنانے کی خواہش ظاہر کر چکی ہے۔ تاہم فلسطینی مزاحمت نے اس بات پر زور دیا کہ ان نکات پر عمل درآمد کے لئے مزید مذاکرات درکار ہیں۔ لہذا، حتمی موقف ابھی تشکیل پا رہا ہے اور حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے۔ باقی نکات سے حماس نے براہ راست اتفاق نہیں کیا، بلکہ کہا ہے کہ ان پر مزید بات چیت ہونی چاہئے۔ یہ ایک سوچا سمجھا سیاسی اور سفارتی رویہ ہے۔ البتہ حماس نے ان تجاویز کو مکمل طور پر مسترد بھی نہیں کیا، کیونکہ اس کے بعض نکات جیسے قیدیوں کی رہائی، جبری نقل مکانی کو روکنا، تعمیر نو اور جنگ بندی، فلسطینی مفاد میں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ڈونلڈ ٹرامپ کی تجویز میں کچھ خامیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے اسے موجودہ شکل میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے کہ اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلاء کی نوعیت اور استقامتی محاذ کے ہتھیار، کہ جنہیں حماس سے حاصل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہی کمزوریوں کی وجہ سے حماس نے سوچ سمجھ کر محتاط رویہ اپنایا ہے۔ تاکہ وہ کسی سیاسی یا عسکری جال میں نہ پھنس جائے۔

انصار الله نے مزید کہا کہ یمنی رہنماوں نے امریکی صدر کی تجویز کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ، فلسطینی مزاحمت پر چھوڑ دیا ہے۔ مقاومت کے حامی کی حیثیت سے ہمارا موقف اب بھی برقرار ہے۔ لہذا، فلسطینی مزاحمت جو بھی فیصلہ کرے گی، ہم اسے قبول کریں گے۔ کیونکہ سب سے زیادہ قربانی تو حماس ہی نے دی ہے۔ غزہ کے لوگ گھٹن بھرے محاصرے، مسلسل حملوں اور روزانہ ہونے والی اموات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جسے کوئی عام انسان برداشت نہیں کر سکتا۔ ان حالات میں، ہم دنیا کی خاموشی اور عرب و اسلامی ممالک کی ناکامی کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے صبر اور مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حماس کامیاب رہی اور ہمیں آئندہ ہونے والی پیشرفت کا انتظار کرنا چاہئے۔ یقیناً جنگ کے اس دور کا اختتام صرف اور صرف حماس و دیگر فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی شرائط پر ہی ہو گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینی مزاحمت نہیں کیا کی تجویز رہے ہیں

پڑھیں:

سلامتی کونسل ، ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے حق میں قرارداد منظور،حماس کی مخالفت، پاکستان کی حمایت

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پیر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔

جس میں بین الاقوامی فورس کی تعیناتی اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ شامل ہے۔

متن کے حق میں 13 ووٹ آئے، امریکی صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ’پوری دنیا میں مزید امن‘ کا باعث بنے گا، رائے شماری میں صرف روس اور چین نے حصہ نہیں لیا لیکن کسی رکن نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔

صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہا کہ ’بورڈ آف پیس کو تسلیم کرنے اور اس کی توثیق کرنے کا ووٹ، جس کی سربراہی میں ہوں گا، اقوام متحدہ کی تاریخ کی سب سے بڑی منظوری کے طور پر نیچے جائے گا، (اور) پوری دنیا میں مزید امن کا باعث بنے گا۔‘

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر مائیک والٹز نے ووٹنگ کے بعد کہا کہ ’آج کی قرارداد ایک اور اہم قدم کی نمائندگی کرتی ہے جو غزہ کو خوشحال اور ایک ایسا ماحول فراہم کرے گا جو اسرائیل کو سلامتی کے ساتھ رہنے کا موقع دے گا۔‘

لیکن فلسطینی تنظیم حماس، جسے غزہ میں کسی بھی حکومتی کردار سے قرارداد کے ذریعے خارج کر دیا گیا ہے، نے کہا کہ یہ قرارداد فلسطینیوں کے ’سیاسی اور انسانی مطالبات اور حقوق‘ کو پورا نہیں کرتی۔

متن، جس میں اعلیٰ سطحی مذاکرات کے نتیجے میں کئی بار نظر ثانی کی گئی تھی، امریکی صدر کے اس منصوبے کی ’توثیق‘ کرتی ہے، جس نے اسرائیل اور حماس کے درمیان 10 اکتوبر کو جنگ زدہ فلسطینی علاقے میں ایک نازک جنگ بندی کی اجازت دی تھی۔

7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی اسرائیل حماس جنگ کی وجہ سے دو سال کے دوران غزہ بڑی حد تک ملبے میں تبدیل ہو چکی ہے۔

14 نومبر 2025 کو ایک فلسطینی خاتون غزہ شہر میں نقل مکانی کرنے والے کیمپ میں کپڑے دھو رہی ہیں (اے ایف پی)

امن منصوبہ ایک بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کے قیام کی اجازت دیتا ہے جو اسرائیل اور مصر اور نئی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے اور غزہ کو غیر فوجی بنانے میں مدد فراہم کرے گی۔

آئی ایس ایف کو ’غیر ریاستی مسلح گروہوں سے ہتھیاروں کے مستقل خاتمے،‘ شہریوں کی حفاظت اور انسانی امداد کے راستوں کو محفوظ بنانے پر کام کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔

پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل سے خطاب میں صدر ٹرمپ کے غزہ میں جنگ کے خاتمے کےلیے اقدامات کو قابل تعریف قرار دیتے ہوئے کہا کہ امن معاہدے سے غزہ میں جنگ کا خاتمہ ہوا ہے۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ انہوں نے غزہ منصوبے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

فلسطینی ریاست کا راستہ

یہ ایک ’بورڈ آف پیس‘ کی تشکیل کی بھی اجازت دیتا ہے، جو غزہ کے لیے ایک عبوری گورننگ باڈی ہے، جس کی صدارت صدر ٹرمپ نظریاتی طور پر کریں گے، جس کا مینڈیٹ 2027 کے آخر تک جاری رہے گا۔

متضاد زبان میں، قرارداد میں مستقبل میں ممکنہ فلسطینی ریاست کا ذکر کیا گیا ہے۔

متن میں کہا گیا ہے کہ ایک بار جب فلسطینی اتھارٹی نے اصلاحات کی درخواست کی ہے اور غزہ کی تعمیر نو کا کام جاری ہے، ’فلسطینی خود ارادیت اور ریاستی حیثیت کے لیے ایک قابل اعتبار راستے کے لیے حالات بالآخر اپنی جگہ پر ہو سکتے ہیں۔‘

اس کو اسرائیل نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

قرارداد میں اقوام متحدہ، آئی سی آر سی اور ہلال احمر کے ذریعے بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی کو دوبارہ شروع کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر جیمز کریوکی نے کہا کہ ’ہمیں اقوام متحدہ کی انسانی کوششوں کی حمایت کے لیے اپنے کام کو بھی کافی حد تک تیز کرنا چاہیے۔ اس کے لیے تمام کراسنگ کھولنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ امدادی ایجنسیاں اور بین الاقوامی این جی اوز بغیر کسی رکاوٹ کے کام کر سکیں۔‘

اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے ووٹنگ سے قبل کہا کہ قرارداد ’اس بات کو یقینی بنائے گی کہ حماس اسرائیل کے خلاف مزید خطرہ نہیں بنے گی۔‘

ویٹو کی حمایت کرنے والے روس نے ایک مسابقتی مسودہ پیش کیا، جس میں کہا گیا کہ امریکی دستاویز فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کے لیے کافی حد تک نہیں جاتی۔

ماسکو کے متن نے کونسل سے کہا کہ وہ ’دو ریاستی حل کے وژن کے لیے اپنی غیر متزلزل عزم‘ کا اظہار کرے۔

اس نے اس وقت کے لیے کسی بورڈ آف پیس یا بین الاقوامی فورس کی تعیناتی کی اجازت نہیں دی ہو گی، بجائے اس کے کہ وہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش سے ان مسائل پر ’آپشنز‘ پیش کرنے کو کہیں۔

ماسکو کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے کہا، ’عملی طور پر سکیورٹی کونسل کے ارکان کو نیک نیتی سے کام کرنے کے لیے وقت نہیں دیا گیا۔

قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انڈونیشیا، پاکستان، اردن اور ترکی کے دستخط شدہ متن کی حمایت کا مشترکہ بیان شائع کرتے ہوئے، امریکہ نے کئی عرب اور مسلم اکثریتی ممالک کی حمایت حاصل کی۔

متعلقہ مضامین

  • نام نہاد غزہ امن فورس اور پاکستان
  • اسرائیل نے جنگ بندی معاہدےکی دھجیاں اڑادیں، آج پھر لبنان پر حملہ کردیا، 13 افراد جاں بحق
  • جنوبی لبنان میں صیہونی فورسز کا فضائی جارحیت، 13 افراد شہید، متعدد زخمی
  • سلامتی کونسل ، ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے حق میں قرارداد منظور،حماس کی مخالفت، پاکستان کی حمایت
  • حماس نے غزہ قرارداد مسترد کردی، اسرائیل کے خلاف ہتھیار ڈالنے سے انکار
  • غزہ: اسرائیلی حملے‘ 3 شہید‘ متعدد ز خمی‘فلسطینی ریاست کی مخالفت جاری رہے گی‘ نیتن یاہو
  • اسرائیل فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی کوشش کر رہا ہے، جنوبی افریقا
  • فلسطینی ریاست کسی حال میں قبول نہیں، حماس کو ہرحال میں غیرمسلح کیا جائے گا: نیتن یاہو
  • سکیورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
  • سیکورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان